بھارت گھر کے موسم کی خبر لے

361

بھارت کے سرکاری دور درشن ٹی وی اور آل انڈیا ریڈیو نے ملک بھر کے موسم کی خبروں میں آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے موسم کا احوال بھی سنانا شروع کیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارتی تجزیہ نگاروں، ٹی وی میزبانوں اور ریٹائرڈ فوجیوں کی زبانوں نے یہ شعلے اُگلنا شروع کر دیے ہیں اب بھارتی حکومت کو آگے بڑھ کر آزادکشمیر اور گلگت پر قبضہ کرنا چاہیے۔ بھارتی فوج کے سربراہ نے بھی یہ بات کی ہے کہ اس حملے کے حوالے سے تمام انتظامات مکمل ہیں اور صرف حکومت کے احکامات کا انتظار ہے۔ پانچ اگست کو جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی شناخت کرنے کا قانون پارلیمنٹ میں منظور کیا تھا تو وزیر داخلہ امیت شاہ نے وضاحت کے ساتھ کہا تھا کہ جموں وکشمیر سے مراد آزادکشمیر اور گلگت بلتستان سمیت پوری ریاست ہے۔ اب بھارتیوں نے آزادکشمیر اور گلگت پر ترنگا لہرانے کے نعروں میں شدت پیدا کر دی ہے۔ ایک مخصوص ہندو ذہنیت کے تجزیہ نگار اس مجہولانہ قسم کے تصور کی بڑھ چڑھ کر حمایت کر رہے ہیں۔ حکومت پاکستان ان ساری باتوں اور دھمکیوں کے جواب میں بھارت کی طرف سے فالز فلیگ آپریشن کے خطرے کی دُہائی دے رہے ہیں۔ کنٹرول لائن شدید کشیدگی کی زد میں ہے اور بھارت کی جنگی تیاریاں زوروں پر ہیں۔ بھارت کی واحد بدقسمتی یہ ہے کہ کشمیر کی زمین اس کے پیروں تلے نہیں۔ وادی بھارت کے خلاف ایک آتش فشاں کا روپ دھارے ہوئے ہے اور کسی بھی جنگ میں آبادی کا ساتھ ہونا فتح کی کلید ہوتا ہے مگر کشمیری بھارت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے ہیں اور ہر قیمت پر استخلاص ِ وطن کی تحریک جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آزادکشمیر اور گلگت بلتستان پر بھارت کا دعویٰ نیا ہے نہ حملے اور قبضے کی باتیں انوکھی ہیں۔ بھارت بہتر سال سے چھیچھڑوں کے خواب دیکھ رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر اسمبلی میں آزادکشمیر اور گلگت کے لیے پچیس خالی نشستیں بہتر سال سے خالی ہی پڑی ہیں اور بھارت کو اپنے عزائم اور ارادوں پر عمل کرنے کی جرأت نہیں ہوئی۔ اب ٹی وی پر موسم کا حال بتانے پر غالب کا یہ مصرع صادق آتا ہے کہ ’’جی کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے‘‘۔ بھارت یہ بات بھول رہا ہے کہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے اور ایک لائن مقرر کیے ہوئے ہے۔ دنیا میں جو تقسیم اُبھری ہے اس میں پاکستان کو سفارتی سطح پر کسی بڑی کامیابی کا امکان نہیں کیونکہ بھارت اس وقت امریکا کے کندھوں پر ناچ رہا ہے۔ امریکا بھارت کو چین کے مقابلے کے لیے تیار کر رہا ہے۔ پاکستان چین کے ساتھ پوری قوت سے کھڑا ہے بلکہ سی پیک کے ذریعے چین کا باقی دنیا تک رسائی دینے میں پیش پیش ہے۔ امریکا اور اس کے زیر اثر بلاک اور ملکوں سے کسی خیر کی توقع نہیں۔ موجودہ حالات میں ان کی طرف سے پاکستان کو کشمیر پر کوئی بڑی حمایت ملنا یا بھارت کے خلاف پابندیاں عائد کرکے اس کی کلائی مروڑنا بعید از قیاس ہے۔ سی پیک مخالف رنگی برنگی دہشت گردی کو امریکا اور بھارت کی حمایت حاصل ہے۔ اس لیے بھارت کی کسی بھی مہم جوئی کے جواب میں پاکستان کو اپنے زور باز پر بھروسا کرنا ہے۔ اس دوران بھارت اور چین کی سرحد پرلائن آف ایکچوئل کنٹرول پر سکم کے علاقے میں دونوں ملکوں کی فوجوں کے درمیان تصادم میں کئی فوجی زخمی ہوئے ہیں۔ سکم کے علاقے میں چین ایک سڑک تعمیر کر رہا ہے اور یہ مسئلہ برسوں سے دونوں ملکوں کے درمیان وجہ نزع ہے۔ حتیٰ کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ کا آغاز اسی علاقے سے چل پڑنے والی کشیدگی سے ہوا تھا۔
1975 میں بھارت نے سکم کے علاقے کو اپنا حصہ بنایا ہے اس سے پہلے یہ علاقہ بھارت کا حصہ نہیں تھا اور چین سکم پر اپنا دعویٰ رکھتا ہے۔ اس علاقے میں چین کی فوج ہر سال آہستگی کے ساتھ پیش قدمی کرتی رہی ہے مگر بھارت کو اس کا راستہ روکنے کی جرات نہیں ہوئی۔ اب یہ علاقہ چین اور بھارت کے درمیان کھٹ پٹ کا مرکز ہے۔ چین چاہے تو معمولی سی پیش قدمی کرکے بھارت کی شمالی مشرقی ریاستوں کو باقی ملک سے کاٹ کر رکھ سکتا ہے۔ ان میں آسام، ناگالینڈ میزورام اور منی پور جیسی ریاستیں شامل ہیں جہاں مدت دراز سے علٰیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ مائو نواز عسکریوں نے یہاں بھارتی فوج کا ناک میں دم کر رکھا ہے۔ ان ریاستوں کو باقی بھارت سے ایک چھوٹی سے پٹی ملاتی ہے اور اس پٹی پر چین کا وار بھارت کو دوحصوں میں تقسیم کر سکتا ہے۔ اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے گلگت پر حملے کی دھمکیوں کو دیکھا جائے تو اس میں سی پیک کو ناکام بنانے کے عزائم صاف جھلکتے ہیں۔ بھارت سی پیک پر وار کرکے چین اور پاکستان کا زمینی رابطہ کاٹنا چاہتا ہے۔ ایسا سوچتے ہوئے بھارت یہ بات فراموش کر رہا ہے کہ سی پیک پرچین بھاری سرمایہ کاری کر چکا ہے اور یہ صرف ایک سڑک نہیں آزاد دنیا میں اس کی سانس لینے کی واحد کھڑکی ہے۔ خدا نخواستہ گلگت بلتستان کا راستہ بند ہوا تو چین کا گھیرائو اور اس کے گلے کا پھندہ مکمل ہوجاتا ہے۔
چین اور پاکستان سی پیک مخالف سرگرمیوں پر مشترکہ اور متحدہ ردعمل دکھانے کے عہد وپیماں بھی کیے ہوئے ہے۔ اس لیے ایسی کوئی بھی حماقت بھارت کو مہنگی پڑ سکتی ہے۔ اس لیے بھارت کی طرف سے آزادکشمیر اور گلگت بلتستان کے موسم کا احوال بتانے میں کوئی نیا پن نہیں یہ پرانی سوچ کا ایک اور پہلو سے اظہار ہے۔ آزادکشمیر اور گلگت بلتستان تو بھارت کے لیے کھٹے انگور ہیں مگر سکم پر اس کا کنٹرول ہے اور سکم کے ساتھ جڑی سات ریاستیں اس کا حصہ ہیں ان ریاستوں سے محرومی ایک بڑے حصے سے محرومی ہو گی۔ یہ بات بھارت پوری طرح سمجھ چکا ہے اسی لیے اس کے فوجی ماہرین ہمیشہ دومحاذوں کی جنگ کی بات بھی کرتے ہیں اور اس حوالے سے جنگی تیاریاں بھی کرتے ہیں۔