قومی اسمبلی میں جگت بازی

348

قومی اسمبلی کا اجلاس کورونا کی صورتحال پر بحث کے لیے طلب کیا گیا تھا جو پورا ہفتہ چلتا رہا لیکن حاصل کچھ نہ ہوا۔ اسمبلی کے ایک اجلاس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔ اجلاس میں سارے ارکان آتے تو خرچہ اور بڑھ جاتا۔ لیکن تمام اجلاس حکومت اور حزب اختلاف میں لفظی جنگ کی نذر ہو گئے البتہ ارکان کی جگت بازی سے نہ صرف ارکان محظوظ ہوئے بلکہ ذرائع ابلاغ کو بھی تبصروں کے لیے خوب مواد ملا۔ خاص بات یہ بھی ہے کہ کسی بھی اجلاس میں نہ خود وزیراعظم شریک ہوئے اور نہ ہی قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے اپنا چہرہ دکھایا۔ معمر افراد کو کورونا سے زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ قائد حزب اختلاف بھی خوف کے مارے نہیں آئے لیکن وزیراعظم عمران خان کو تو ضرور آنا چاہیے تھا کہ یہ ان کی ذمے داری ہے۔ عمران خان نے اپنے منصب کا حلف لینے کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ اجلاسوں میں نہ صرف شرکت کیا کریں گے بلکہ ہر ہفتے سوالوں کے جواب بھی دیا کریں گے۔ یہ ہفتہ کبھی نہیں آیا۔ عمران خان جب اقتدار میں نہیں تھے تب بھی مہینوں تک قومی اسمبلی کا رخ نہیں کیا اور اسے چوروں لٹیروں کا گڑھ کہتے رہے، مگر اب تو وہ حکومت میں ہیں۔ قومی اسمبلی کا حالیہ اجلاس آپس میں جھگڑے اور شور شرابے کی فضا میں غیر معینہ مدت تک ملتوی ہو گیا۔ سینیٹ کے اجلاس میں بھی یہی مناظر نظر آئے۔ قومی اسمبلی میں زیادہ تر تیر اندازی حزب اختلاف، بالخصوص شریف برادران اور حکومت سندھ پر کی گئی لیکن کورونا کی مصیبت سے نمٹنے کے لیے کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع نہ کی جاسکی۔ پہلے دن تو یہ ہوا کہ حزب اختلاف کے ارکان کی تقاریر کے بعد ابھرتے ہوئے شعلہ بیان مقرر مراد سعید جب جواب دینے کھڑے ہوئے تو پوری حزب اختلاف ایوان سے باہر چلی گئی۔ انہیں معلوم تھا کہ مراد سعید کیا کہیں گے۔ چنانچہ وہ صرف اپنے لوگوں کے سامنے بھڑاس نکالتے رہے۔ گزشتہ جمعہ کے اجلاس میں پیپلز پارٹی کی رکن شازیہ مری کا مائیک بند کرکے کسی حد تک بدلہ لیا گیا۔ وفاقی وزیر اسد عمر نے اعتراف کیا کہ ’’اجلاس میں سیاسی جگت بازی کے سوا کچھ نہیں کیا گیا‘‘۔ اس جگت بازی میں حکمران پارٹی کے ارکان نے بھی برابر کا حصہ لیا۔ تمام اجلاسوں کا لب لباب یہ رہا کہ ’’نشتندو گفتندو برخاستند‘‘۔ یہ کام بھی اگر شائستگی سے ہوتا تو غنیمت تھا۔ یہ ہماری قوم کے رہنما ہیں، انہی سے عوام کچھ سیکھیں گے مگر کیا سیکھ پائیں گے۔ انہیں تو رول ماڈل یا مثال بننا چاہیے۔ اگر کچھ کسر رہ جاتی ہے تو وہ ٹی وی چینلوں پر پوری کی جاتی ہے۔ اسد عمر نے حق ادا کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وزیراعظم عمران خان نے کورونا پر جو راستہ بہت پہلے اپنایا اب پوری دُنیا اسی راستے پر چل رہی ہے۔ کہیں یہ ان کے بقول جگت بازی کا حصّہ تو نہیں؟ ارکان اسمبلی اس پر تو متفق ہیں کہ کورونا کی وبا کا مقابلہ ایک قوم بن کر کرنا چاہیے لیکن اس کے لیے عملاً کوئی تیار نہیں۔ کورونا سے لڑنے کے بجائے آپس کی جنگ اور وفاق کی توپوں کا رخ سندھ کی طرف کرنے سے کیا یکجہتی پیدا ہو سکتی ہے۔حزب اختلاف کا مطالبہ ہے کہ حکمران جماعت میں بیٹھے ہوئے بدعنوان عناصر کا احتساب کب ہوگا۔ پرانے مقدمات کے علاوہ اب وفاقی وزیر ہوا بازی غلام سرور بھی نیب کی زد میں ہیں لیکن وہی پرانا راگ کہ میں تو احتساب کے لیے تیار ہوں لیکن دوسروں کو بھی تو پکڑو۔ جمعہ کے اجلاس میں انہوں نے کہا کہ حکومتی بنچوں اور وفاقی کابینہ کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔ ضرور ہونا چاہیے لیکن اپناحساب تو دیں۔ یہ حربہ پرانا ہے کہ دوسرے بھی تو چور ہیں۔ وہ حکومت میں ہیں پہلے اپنا دامن صاف کریں۔ احتساب، بدعنوانی کی روک تھام، مہنگائی پر قابو اور اب کورونا، کہیں کوئی پالیسی واضح نہیں۔