پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے پر تنازع

444

خیبر پختون خوا اور پنجاب کی حکومتوں نے پیر سے وفاق کی ہدایت پر پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے کا اعلان کردیا ہے ۔ وزیرا عظم عمران خان نے تمام صوبوں کو پبلک ٹرانسپورٹ کھولنے کی ہدایت دیتے ہوئے نشاندہی کی ہے کہ امریکا اور یورپ جہاں پر ایک دن میں 8 سو افراد مررہے ہیں ، انہوں نے پبلک ٹرانسپورٹ بند نہیں کی تو ہم کیوں بند کریں ۔ انہوں نے کہا کہ اس سے غریب افراد کو نقصان پہنچ رہا ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نے درست ہی کہا ہے کہ اگر کوئی یقین دلاتا کہ دو یا تین ماہ کے لاک ڈاؤن سے کورونا ختم ہوجائے گا تو ہم ایسا کرلیتے مگر ایک سال میں بھی کورونا کی ویکسین آنے کے آثار نہیں ہیں ۔ ہم مسلسل لاک ڈاؤن کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ وزیر اعظم نے برمحل سوال کیا ہے کہ میڈیکل برادری بتائے کہ لاک ڈاؤن سے ملک میں 15کروڑ افراد متاثر ہیں ، ان لوگوں کا کیا کریں ۔ وزیر اعظم عمران خان نے جو کچھ بھی کہا ہے ، اس سے کوئی بھی صاحب عقل انکار نہیں کرسکتا مگر اس کا کیا کیا جائے سندھ کے وزیر اعلیٰ کی اپنی منطق ہے ۔ حکومت سندھ کا کہنا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ اور بڑے شاپنگ مالز کھولنے کا مطلب کورونا وائرس کا آؤٹ بریک ہے جس پر قابو پانا ناممکن ہوگا ۔ ان ہی صفحات پر کچھ دن پہلے ہی ہم عرض کرچکے ہیں کہ اتنے افراد تو کورونا کی وجہ سے نہیں مرے جتنے افراد پبلک ٹرانسپورٹ بند ہونے کی وجہ سے اسپتال نہ پہنچنے کے باعث جاں بحق ہوگئے ہیں ۔ اسے پیپلزپارٹی کی نااہلی ہی کہا جاسکتا ہے کہ مسلسل تیسری مرتبہ پیپلزپارٹی کی صوبے میں حکومت ہے مگر پھر بھی کسی علاقے میں صحت و تعلیم کی بنیادی سہولتیں ہی دستیاب نہیں ہیں اور معمولی امراض کے شکار مریض بھی کراچی کا رخ کرنے پر مجبور ہیں ۔ لاک ڈاؤن کی وجہ سے انٹر سٹی بسیں مسلسل دو ماہ سے بند ہیں جس کی وجہ سے یہ مریض کراچی کے اسپتال نہیں پہنچ سکتے اور یوں وہ اپنے گھروں میں ہی سسک سسک کر مرنے پر مجبور ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق انٹر سٹی بسیں بند ہونے کے باعث اب تک تقریبا چھ ہزار بچے ہی اندرون سندھ موت کو گلے لگاچکے ہیں ۔ ہم سندھ حکومت سے درخواست کریں گے کہ ہٹ دھرمی سے کام لینے کے بجائے زمینی حقائق پر غور کرے اور عوام کے دکھ درد کو سمجھے ۔ فوری طور پر سندھ میں بھی کاروبار کو مکمل طور پر کھولنے کی اجازت دی جائے ، کاروباری اوقات بڑھائے جائیں تاکہ ایک وقت میں زیادہ ہجوم نہ جمع ہو اور فوری طور پر اندرون شہر اور بیرون شہر پبلک ٹرانسپورٹ کو کھولا جائے ۔ حکومت سندھ کی وجہ سے ہی ابھی تک ریلوے بھی اپنا آپریشن شروع نہیں کرسکی ہے ۔بہتر ہوگا کہ ٹرین سروس بھی فوری طور پر شروع کی جائے تاکہ شہری اپنے گھروں کو روانہ ہوسکیں ۔اب تو وفاقی حکومت کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے بھی متنبہ کردیا ہے کہ کورونا کی وجہ سے بے روزگاری بڑھے گی ۔ معاشی لحاظ سے آئندہ چار ہفتے انتہائی مشکل ہوں گے ۔ ایسے میں عوام کی مشکلات میں اضافے کے بجائے سندھ حکومت کو عوام کے مسائل میں کمی کے اقدامات کرنا ہوں گے ۔ جہاں تک لاک ڈاؤن کی مدد سے کورونا کے پھیلاؤ کو روکنے کی بات ہے تو عوام نے جمعہ ہی کو دیکھ لیا کہ کس طرح صوبائی وزراء بغیر کسی حفاظتی ماسک کے یوم علیؓ کے جلوس میں شریک تھے ۔ کہیں پر کسی ایس او پی پر عمل نہیں کیا گیا ۔یوم علیؓ کے جلوس میں صوبائی وزراء کی یوں ہجوم میں بغیر کسی ماسک کے شرکت یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ اگر کاروبار اور پبلک ٹرانسپورٹ بھی کھول دیا جائے تو بھی ایسا کچھ نہیں ہوگا جس کے خدشات ظاہر کیے جارہے ہیں ۔ ویسے بھی ہفتے میں چار دن چند گھنٹے کے لیے کاروبار کھولنے سے معاشی سرگرمیاں بحال نہیں ہوسکتیں ۔ اس کے بجائے سندھ حکومت کو چاہیے کہ صوبے میں معاشی سرگرمیوں کی مکمل بحالی کے لیے منصوبہ بندی کرے ۔ مون سون کا موسم سر پر ہے ، اس کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کرلی جائے کہ بارشوں کے بعد پانی نہ کھڑا ہو ، ،مکھی اور مچھر مار اسپرے بروقت کیے جائیں اور جگہ جگہ موجود کچرے کے ڈھیر ختم کیے جائیں تو ہی صوبے میں صحت مند اور صاف ماحول پیدا ہوسکتا ہے ۔