لاک ڈائون: نرمی یا سختی

319

ڈاکٹر رضوان الحسن انصاری
حکومت کی مشکل یہ ہے کہ کورونا کے پھیلائو کو روکنے کے لیے اگر سخت لاک ڈائون کیا جائے تو عوام، تاجر، صنعت کار، دکاندار، ٹرانسپورٹرز اور دوسرے شعبوں کا دبائو بڑھ جاتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر محنت مزدوری کرکے کمانے والے افراد بہت بُری طرح متاثر ہوتے ہیں اور اگر نرمی کی جائے تو عوام دکاندار اور ٹرانسپورٹرز تمام SOP’s نظر انداز کرتے ہوئے ماسک اور سماجی فاصلہ برقرار رکھے بغیر بازاروں، مارکیٹوں اور دکانوں پر ایسا ہجوم کردیتے ہیں کہ شاید آج کے بعد کل کچھ نہیں ملے گا۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کے متاثر ہونے اور سیکڑوں اموات کے باوجود پاکستانی قوم نے کورونا وائرس کی وبا کو سنجیدہ نہیں لیا ہے جب کہ اگر آپ اپنے جاننے والوں، دوستوں، رشتے داروں، پڑوسیوں یا دفتر کے ساتھیوں پر نظر ڈالیں تو کورونا سے متاثرہ لوگ آپ کو مل جائیں گے اور کہیں کہیں اموات کی خبر بھی سنائی دے گی۔ عوام کی لاپروائی اور غیر سنجیدگی کے باعث یہ ناخوشگوار صورت حال ہی سامنے آرہی ہے کہ بعض مارکیٹیں سیل کردی گئیں، کہیں جرمانے کیے گئے ہیں اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے دوبارہ لاک ڈائون سخت کرنے کی وارننگ دی جارہی ہیں۔
سخت لاک ڈائون نہ عوام کے لیے بہتر ہے اور نہ ہی معیشت کے لیے، کاروبار، صنعت، تجارت، تعمیرات، ٹرانسپورٹ بند ہونے کے انتہائی خوفناک اثرات دنیا بھر سے سامنے آرہے ہیں۔ امریکی معیشت کے 5 فی صد، یورپی ممالک 6.5 فی صد، آسٹریلیا و نیوزی لینڈ 4.5 فی صد، خلیجی ممالک کے 6 فی صد کے حساب سے سکڑنے کے امکانات ہیں، چین جو دوسری بڑی معیشت ہے دنیا بھر میں جو مسلسل 30 سال سے معاشی لحاظ سے اوسطاً 8 فی صد سے ترقی کررہا ہے پہلی مرتبہ اس کی معیشت میں 5.5 فی صد سے سکڑجائے گی۔ اسی صورت حال کو دیکھتے ہوئے جن ممالک نے لاک ڈائون میں نرمی کی وہاں کورونا نے شدت پکڑلی۔ چین کی مثال سامنے آئی، سخت لاک ڈائون کے باعث حالات کنٹرول میں آگئے، چناں چہ لاک ڈائون میں نرمی کی گئی۔ چینی عوام نے خوشی کا اظہار کیا، جگہ جگہ تقریبات ہوئیں، زندگی کے معمولات دوبارہ نارمل ہونے لگے، کورونا نے دوبارہ پھیلنا شروع کردیا اب دوبارہ ہر جگہ ٹیسٹنگ اور اسکریننگ شروع کردی گئی۔
کورونا وائرس کی وجہ سے جب دنیا کی مضبوط معیشتیں لڑکھڑا رہی ہیں اور وہاں بیروزگاری 20 سے 25 فی صد تک پہنچنے والی ہے تو اندازہ لگالیں پاکستانی معیشت کا کیا حال ہوگا جو اس وبا سے پہلے بھی ڈگمگا رہی تھی اور آئی ایم ایف کی سخت شرائط کے باعث معاشی شرح نمو ساڑھے پانچ فی صد سے کم ہو کر ڈھائی تین فی صد رہ گیا تھا۔ لاک ڈائون اور عالمی معاشی گراوٹ کے باعث منفی ڈیڑھ فی صد ہوگیا ہے۔ برآمدات میں چالیس سے پچاس فی صد کمی ہوگئی ہے، زمینی برآمدات براستہ افغانستان اور ایران نہ ہونے کے برابر ہیں۔ بڑی صنعتوں کی پیداوار میں 23 فی صد کی کمی ہوگئی، آٹو موبائل سیکٹر میں پیداوار مکمل طور پر رُک چکی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں سے جو ترسیلات زر حاصل ہوتی تھیں وہاں کے حالات ناسازگار ہونے کے باعث اُن میں 6 فی صد کمی ہوچکی ہے۔ صنعتیں اور کاروبار بند ہونے کی وجہ سے ٹیکسوں کی وصولیابی میں شدید کمی ہوئی ہے، پاکستان بمشکل تین ساڑھے تین ہزار ارب روپے کا ٹیکس جمع کرپائے گا جب کہ اخراجات وہیں کے وہیں ہیں بلکہ عمران خان کی حکومت نے وزیروں اور مشیروں کی جو فوج اکٹھی کی ہے اس سے غیر پیداواری اخراجات میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ چناں چہ بجٹ خسارہ تو ساڑھے نو فی صد تک چلا جائے گا۔ ماہرین معیشت یہ اندازہ لگارہے ہیں اس صورت حال میں ایک کروڑ تک افراد بے روزگار ہوسکتے ہیں۔
دوسری طرف رواں سال 2019-20 اپنے اختتام پر ہے اور جون میں حکومت اگلے سال کے لیے بجٹ پیش کرنے کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہے۔ خزانہ، منصوبہ بندی، تجارت، سرمایہ کاری اور محاصل کی وزاراتوں میں اعداد و شمار اکٹھے کیے جارہے ہیں، رواں سال کا معاشی جائزہ Economic survey بجٹ سے پہلے عوام کے سامنے پیش کیا جاتا ہے، آئندہ سال کے لیے آئی ایم ایف نے جو شرائط حکومت کو دی ہیں اُن کو بھی سامنے رکھنا ہوگا، آئندہ سال کے لیے سنا ہے آئی ایم ایف نے پھر پانچ ہزار ارب روپے کے ٹیکس جمع کرنے کا ٹارگٹ دے دیا ہے اب یہ پاکستانی معاشی ٹیم پر منحصر ہے کہ وہ کس حد تک شرائط کو تسلیم کرتے ہیں اور کس چابکدستی اور ذہانت سے پاکستانی معیشت کی صورت حال آئی ایم ایف کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک کی جانب سے چھوٹے کاروباری اداروں کو 3 فی صد شرح سود سے قرضوں کی فراہمی کی اسکیم بہتر ہے تا کہ یہ ادارے اپنے ملازمین کو تنخواہیں ادا کرسکیں، اس قسم کے مزید اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تا کہ بے روزگاری کو بڑھنے سے روکا جاسکے اور غریب، مستحق، نادار اور بے روزگار لوگوں کے لیے امداد اور راشن کی فراہمی کے سلسلے کو مزید بڑھایا جائے اور منظم کیا جائے۔ اس موقع پر سیاسی پوائنٹ اسکورننگ سے بچنے کی ضرورت ہے۔