چین اسرائیل میگا اقتصادی معاہدہ ،تل ابیب کی سی پیک میں شمولیت ،امریکا غائب؟

266

چین اسرائیل میگا اقتصادی معاہدہ ،تل ابیب کی سی پیک میںشمولیت ،امریکا غائب نظر آرہا ہے ،سال2019 ء کے آخر میں جب چین پوری دنیا میں” سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈـ”پر تیزی سے کام کر رہا تھاچینی صدر نے اسرائیل کا رخ کیا جہاں انھوں نے اسرائیل وزیر عظم اور ان کی کابینہ کو کھل کر چین اسرائیل معاشی اتحاد کے بارے میں بتایااور سی وقت یہ طے پایا کہ اسرائیل حیفا کی بندر گاہ کو 25سال کے لیے چین کو پٹے (لیز )پر دے گا۔ اس بندرگاہ کا پورا کنٹرول چین کے پاس ہو گا اس کے علاوہ چین ریٹ مین سے بحرِ احمر تک ایک موٹر وے بنائے جس کی لمبائی 300کلو میٹر ہے یہ منصوبہ 2ارب ڈالر کا ہو گا،چین کی 20 بڑی کمپنیز اسرئیل کے مختلف شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری کر رہی ہیں،جس میں سے 6کمپنیز کی سرمایہ کاری غیر معمولی ہو گی۔ اسرائیل میںنئی حکومت کی آمد کے ساتھ ہی چین نے اسرئیل سے معاہدے پرکر نے کی درخواست اور اسرئیل نے فوری طورپر چین کو حیفا کی بندرگاہ چین کے حوالے کر نے کا عندیہ دیا اور چین کے چھوٹے جہاز حیفا پہنچ گے ۔حیفا کے بندرگاہ پر اس وقت امریکا کا چھٹا بحری بیڑہ موجود ہے جس کو چین نے بندرگاہ چھوڑنے کی ہدایت کر دی ہے ۔ اس وقت کورونا وبا ء کی وجہ سے ہر طرح کی سفارتکاری صرف فون پر ہو رہی ہے کورونا وباء کی وجہ سے ہر طرح کی سفارتکاری صرف فون تک محدود ہیں ۔ خراب صورتحال کو دیکھتے ہو ئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو فوری طور پر اسرائیل پہنچ گئے،جہاںچڑیا چگ گئیں کھیت ۔ چین کے اس معاشی معاہدوں کو آخر کار یورپ جانے والی ون بیلٹ ون روڈ سے منسلک کر دیا جائے گا۔امریکا کے صدر ٹرمپ نے اپنے پہلے دورے اسرئیل میں اپنی بیوی ،بیٹی اور داماد کے ساتھ ـ”دیوار گریہ کے پاس موٹے موٹے آنسوسے روتے رہے لیکن اسرائیل نے وہی کیا جو اس کے لیے بہتر ہے۔ہر ایک کے اس میں یہی سبق ہے کہ دوسروں کی دوستی ملک کے لیے ہو نا ضروری ہے
اب ساؤتھ ایشیاخطے پر نظر ڈالتے ہیں جہاں امریکابھارت طالبان اتحاد کی کوشش جاری ہے ، بھارت کی جانب سے کشمیریوں کی جدجہدتباہ کر نے کے لیے نئی سازش کا آغاز کر دیا گیا ہے امریکابھارت طالبان مذاکرات کاآغازشروع کر نے لیے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے ا فغانستان کے لیے امریکاکے خصوصی نمائندے زلمے خلیل زاد کا کہنا ہے کہ بھارت کو طالبان کے ساتھ براہ راست بات کرنی چاہیے۔ یہ شاید پہلا موقع ہے کہ کسی امریکی اہلکار نے بھارت و طالبان کے ساتھ بات چیت کرنے کی پیشکش کی ہو۔ بھارت خطے میں وہ واحد ملک ہے، جس کے طالبان کے ساتھ باضابطہ رابطے نہیں ہیں۔ اس پوری صوتحال کا بھارت کا اس کے سواور کیا مقصد ہو سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ وہ پاکستان اور افغانستان جو طالبان حکومت کے دوبارہ ایک “تاریخی تعلقات” میں ہو نے جارہا جس سے امریکا اور بھارت دونوں کی خطے میں جاری داداگیری کا خاتمہ ہو جائیگا
اُدھر دوسری جانب بھارت نے چین پر گرفت کی مظبوطی کے لیے دو نئے محاذ کھولنے کی کوشش میں ناکام ہوگیا 5مئی 2020ء کو چینی علاقے “اقسائے چن ــــــــ” اور 10 مئی کونیپالی سرحدے علاقے پر قبضے کی کوشش میں نا کا م ہو ا،چین نے بھارتی حملے کا سختی سے نوٹس لیتے ہو ئے فوری طور پر بھارتی مقبوضہ علاقے “لد اخ”کے مشرقی علاقے سوئن پر اپنے جنگی جہازوں سے حملہ کیا اور بھارت کے جنگی جنون کو خاک میں ملا دیا ۔
افغان اور بھارت میں فاصلوں کی دو بڑی وجوہات ہیں جس کے باعث اب تک بھارت نے طالبان کے ساتھ رابطہ نہیں رکھا۔ ایک طالبان کا پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات یا پھر پشت پناہی کا الزام اور دوسری طالبان کی کشمیر میں بھارت کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی حمایت ہیں۔بھارت نے پچھلے 20 برس میں افغانستان میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی ہے اور افغانستان نے بھی بھارت کے ساتھ اپنی دوستی کو ہر ممکن طور برقرار رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ کابل میں انڈین سفارتخانے کے مطابق اب تک بھارت افغانستان میں دو ارب امریکی ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کرچکا ہے۔نئی دہلی اور کابل کی دوستی اس لیے بھی مضبوط ہوتی گئی کہ دونوں اسلام آباد پر طالبان اور کشمیر میں لڑنے والے مجاہدین کی مدد کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔بھارت کے لیے ایک فرینڈلی میسج ہے جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ طالبان عنقریب افغانستان کی سیاست میں آسکتے ہیں اور بھارت کو بھی آن بورڈ آنا چاہیے۔
بھارت اور افغانستان کی دوستی کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت کی اب بھی یہی شرائط کسی نہ کسی طور پر شامل ہو گی کہ طالبان کا پاکستان کے ساتھ قریبی تعلقات یا پھر پشت پناہی کا سلسلہ ختم ہو جائے اور طالبان کی کشمیر میں بھارت کے خلاف لڑنے والے مجاہدین کی حمایت ہیںلیکن سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ اب طالبان بھارت کے ساتھ اپنی مشکل آسانی سے حل کرسکتے ہیں۔‘بھارت کو بھی اب یہ احساس ہوا ہے کہ طالبان کو صرف اور صرف پاکستان کے زاویے سے نہیں دیکھنا چاہیے۔
بھارت جبب بھی کسی ملک یا گروپ سے تعلقات میں اضافہ کر تا ہے تو اس کا ایک ہی مقصد ہو تا ہے وہ ملک یا گروپ پاکستان اور خا ص طور پر کشمیریوں کے جد جہد ِ آزادی کی حمایت نہ کر ے ،مودی سرکار 2019ء میں چین سے گہرے معاشی تعلقات کی آڑ میں پاکستان کے خلاف دفاعی تعلقات بڑھانے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن پاک چین دوستی کو ختم کر نے میں یکسر ناکام رہا ہے۔بھارت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ پاکستان کا دوست بھارت کا دشمن اور پاکستان کا دشمن بھارت کادوست ہے