یہ کس قسم کے حکمران ہیں…؟؟

502

ابھی تو حکومتوں کی جانب سے مذہبی فرقہ واریت پھیلانے کے اقدامات کو دو دن نہیں گزرے تھے کہ ایک مرتبہ پھر جمعۃ الوداع اور نماز عید الفطر کے اجتماعات نشانے پر آگئے۔ وفاقی حکومت نے تمام صوبوں کو تجاویز ارسال کی ہیں کہ ہر مسجد میں الگ الگ اوقات میں چھوٹے چھوٹے اجتماعات کیے جائیں اور ہر معاملے میں اختلاف کرنے والے صوبے سمیت تمام صوبوں نے بڑی دلجمعی سے ان تجاویز پر غور شروع کر دیا۔ غور بھی کیا کرنا یہ تو ان کے دلوں کی آواز ہے۔ رمضان المبارک کا اب چوتھا جمعہ آنے والا ہے جو جمعۃ الوداع بھی ہے۔ گزشتہ تین جمعہ جس طرح نماز ادا کی گئی اگر جمعۃ الوداع والے روز بھی اسی طرح نماز ادا کر لی جائے تو کیا قیامت آجائے گی۔ جمعۃ الوداع والے روز یہی ایک فرق ہوتا ہے کہ جو لوگ عام طور پر نمازوں اور جمعہ کی نماز سے غیر حاضر رہتے ہیں وہ بھی الوداعی جمعہ کی اہمیت کے پیش نظر اس میں شرکت کرنا چاہتے ہیں ان کے خیال میں اس سے ان کی بخشش کی کوئی سبیل نکل آئے گی اور اللہ غفور الرحیم جس کو چاہے بخش دے تو ہمارے حکمرانوں نے ان لوگوں کو بھی ایک سعادت سے محروم کرنے کی شعوری کوشش کا ارادہ کیا ہے۔ وہ سادہ لوح لوگ تو آخری جمعہ کی نماز سے بخشش کی امید رکھتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں نے نہ جانے کس سے بخشش کی امید رکھی ہوئی ہے کہ ان کا نشانہ مسلسل نماز، تراویح، جمعہ اور مسجدیں ہیں۔جو تجاویز دی گئی ہیں وہ بالکل بے معنی ہیں۔ اسے اتفاق کہیں یا پاکستان کی روایت کہ پورے ملک میں بلکہ ایک شہر میں بھی قریب قریب ہونے والی عیدین کی نمازیں الگ الگ وقت پر ہی ہوتی ہیں۔ اگر مطلوبہ تعداد دیکھی جائے تو مطلوب تو یہی ہے کہ شہر کی ایک بڑی عید گاہ میں پورے شہر کے لوگ جمع ہوں اور نماز ادا کریں لیکن ایسا نہیں ہوتا۔ قریب قریب ہونے والے اجتماعات بھی آدھے آدھے گھنٹے کے وقفوں سے ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں تو نماز عیدالفطر کے اجتماعات ہی پر پابندی پر غور کیا جا رہا ہے۔ اس قسم کی تجاویز دینے والے کس دنیا میں رہتے ہیں ان کو اندازہ نہیں کہ ایک کھلی جگہ پر اگر دو ہزار افراد نماز ادا کریں تو رش کا پتا نہیں چلے گا لیکن یہی نمازی اگر اپنے محلے کی مسجد میں پانچ پانچ سو کی تعداد میں ہوں تو چھوٹی جگہ کی وجہ سے رش بھی بڑھے گا اور ان ایس او پیز کا بھی خیال نہیں رکھا جا سکے گا جو حکمرانوں کے نزدیک دکانداروں کے لیے الگ ہیں۔ مسجدوں کے لیے الگ۔ سبزی منڈی اور یوٹیلیٹی اسٹورز کے لیے، بینکوں کے لیے الگ ہیں۔ نماز عید پر پابندی یا اسے مساجد میں ادا کرنے کی تجویز ایسی ہے جیسے حکومت سندھ نے تین دن کورونا کے اور چاروں کاروبار کے رکھے ہیں۔ جب تین دن کاروبار بند ہوگا تو چوتھے دن گزشتہ تین دن بازار نہ جانے والے لوگ بھی جائیں گے اور چوتھے دن والے بھی گویا چوتھے دن چار گنا رش ہوگا۔ اسی طرح عید گاہ میں کشادہ جگہ اور مسجد میں نماز میں فرق ہوتا ہے۔ دو روز قبل اپنے سارے دعوئوں کی نفی کرنے والے حکمرانوں کی جانب سے انسانی جان کے تحفظ کے دعوے بے کار اور جھوٹے ثابت ہو چکے ہیں۔ لہٰذا معاملہ انسانی جان کا نہیں کچھ اور ہے۔ چونکہ پورے ملک کی مشینری کورونا سے متعلق خوف پھیلانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے اس لیے عدلیہ سے بھی کسی ریلیف کی توقع نہ رکھی جائے۔ وہ بھی اسی مشین کا کل پرزہ ہے ۔اب تک جہاں جہاں لوگوں کو ریلیف ملی ہے وہ خود فیصلہ کرکے لوگوں نے لی ہے۔ خواہ وہ کینسر، گردے اور قلب کے عارضوں کے پرانے مریضوں کو کورونا قرار دے کر میت ضبط کرنے کا معاملہ ہو یا میتوں کی بے حرمتی کرکے ان کی تدفین کرنے کا طریقہ۔ جب جب لوگوں نے احتجاج کیا اور اتحاد کا مظاہرہ کیا ان کو میتیں بھی ملیں اور تدفین بھی سنت کے مطابق کی گئی۔ لہٰذا اب یہ علمائے کرام کی ذمے داری ہے کہ وہ امت کی کھل کر رہنمائی کریں اور ایس او پیز کے جعلی ہونے کے ثبوت کے بعد خود احتیاطی اقدامات تجویز کرکے تمام نمازیں معمول کے مطابق ادا کرنے کا حکم جاری کریں۔ اور عوام ایسے لوگوں سے جان چھڑائیں جو کورونا کے ہنگامے میں بھی قادیانیوں کے لیے راستے ہموار کرنے میں لگے رہتے ہیں۔ کہیں مشیر بھرتی ہو کہیں حلف نامے میں تبدیلی ہوتی ہے تو کبھی اقلیتی کمیشن تشکیل دیا جاتا ہے اور قادیانیوں کو شامل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کسی جگہ درسی کتاب سے ختم نبوت کا سبق غائب کر دیا جاتا ہے۔ یہ کیسے لوگ ہیں جو ماسک چرا لیتے ہیں۔ غریبوں کا راشن کھا جاتے ہیں۔ اربوں روپے تین دن میں ٹھکانے لگا دیتے ہیں۔ مصنوعی آئسولیشن سینٹر بنا دیتے ہیں۔ ڈاکٹروں کو بے آسرا چھوڑ دیتے ہیں اور مسجد، نماز اور مذہب کے پیچھے پڑے ہوتے ہیں۔سرکار کی آنکھ کا اشارہ دیکھتے ہوئے بلدیہ کراچی نے کشمیر پارک میں چالیس برس پرانی عید گاہ کی محراب توڑ دی، تالا ڈال دیا۔ اب بلدیہ شرقی کہتی ہے ہم نے نہیں کیا، میئر کہتے ہیں کہ ہم نے نہیں کیا، سندھ حکومت نے کیا لیکن محراب تو توڑی گئی ہے، تالا تو پڑا ہوا ہے۔ کیا ان کی عقلوں کو بھی تالا پڑ گیا ہے۔