عنایت اللہ خان
کوویڈ 19 نے ہمارے بیرون ملک مقیم پاکستانی بھائیوں کو غیرمعمولی پریشانی اور تشویش میں ڈال رکھا ہے۔ مستقل لاک ڈاؤن اور کرفیو کے باعث وہ نہ صرف اپنی رہائش گاہوں تک محدود ہیں بلکہ وہ نہ تو ملازمت کے لیے باہر جاسکتے ہیں اور نہ ہی انہیں وطن واپس لوٹنے کے لیے درکار سہولتیں دی جارہی ہیں حتیٰ کہ اس بے سروسامانی کی حالت میں وہ اپنی جمع پونجی بھی ختم کرچکے ہیں۔ واضح رہے کہ پاکستان کا شمار دنیا کے ان چنیدہ ممالک میں ہوتا ہے جس کے شہری دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے ان تارکین وطن کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے جن میں سب سے بڑی تعداد خلیجی ممالک میں آباد ہے جس کا اندازہ تقریباً4.7 ملین ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ان لاکھوں تارکین وطن کی پہلی منزلیں ہیں جہاں دستیاب اعداد وشمار کے مطابق ان تارکین وطن کی تعداد بالترتیب 27اور 15لاکھ کے قریب ہے۔ خلیجی ممالک کے برعکس مغربی ممالک میںر ہائش پزیر پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد کو ان ممالک کی شہریت دی گئی ہے جس کے نتیجے میں یہ لوگ ان معاشروں میں نہ صرف عملاً ضم ہوگئے ہیں بلکہ انہیں یہاں نسبتاً بہتر معیار زندگی اور بنیادی ضروریات بشمول قانونی تحفظ بھی دستیاب ہے۔ البتہ قابل افسوس اور لائق توجہ امر یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ میںہمارے ہم وطنوں کو یہ مراعات نہیں مل رہی ہیں اور وہ یہاں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں مقیم تارکین وطن کی حالت زار کے بارے میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے بار بار انسانی حقوق کے بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد نہ کرنے کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے۔ ان تنظیموں کی رپورٹس میں متعدد بار اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ یہاں مقیم پاکستانی تنگ وتاریک اور ناقص ماحول میں رہائش پزیر ہیں۔ حتیٰ کہ بہت سے لوگوں کو صحت کی بنیادی سہولتوں تک رسائی نہیں ہے۔ ان ممالک میں سرمایہ کار کی حیثیت حاصل کرنا انتہائی مشکل ہے اور اس میں بہت زیادہ رقم کی ضرورت ہے۔ یہاں کے ہنر مند اور غیر ہنر مند مزدور کی حیثیت سے کام کرنے والے اپنے کفیلوں کے رحم و کرم پر ہیں۔ یہ لوگ اپنے نام پر کوئی کاروبار نہیں کرسکتے اور اس مقصد کے لیے اپنے کفیل کے محتاج ہیں۔ نتیجتاً یہ کاروبار بغیر کسی قانونی تحفظ کے چلارہے ہیں اور کوئی بھی بدنیت کفیل اس پر باآسانی قبضہ کرسکتا ہے حا لانکہ ان نامساعد حالات کے باوجود یہ لوگ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں۔
اسٹیٹ بینک آف پاکستان کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال کے پہلے 9 ماہ میں بیرون ملک سے ترسیلات زر میں 16.99 بلین ڈالر کی ریکارڈ منتقلی ہوئی ہے جو پچھلے سال کے مقابلے میں 6 فی صد زیادہ ہے۔ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ پاکستان میں ترسیلات زر کا سب سے بڑا حصہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے آرہا ہے۔ ان دونوں ممالک سے ترسیلات زر کی مد میں گزشتہ پانچ سال سے ہر سال بالترتیب اوسطاً 5.9اور 4.3 بلین ڈالر پاکستان کی معیشت میں سالانہ داخل ہورہے ہیں۔ یہ ترسیلات زر ہمارے معاشی استحکام میں ریڑھ کی ہڈی کا درجہ رکھتے ہیں اور ہماری کمزور و روبہ زوال معیشت میں آکسیجن کا فریضہ انجام دے رہے ہیں۔ یہ ترسیلات زر ایک طرف ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کا باعث ہیں اور دوسری طرف یہ ہماری معیشت کے استحکام میں بھی بنیادی کردار اداکررہے ہیں۔ اس رقم کی گردش بڑی معاشی سرگرمی پیدا کرتی ہے جس کے نتیجے میں ہمارے ہاں شاپنگ مالز، گروسری اسٹورز، رئیل اسٹیٹ کا کاروبار، نجی اسکول اور بہت سے رسمی اور غیر رسمی کاروبار فروغ پزیر ہیں۔
یہاں یہ بات بلا تردد کہی جاسکتی ہے کہ کورونا وبا بہت سے دستاویزی اور غیر دستاویزی کاروباروں کو خطرناک حد تک گھٹانے کا باعث بنا ہے اور اس کے نتیجے میں بے روزگاری کا ایک ایسا سیلاب ہمارا منتظر ہے جس کا تصور بھی محال ہے۔ دراصل کوویڈ 19 نے انسانی وسائل کو ایک انتہائی اذیت ناک صورتحال سے دوچار کیا ہے۔ ریاض اور مشرق وسطیٰ کے دیگر شہروں میں اپنی عارضی رہائش گاہوں میں بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھونسے گئے لاکھوں پاکستانی یاس اور ناامیدی کی تصویر بنے پاکستانی حکومت کی امداد کو تک رہے ہیں۔ آمدہ اطلاعات کے مطابق ایک طرف انہیں بھوک اور پیاس کا سامنا ہے اور دوسری جانب کوویڈ19کی صورت میں موت ان کے سامنے منہ کھولے ہوئے ہے۔ بہت سے لوگ انفیکشن میں مبتلا ہوچکے ہیں اور کچھ کے بے سروسامانی کی حالت میں فوت اور دفن ہونے کی مصدقہ اطلاعات بھی مل چکی ہیں۔ اس صورتحال سے دیہی علاقوں میں قبائلی جھگڑوں کی بحالی اور بڑے پیمانے پر بدامنی کے خدشات کو رد نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ بے روزگاری عدم برداشت کا باعث بنتی ہے اور ریاست مخالف اور پرتشدد معاشرتی سلوک کو فروغ دینے میں بھی جلتی پر تیل کا کام کرتی ہے۔ خلیجی ریاستوں میں ان پھنسے ہوئے لاکھوں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو قانونی دستاویزات کے بغیر ہیں جب کہ ایک قابل ذکر تعداد ان لوگوں کی بھی ہے جن کے پاسپورٹوں پر خروج کی مہریں تک لگ چکی ہیں لیکن انہیں یا تو واپس نہیں آنے دیا جارہا ہے اور یا پھر ان کے لیے واپسی کی پروازیں تک دستیاب نہیں ہیں۔ یہ لوگ ایک عجیب نفسیاتی کشمکش اور ذہنی کوفت سے دوچار ہوکر زندگی کی بقاء کے لیے لڑ رہے ہیں۔ اس صورتحال کو ڈیل کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے فوری ردعمل کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اس ضمن میںمختصر اور طویل مدتی اقدامات اٹھاتے ہوئے خلیجی ریاستوں میں پھنسے ہوئے تارکین وطن کے مصائب میںکمی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر بعض اہم فیصلے کرنا ہوں گے۔ اس سلسلے میں درج ذیل تجاویز پیش خدمت ہیں۔
اولاً حکومت کو مختصرالمدت اقدام کے تحت ان ممالک میں روز مرہ کی اجرت پر مامور بے روزگار ہونے والے افراد تک احساس پروگرام کو توسیع دیتے ہوئے انہیں موجودہ مخدوش صورتحال میں بھوک سے بچانے کی فکر کرنی چاہیے۔ ثانیاً جن افراد کے ورک پرمٹ ختم ہوچکے ہیں یا جن کی دستاویزات زائد المیعاد ہیں یا جن کو خروج کی مہریں لگ چکی ہیں انہیں ہنگامی بنیادوں پر ایک خصوصی فلائٹ آپریشن کے ذریعے وطن عزیز منتقل کرنا چاہیے۔ پی آئی اے تن تنہا چونکہ یہ آپریشن نہیں کرسکتی لہٰذا اس عمل میں دیگر نجی ائر لائنز کو بھی شامل کرنا ضروری ہے۔ ثالثاً پاکستانی ہوائی اڈوں پران معزز اور قابل عزت شہریوں کے ساتھ جو غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے اس کے فوری سدباب کے ساتھ ساتھ ان تارکین وطن کی واپسی کو سہل بنانے کے لیے دیگر ہوائی اڈوں کے علاوہ پشاور ائرپورٹ کو بھی فی الفور کھولنا چاہیے۔ جیسے تیسے کر کے پاکستان پہنچنے والے ان پاکستانیوں کو قرنطینہ کے نام پر بھاری اخراجات کے عوض جس طرح غیر انسانی طریقے سے ہوٹلوں میں بند کیا جاتا ہے حکومت کو اس کا نہ صرف فوراً نوٹس لینا چاہیے بلکہ یہ اخراجات مسافروں سے وصول کرنے کے بجائے ریاست کو ادا کرنے چاہئیں۔ رابعاً وزارت خارجہ کو اپنے غیر ملکی مشنوں کے ساتھ فی الفور رابطوں کے ذریعے جہاں ان مشنوں کو متحرک اور فعال کرنا چاہیے وہاں انہیں موجودہ حالات میں پاکستانی شہریوں کے مسائل کے ازالے اور ان کی فوری ومحفوظ واپسی کے لیے راہ ہموار کرنے کی ترغیب اور سپورٹ بھی دینی چاہیے۔ حرف آخر یہ کہ اس سے پہلے کے یہ لاکھوں پاکستانی جن میں ایک غالب اکثریت کا تعلق خیبر پختون خوا سے ہے کسی مزید بڑی آزمائش سے دوچار ہوجائیں حکومت پاکستان کو خلیجی ممالک کے ساتھ اپنے خصوصی تعلقات بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کے سفیر کہلائے جانے والے ان محب وطن پاکستانیوں کی فوری واپسی کو اولین توجہ اور ترجیح دینی چاہیے۔