روہنگیا مسلمانوں کی زبوں حالی

298

اقوام متحدہ نے بنگلا دیش کی حکومت کو ہدایت کی ہے کہ انسانی المیہ جنم لینے سے قبل روہنگیا مہاجرین کو جزیرے سے کیمپوں میں منتقل کردیا جائے ۔ اس وقت روہنگیا مہاجرین کو بنگلا دیش کی حکومت بنگلا دیش میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے وہی ہتھکنڈے استعمال کررہی ہے جو میانمار کی حکومت نے ان روہنگیا مسلمانوں پر روا رکھے ۔ اقوام متحدہ سمیت پوری دنیا اس بات کی گواہ ہے کہ میانمار کی حکومت اراکان میں مسلمانوں کی نسل کشی کررہی ہے ۔ یہ مسلمان جان و مال بچا کرچھوٹی چھوٹی کشتیوں میں امن کی تلاش میں نکلتے ہیں تو کبھی سمندر کی طغیانی کی نذر ہوجاتے ہیں تو کبھی تھائی فوج ان کا شکار کرتی ہے ۔ مردوں کو قتل کرکے بچوں اور خواتین کو انسانی اسمگلروں کے ہاتھوں بیچ سمندر میں ہی فروخت کردیا جاتا ہے ۔ کوئی خوش قسمت کشتی بنگلا دیش پہنچنے میں کامیاب ہوتی ہے تو شیخ حسینہ واجد کی ہدایت پر بنگلادیشی فوج انہیں دوبارہ سے سمندر میں دھکیل دیتی ہے ۔ ان روہنگیا مہاجرین کی ایک بڑی تعداد ایک ایسے جزیرے پر ڈال دی گئی ہے جہاں پر نہ تو پینے کے پانی کی سہولت ہے اور نہ ہی کھانے کے لیے کوئی چیز ۔ اب مون سون کی آمد آمد ہے جبکہ قبل از مون سون بارشوں کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے ۔ مون سون کی وجہ سے سمندر میں بھی طغیانی بڑھ جائے گی اور بارشوں کی وجہ سے جزیرے کی زمین بھی دلدل میں تبدیل ہوجائے گی ۔ یوں یہ بیچارے مہاجر مچھروں کا بھی شکار ہوں گے ۔ کورونا کے پردے میں دنیا کا ہر ظلم چھپ چکا ہے ۔ فلسطین ، بھارت ، مقبوضہ کشمیر غرض کون سی جگہ ہے جہاں پر مسلمانوں پر مظالم میں مزید اضافہ نہ کردیا گیا ہو ۔ اقوام متحدہ نے اس ضمن میں بروقت توجہ دلائی ہے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس جانب حکومت پاکستان بھی اپنا بھرپور کردار ادا کرے اور ملائیشیا ، انڈونیشا اور ترکی کے ساتھ مل کر بنگلا دیش کی حکومت پر زور ڈالے کہ وہ ان روہنگیا مہاجرین پر اپنے دروازے نہ بند کرے ۔ اصولی طور پر تو پاکستان کو اپنے سب سے قریبی دوست ملک چین سے رابطہ کرنا چاہیے کہ وہ میانمار کی حکومت پر اپنے اثر و نفوذ کو استعمال کرے اور اراکان میں مسلمانوں پر میانمار کی سرکاری فوج کے مظالم کو ختم کروائے ۔ میانمار کی حکومت پر چین کی حکومت کا وہی اثر ہے جو پاکستان پر امریکی حکومت کا ہے ۔ چینی حکومت اگر ایک اشارہ کردے تومیانمار کی فوج یا حکومت کی ہمت نہیں ہوگی کہ وہ یوں اراکانی میں مسلمانوں کی نسل کشی کرسکے ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ حکومت پاکستان کی خارجہ پالیسی اتنی ناکام ہے کہ پاکستان اب بین الاقوامی محاذ پر تنہا کھڑا ہے ۔ مقبوضہ کشمیر کے بھارتی قبضے میں جانے اور نو ماہ سے وہاں پر جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے کشمیریوں کی نسل کشی پر بھی حکومت پاکستان زبانی جمع خرچ بھی نہیں کرسکی ۔ روہنگیا مہاجرین ، فلسطینی برادران اور قبلہ اول وغیرہ تو اب بہت دور کی بات اور دوسروںکے مسائل قرار دیے جانے لگے ہیں ۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ پاکستان میں مسلمانوں کے دل دنیا بھر کے مسلمانوںکے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔ اقوام متحدہ کی وارننگ کو سنجیدگی سے لیا جائے اور قبل اس کے روہنگیا مہاجرین کا انسانی المیہ جنم لے ، اس پر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر پاکستان دوست ممالک کے ساتھ مل کر بنگلا دیش کی حکومت پر زور ڈالنے کے ساتھ ساتھ اقوام متحدہ پر بھی زور ڈالے کہ محض وارننگ دینے سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس پر بھی اسی طرح کا ایکشن لینے کی ضرورت ہے جس طرح اقوام متحدہ جنوبی سوڈان یا مشرقی تیمور کے بارے میں لیتا رہا ہے ، تو ہی اس کے مثبت نتائج آنے کی امید کی جاسکتی ہے ۔بصورت دیگر وہی ہوگا جو اب تک ہوتا آیا ہے ، یعنی خون مسلم ارزاں ہے ۔