عدالت عظمیٰ کا تاریخ ساز فیصلہ

428

عدالت عظمیٰ نے پیر کو تاریخ ساز فیصلے میں کورونا کے بارے میں حکومت کے بیانیے کو رد کرتے ہوئے وہی بنیادی سوالات کیے ہیں جو ہم پہلے دن سے کرتے آرہے ہیں ۔ چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے کہ اربوں روپے ٹین کی چارپائیوں پر خرچ کیے جارہے ہیں ۔عدالت نے کہا کہ ہر آدمی پر 25 لاکھ روپے خرچ ہورہے ہیں، یہ صرف این ڈی ایم اے کا بجٹ ہے باقی صوبوں اور اداروں کو ملا کر 500 ارب بنے گا۔ اگر ہمارے ملک میں 5 سو تا8 سو لوگ مررہے ہیں تو ہم کیا کررہے ہیں؟ عدالت نے کہا کہ کاروبار اور صنعتیں بحال نہ ہونے سے لاکھووں ورکرز سڑکوں پر ہوں گے اور اتنی بڑی تباہی کو حکومت کے لیے سنبھالنانا ممکن ہوجائے گا۔عدالت عظمیٰ نے تین دن کاروبا ر بند رکھنے پر بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہفتے کے سارے دن کاروبار کھلا رکھنے کی ہدایت کی ۔ سب سے اہم بات عدالت عظمیٰ نے اپنے ریمارکس میں یہ کہی کہ پاکستان میں کورونا وبا کی صورت میں نہیں پھیلا مگر اس کی آڑ میں جو لاک ڈاؤن کیا گیا ، اس نے عام آدمی کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے ۔ اب تک تو سندھ حکومت کا رویہ میں نہ مانوں کا تھا ۔ سندھ حکومت کے سامنے کسی دلیل کسی منطق اور کسی اعداد و شمار کی کوئی حیثیت نہ تھی تاہم عدالت عظمیٰ کی جانب سے حکم نامہ جاری ہونے کے بعد اب حکومت سندھ کو مجبورا تمام مارکیٹیں اور کارخانے کھولنے کی اجازت دینی پڑی ہے ۔ ابھی تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی ہے کہ حکومت سندھ کا مقصد عوام کو موت سے بچانا تھا یا عوام کو تنگ کرنا مقصود تھا ۔ لاک ڈاؤن کے لیے بار بار اسی دلیل کا سہارا لیا گیا کہ عوام کو مرنے نہیں دیا جائے گا مگر اس کے نتیجے میں جو لوگ اب تک طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے مارے گئے ، اس کا حساب کون دے گا ۔ سپریم کورٹ نے کورونا کے بارے میں ازخود نوٹس لے کر انتہائی اہم کام کیا ہے ۔ کیا ہی بہتر ہو کہ سپریم کورٹ ایک ایسا تحقیقاتی کمیشن بھی تشکیل دے جو اب تک کے تمام مالیاتی امور کے بارے میں جامع رپورٹ پیش کرے کہ کورونا کے نام پر کتنی رقم کس کو جاری کی گئی اور کہاں کہاں پر خرچ کی گئی ۔ اب تک کے معاملات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت اور اداروں کو عوام کی جان سے زیادہ فنڈز کی فکر رہی ہے ۔ کراچی سمیت پورے ملک میں گھوسٹ قرنطینہ مراکز قائم کیے گئے ہیں ، مگر ان کے بارے میں کہیں پر کوئی سوال نہیں ہے ۔ نجی اسپتالوں کو کورونا کے مریضوں کے علاج کے نام پر ایڈوانس رقم جاری کردی گئی ہے ، مگر اس بارے میں کہیں پر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے ۔اس کی وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ اس مرتبہ کورونا کے حمام میں سارے ہی ننگے ہیں ۔ کورونا کے نام پر کیے جانے والے لاک ڈاؤن کو جدید دور کا سب سے بڑا اسکینڈل قرار دیا جاسکتا ہے جس نے ملک کی معاشی کمر توڑ کر رکھ دی ۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ تو دے دیا ہے مگر اس پر عملدرآمد بھی لازمی ہے ۔ بیوروکریسی کا یہ وتیرہ بن گیا ہے کہ عدلیہ کے احکامات کو اگر مگر چونکہ اور چنانچہ کی نذر کردیا جاتا ہے ، حتیٰ کہ عدالت میں جھوٹی رپورٹیں بھی جمع کروانے سے گریز نہیں کیا جاتا ہے ۔ ڈیپوٹیشن پر آئے ہوئے افسران کی ان کے اداروں میں واپسی کے بارے میں عدالت کے حکم کے آئینے میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح سے انتظامیہ نے اس کو ہوا میں اڑا دیا ۔ اسی طرح کراچی میں سرکلر ٹرین کی بحالی ، ٹو اسٹروک رکشوںکے خاتمے وغیرہ وغیرہ کی مثالیں سامنے موجود ہیں ۔ کورونا انتہائی اہم معاملہ ہے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ صوبائی حکومتیں اب کورونا کے بارے میں جان بوجھ کر معاملات بگاڑنا شروع کردیں اور اس کا الزام سپریم کورٹ کو دیا جائے کہ لاک ڈاؤن سپریم کورٹ کے حکم پر کھولا گیا ۔ اگر سپریم کورٹ اس سلسلے میں بھی ماہرین پر مشتمل کوئی ویجیلینس کمیٹی تشکیل دے دے تو حکومت کی کارکردگی پر نگاہ رکھی جاسکتی ہے ۔ حکومتوں اور اداروں پر نگاہ رکھنے کے لیے سپریم کورٹ اگر کورونا کے فنڈز اور قرنطینہ مراکز تک صحافیوں کو رسائی دینے کا حکم جاری کردے تو بھی اس سے بہت بڑا فرق پڑے گا۔ ایس او پی پر عملدرآمد کو بھی پولیس اور انتظامیہ نے کمائی کا ذریعہ بنایا ہوا ہے ، اسے بھی چیک کرنے کی ضرورت ہے ۔