مارچ سے ملک میں لاک ڈاؤن ہے، اس لاک ڈائون میں کیا ہوا؟ مساجد کے باہر اب ٹوپیوں کے بجائے ماسک فروخت ہونا شروع ہوگئے اور کاروباری لین دین متاثر ہوگیا۔ جس کو دینا تھا وہ کورونا کے پیچھے چھپ کربیٹھ گیا اور جس کو لینا تھا وہ رل گیا۔ اب مارکیٹ میں ایک نیا دور آچکا ہے، جب نئی زندگی شروع ہوگی تو بہت سے اصول بھی بدلے ہوئے ملیں گے۔ لاک ڈائون کے بعد اب ڈائون سائزنگ ہوگی، تمام نجی اداروں میں اور یہ ہوکر رہے گی، کوئی نہیں روک سکتا۔ ذہن بنانے کے لیے ایک گزارش کی گئی کہ پچاس سال سے زائد عمر کے ملازمین دفتروں میں نہ آئیں‘ گھروں میں بیٹھ کر کام کریں۔ پارلیمنٹ کا حالیہ سیشن ہوا تو ایک درخواست کی گئی کہ پچاس سال سے زائد عمر کے صحافی پارلیمنٹ کی کوریج کے لیے آنے سے گریز کریں۔ مشاہدہ یہ ہے کہ کورونا نے سب سے پہلا اثر ’’تجربے‘‘ پر ہی ڈالا کہ’’ تجربہ‘‘ اب گھر بیٹھ جانے پر مجبور کردیا گیا۔ یہ صورت حال خود ’’تجربے‘‘ کے لیے ایک نیا موقع بھی ہے کہ وہ ملازمت کی آکاس بیل سے باہر نکلے، آزادی حاصل کرکے روزگار فراہم کرنے والے خود کسی چھوٹے موٹے ادارے کی بنیاد رکھے‘ تاکہ مستقبل میں کوئی اسے نوکری سے نہ نکال سکے۔
اللہ نے بھی دیانت داری کے ساتھ کی جانے والی تجارت میں بہت برکت رکھی ہوئی ہے۔ کورونا کے حالیہ بحران میں بے شمار لوگ ہیں جو ذاتی روزگار کے لیے نئے تجربات کرنے کی خاطر اٹھ کھڑے ہوئے ہیں، اداروں سے یہ تجربہ کار کھیپ نکل گئی تو پیچھے خام مال ہی رہ جائے گا۔ نجی اداروں کے سیانے مالکان تجربہ کار ملازمین کی صلاحیتیوں سے محروم نہیں ہونا چاہیں گے لیکن وقتی نفع نقصان کی بنیاد پر چلنے والے لوگ جو ہمیشہ سراب کے پیچھے بھاگتے ہیں وہ سب اپنے تجربہ کار افراد سے محروم ہونے جارہے ہیں۔ مستقبل میں ایک نقشہ یہ ہوسکتا ہے کہ گارمنٹس کی فیکٹری میں کام کرنے والے وہ لوگ جنہیں فارغ کردیا جائے گا وہ خود سلائی مشین کی مدد سے اپنے لیے ایک نئی دنیا آباد کریں گے۔ تجربہ کار کاری گر اپنا کاروبار اپنی مرضی سے چلائے گا اور گاہک بھی اس کے پاس ہوںگے کیونکہ کسی بھی ہوٹل کی کامیابی کی ضمانت اس کا مالک نہیں بلکہ باورچی ہوتا ہے۔ جب نیا کاروبار شروع ہوگا تو اس کے اخراجات بھی کم ہوں گے لہٰذا کسی بھی ادارے سے فارغ ہوکر اپنا کام شروع کرنے والا سیانہ کاری گر کم قیمت پر بھی کام کرنے لیے دستیاب ہوگا۔ رہ گئی مارکیٹنگ‘ یہ تو اس کا ہنر ہی اس کی مارکیٹنگ ہوگی۔ فیس بک‘ نئے کاروبار کے لیے بہترین ذریعہ ہے کہ اس کے پیج پر ہر کوئی اپنی مصنوعات پیش کرسکتا ہے‘ سماجی میڈیا اب فاصلاتی کاروبار کا ذریعہ بھی ہوگا بس پہلا آرڈر کامیاب ہونے کی دیر ہے‘ بس پھر چل سو چل…
مستقبل میں ایک نقشہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مستقبل میں اسکولوں‘ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ٹک شاپس نہ رہیں‘ طلبہ گھر سے کھانا‘ اسنیکس‘ چپس‘ اور دیگر اشیاء بنا کر لے جائیں‘ جو لوگ تعلیمی اداروں میں گھر کی بنی ہوئی اشیاء فراہم کرنا شروع کر دیں گے‘ انہیں ایک اچھا ریسپانس مل سکتا ہے‘ کاروبار کی ایک شکل یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کوئی چند موٹر سائیکلیں لے اور انہیں دفتروں کی ڈاک یا دیگر ضروری اشیاء دوسری جگہ منتقل کرنے کی سروس فراہم کرنا شروع کردے۔ یوں اس طرح دفتروں میں پچاس سالہ قاصد کی محرومی پوری کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان ہی میں بے شمار پچاس سالہ موٹر سائیکل ڈرائیور بھی دستیاب ہوسکتے ہیں‘ یہ کاروبار نجی دفاتر کو ان کے چیک کیش کرانے اور بینکوں میں جمع کرانے کے لیے سروس مہیا کرسکتا ہے۔ بجلی، گیس اور ٹیلی فون کے بل جمع کرانا بھی ایک مشکل مرحلہ ہے یہ کام اب موبائل فون کے ذریعے بنائے گئے بینک کائونٹس سے ہوگا تاہم اگر کوئی کسی محلے یا مارکیٹ میں صارفین کو یہ سروس مہیا کردے تو اس کے وارے نیارے ہوسکتے ہیں۔ گویا ایک جگہ سے جاب گئی تو دوسرا در کھل گیا۔ فیس بک کے بعد واٹس ایپ تشہیر کا دوسرا بڑا ذریعہ ہے‘ جس کے ذریعے مصنوعات کا کاروباری پیغام لکھ‘ بول کر اور فوٹو بھجوا کر بھی دیا جاسکتا ہے‘ مستقبل چونکہ سماجی فاصلے کا دور ہوگا لہٰذا آن لائن قرآن کی تعلیم دینے کا سلسلہ بھی شروع ہوگا اور ضرور ہوگا‘ یہی کام تعلیمی کوچنگ کے لیے بھی ضرور ہوگا‘ سب سے زیادہ نقصان کھیل کے میدان میں ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ انہیں کیسے آباد کیا جائے اور کیسے آباد رکھا جائے گا۔ اس لاک ڈائون میں بیڈ منٹن، ٹینس کو بہت فروغ ملا ہے۔ یہ دونوں کھیل ہمیں عالمی چمپئن ضرور دیں گے، اس بحران نے دو باتیں باور کرا دی ہیں کہ بحران جیسا بھی گہرا کیوں نہ ہو‘ کیش اینڈ کیری اسٹورز اور ادویات اور این جی اوز کا بزنس چلتا رہے گا‘ رہ گیا پرنٹ میڈیا‘ تو مستقبل میں ہمیں ویب سائٹس اخبارات اور ویب ٹی وی دستیاب ہوں گے۔