سگریٹ نوشی اور کورونا وائرس

618

چلیے یہ مان لیتے ہیں کہ نویل کورونا وائرس دنیا میں موجود ہے اور یہ کوئی انسانی تخلیق نہیں ہے بلکہ آسمان سے وارد ہونے والی ہی وبا ہے۔ حالانکہ اس وبا کے بارے میں الیکٹرونک میڈیا ہی کے ذریعے اطلاعات ’’وائرل‘‘ ہورہی ہیں۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ اس وائرس کے خلاف مزاحمت کرتے ہوئے بھی صرف سوشل میڈیا نظر آتا ہے۔ کورونا وائرس کس حد تک انسانوں کے لیے خطرناک ہے اس کا درست اندازہ تو گزشتہ 5 ماہ کے دوران نہیں ہوسکا۔ لیکن اس کے خطرناک ہونے کے حوالے سے پھیلنے والی اطلاعات نے دنیا کے 203 ممالک کے لوگوں کی زندگیاں اجیرن کی ہوئی ہیں۔ اس وائرس سے سب سے زیادہ مسلمانوں کا اللہ پر اعتماد مجروح ہوتا ہوا نظر آرہا ہے۔ ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت دنیا کا نظام کاروبار پہلی بار ایک ساتھ بند کیا جاسکا ہے تو اسی کورونا وائرس سے ہونے والے نقصانات کی افواہوں کے ذریعے، جس کے گواہ بھی صرف ڈاکٹرز یا طبی عملہ ہے وہ میڈیا اور اس سے متعلق افراد بھی اس کی سچائی سے واقف نہیں ہیں جو اس کے بارے خوف پھیلانے کا ذریعہ بنے ہوئے ہیں۔ پہلے ہی یہ مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں کہ سلامتی کے مقام مساجد اور عبادت گاہوں کو بھی احتیاط کے نام پر انسانوں سے خالی کرالیا گیا اور پیدائشی طور پر بزدل انسان سازشی عناصر کی باتوں میں آگر اللہ کے گھر خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ سے بھی دور ہوگیا۔ یہ پہلا ماہ رمضان المبارک ہے جس میں مقدس اور اہم ترین عمارتوں اور مقامات کو ویران کیا گیا اور اس کی رونقیں اجھاڑ دیں گئیں۔ اربوں انسانوں کو خوفزدہ کرکے انہیں پہلی بار ایک دوسرے سے ’’سماجی فاصلے‘‘ یا سوشل ڈسٹینس کے نام پر دور ہی نہیں بلکہ تنہا کردیا گیا اور اس تنہائی کے باعث کتنے ہی بیمار، زیادہ یا کم عمر لوگ خوف سے اپنی ضروریات پوری نہ ہونے کی وجہ سے مرچکے ہوںگے۔
کورونا وائرس کی آڑ میں انسانی زندگیوں کے تحفظ کے نام پر جو کچھ کیا گیا اس کا مین اسکرپٹ رائٹر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) نظر آرہا ہے۔ جسے انسانوں کی صحت کے تحفظ کا کام دیا گیا تھا مگر جب یہ ادارہ اپنی ذمے داریاں درست طریقے سے نبھانے میں ناکام ہوا اور اسے اپنی ناکامی کا احساس ہونے لگا تو اس ادارے نے خوف کا یہ منصوبہ پوری دنیا پر مسلط کردیا۔ یقین ہے کہ اس سازش کے پیچھے دنیا کے اور بڑے چمپئنز بھی ہوںگے جن کے نام آرہے ہیں جنہوں نے انفارمیشن ٹیکنالوجی میں انقلاب برپا نہیں کیا بلکہ اس ٹیکنالوجی کو متعارف بھی کرایا۔ مگر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جس کا نام اب میرے خیال میں World Hitter Organisation ہونا چاہیے نے نہ صرف خوف پھیلایا بلکہ اپنی بات یعنی وائرس سے زیادہ انسانی جانوں کے نقصانات کو سچ ثابت کرنے کے لیے نہ صرف دل، پھیپھڑوں، دماغ اور دیگر امراض سے جاں بحق ہونے والوں کو ’’کورونا وائرس‘‘ کا شکار ظاہر کرنے لگا۔ ڈبلیو ایچ او کے اس تازہ ترمیمی موقف کو مان کر دنیا بھر کے ’’طرم خان‘‘ معالجین ان بوڑھے اور پرانے بیماروں کی موت کا باعث ظاہر کرکے اپنی کمزوریوں کو چھپانے میں مصروف ہوا ہے۔ کیونکہ اربوں ڈالر سالانہ اخراجات سے چلنے والے اس ادارے نے دیگر تمام کام تو انجام دیے ہوںگے مگر انسانی صحت کی بہتری کے لیے اس کا کوئی بھی کارنامہ سامنے نہیں ہے۔ ڈبلیو ایچ او کا تازہ اور جاری طرز عمل بالکل پولیس اور دیگر تحقیقاتی اداروں کی طرح کا نظر آرہا ہے جو اپنی کمزوری چھپانے کے لیے کسی اور کمزور کو مقدمات میں ملوث کرکے فائلیں بند کردیا کرتے ہیں۔
چونکہ ڈبلیو ایچ او سگریٹ نوشی سے ہونے والے نقصانات کا ازالہ اور سگریٹ نوشی کا تک سدباب نہیں کرسکی اور اس کے فعال رہنے کے دوران انفلوئزا کانگو کے بعد ڈینگی اور ہنٹا جیسے وائرسز بھی سامنے آئے لیکن ڈبلیو ایچ او نے ان وائرسوں کو نام دینے اور عارضی بنیادوں پر اس کا علاج ڈھونڈنے کے سوا کچھ بھی نہیں کیا نتیجتاً اسے تمام بیماریوں کے نتیجے میں اموات کا سبب کورونا وائرس ہی کو ٹھیرانا تھا۔ ہزاروں لاکھوں ایمان کے پکوں کو یقین ہے کہ بیماریاں آتی ہیں تو شفاء اللہ ہی دیتا ہے اور ہر مرض کا تعلق انسان کی زندگی تک ہی محدود ہوتا ہے مرنے کے بعد بھلا کوئی وائرس کیسے زندہ رہ سکتا ہے؟ لیکن ڈبلیو ایچ او نے اس افواء کو بھی خوب پھیلایا اور انسانوں کی تدفین کے طریقے جسے دنیا کے قیام کے بعد ایک کوے کے ذریعے اللہ نے بتایا تھا اسے بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی، کورونا سے ہونے والی ہلاکتوں کو جلا ڈالنے کی روایت ڈالنے کی کوشش کی جو اللہ کے حکم سے ناکام ہوگئی۔
اب میں آپ کو بتاتا ہوں کہ انسانوں کی صحت کی حفاظت کے لیے اقدامات کرنے کا ضامن عالمی ادارہ صحت یا ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن جب سگریٹ نوشی کے نقصانات کو کم نہیں کرسکا تو اس نے دنیا کو ائسولیٹ کرنے کا منصوبہ بنالیا۔ سگریٹ نوشی سے ہونے والے نقصانات سب کے سامنے آجاتے ہیں مگر اس سے بچائو کے لیے وہ خوف نہیں پھیلایا گیا جو کورونا وائرس کے بارے میں پھیلایا گیا حالانکہ صرف سگریٹ نوشی سے دنیا میں ہر سال 80 لاکھ افراد پھیپھڑوں اور سانس کی بیماری کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ جبکہ اس سگریٹ کے دھوئیں کی وجہ سے آس پاس موجود مجموعی طور ایک ارب 20 کروڑ انسان متاثر ہوتے ہیں جو خود سگریٹ نوشی نہیں کرتے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق پوری دنیا میں ایک ارب دس کروڑ افراد تمباکو نوشی کے عادی ہیں۔ ہر سال سگریٹ پینے والوں کے قرب و جوار میں موجود 65 ہزار بچے بیماریوں میں مبتلا ہوکر جلد دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ جبکہ سگریٹ نوشی سے لوگ کینسر، پھیپھڑوں، سانس اور امراض قلب کا شکار ہوجاتے ہیں۔ چین جہاں سے کورونا وائرس نکل کر پھیلنے کی اطلاعات ہیں وہاں سب سے زیادہ لوگ سگریٹ نوشی میں مبتلا ہیں ان کی مجموعی تعداد 30 کروڑ 8 لاکھ ہے جبکہ بھارت دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے جہاں تمباکو نوشی کرنے والوں کی کل تعداد 27کروڑ 49 لاکھ ہے اسی طرح روس میں یہ تعداد 20 کروڑ 49 لاکھ ہے۔ جس سے لاکھوں لوگوں بیماریوں کا شکار ہوکر ہلاک ہوجاتے ہیں۔ ان اعداد شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ صرف سگریٹ ہی خطرناک امراض کی وجہ بنا ہوا ہے۔ اس کے باوجود ڈبلیو ایچ او نے کبھی بھی سگریٹ کی فروخت روکنے کے لیے لاک ڈائون جسے سخت اقدامات نہیں کیے لیکن اب بھی لاک ڈائون کرکے دوسروں سے دور رہ کر سگریٹ پینے کے مواقعے تو فراہم کیے جارہے ہیں اور سگریٹ نوشی سے بیمار افراد کو کورونا وائرس کا شکار قرار دے کر کورونا کو خطرناک ترین قرار دیا جارہا ہے۔ حالانکہ دنیا کا نظام مفلوج کرنے کے بجائے صرف سگریٹ نوشی پر بلکہ سگریٹ کی فروخت پر پابندی لگادی جائے تو کورونا وائرس ہی کیا کئی دیگر امراض سے بچا جاسکتا ہے۔ مگر شاید ڈبلیو ایچ او ایسا کچھ کبھی نہیں کرے گا کیونکہ اس کے درپردہ مقاصد کچھ اور ہیں۔