جب دم میں آگ لگی ہو

423

ناصر کاظمی نے کہا تھا ’’میں کپڑے بدل کر جائوں کہاں اور بال بنائوں کس کے لیے‘‘۔ تو جناب کپڑے بھی بدلیے اور بال بھی بنائیے اور جہاں جانا ہو جائیے لاک ڈائون کھول دیا گیا ہے۔ حکومتی فیصلے سے لگتا ہے کورونا پاکستان چھوڑ گیا ہے۔ وہ خوف جو دل میں پیوست تھا، وہ خوف بھی اسی کے ساتھ چلا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کورونا کا خوف اہل پاکستان کے دل میں تھا کب۔ پاکستان میں کورونا آغاز ہوتے ہی حکومت نے اسکولوں میں تعطیلات کا اعلان کردیا تھا۔ اس اعلان کو خوف کے بجائے جشن کی صورت لیا گیا۔ ایک ہجوم نے ساحل سمندر کا رخ کیا تو دیگرنے تفریحی مقامات کا۔ ان مقامات پر ہلّے گلّے کا وہ عالم تھاکہ حکومت حیران۔ دل کو روئوں کہ جگر کو پیٹوں۔ نا چار حکومت نے ساحل اور تفریحی مقامات پر بھی پابندی لگادی۔ تب لوگوں نے شاپنگ مالز اور ریسٹورنٹس بھرنا شروع کردیے۔ کوئی یہ بھی نہ کرسکا تو موٹر سائیکل لے کر نکل گیا۔ لونڈے لپاڑوں نے گلی محلوں میں گروپس کی صورت جمع ہو کر گپیں لگانی شروع کردی۔ ذیلی سڑکوں پر فروٹ کی خالی پیٹیاں رکھ کرکرکٹ بھی شروع ہوگئی۔ مولانا طارق جمیل کی دعا، سینی ٹائزر حلال ہے یا حرام ہے، مساجد کی بندش، جمعہ کی نماز، گلے ملنے کی شرعی حیثیت، مصافحہ، نہ جانے کن کن امور پر بحثیں چھڑ گئیں۔ فیس بک اور دیگر سماجی فورمز پر جون ایلیا اور بشیر بدر وائرل ہوگئے۔
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
اور بشیر بدر کا یہ شعر تو گویا کورونا زدہ دنیا پر ہی کہا گیا ہے۔ کون کہتا ہے شاعر تلمیذ الرحمن نہیں ہوتا۔
کوئی ہاتھ بھی نہ ملائے گا جو گلے ملوگے تپاک سے
یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے ملا کرو
کورونا کو ابتدا میں ڈینگی کی طرح لیا گیا کہ چارچھ ہفتے میں جان چھوٹ جائے گی۔ یہ بحث چھڑ گئی کہ کورونا انسانی کیا دھرا ہے یا قدرت کی تخلیق۔ چین کی کا ریگری ہے یا امریکا کی۔ اس قسم کے پیغام گردش کرنے لگے کیا آپ نے کورونا کے کسی مریض کو دیکھا ہے۔ کیا آپ کے دوست احباب میں کوئی کورونا کا شکار ہوا۔ دیسی نسخے لیے نیم حکیم اور نیم ملا میدان میں آگئے۔ شہد، لیموں، پیاز، ادرک، دار چینی، زیتون کے پتے، گرم پانی اور ویکس کے بھپارے۔ ویکسین کی دریافت کی خبریں آنا شروع ہوگئیں۔ کراچی یونی ورسٹی اور ڈائو میڈیکل میں ویکسین تیار کرلی گئی۔ سازشی تھیوریوںکا بھی تار بندھ گیا۔ اسرائیل کو اس وبا کی برسوں پہلے خبر تھی۔ پانچ برس پہلے وہاں ویکسین تیار کرلی گئی تھی۔ خوش خبری آئی کہ چین نے ویکسین ایجاد کرلی ہے اور سب سے پہلے پاکستان کو برآمد کی جائے گی۔ پاک چین دوستی زندہ باد۔ کچھ مسیحا یہ پیغام لیے سامنے آئے کہ کورونا پاکستانیوں پر اثر نہیں کرے گا۔ خطرناک امراض سے لڑتے لڑتے، گندی، مہلک، نقلی اور جراثیم آلودہ چیزیں کھا کھا کر پاکستانیوں کی قوت مدافعت اتنی مضبوط ہوگئی کہ کورونا ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ غرض ایک مضمون سو نہیں ہزار طرح باندھا گیا اور ہر بار اس طرح کہ دل وجان میں ٹھنڈک سی اُترتی چلی جائے۔ کورونا کی ایسی کی تیسی۔ کورونا دی پین دی سری۔
کورونا کے معاملے میں افواہیں پھیلانے والے بھی تھک گئے اور علاج بتانے والے بھی۔ اگر کوئی نہیں تھکا تو وہ ہمارے وزیراعظم عمران خان ہیں۔ کل بھی کورونا سے ان کے تغافل کا یہی حال تھا جو عوام کا تھا آج بھی یہی حال ہے۔ کل بھی لاک ڈائون جیسے حفاظتی اقدامات کے خلاف تھے آج بھی خلاف ہیں۔ وجہ، غریبوں کا غم۔ پندرہ کروڑ غریب بھوکے مرجائیں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہ خیال انہیں غریبوں کے گھر، دکانیں، پتھارے اور ذرائع روزگار تجاوزات کے نام پر برباد کرتے وقت کیوں نہیں آیا۔ ادویات کی قیمتوں میں سیکڑوں گنا اضافہ کرتے ہوئے کیوں نہیں آیا۔ آٹا 70روپے اور چینی 90روپے کلو کرتے ہوئے کیوں نہیں آیا۔ اشیاء صرف کی قیمتوں کو غریبوں کی دسترس سے دور آسمان تک پہنچاتے ہوئے کیوں نہیں آیا۔ کورونا کے معاملے ہی میں غریبوں کا درد کیوں انہیں چین نہیں لینے دے رہا۔ ان سوالات پر ایک لطیفہ سن لیجیے۔ ایک کوے نے بزرگ کوے کو راکٹ دکھاتے ہوئے پوچھا ’’اس کی اسپیڈ اتنی تیز کیوں ہے‘‘ بزرگ کوے نے جواب دیا ’’بیٹا جس کی دم میں آگ لگی ہو اس کی اسپیڈ اتنی ہی تیز ہوتی ہے‘‘۔ وزیراعظم عمران خان کی دم میں بھی آگ لگی ہوئی ہے اور اس آگ کا نام ہے اپوزیشن۔ وہ کورونا وورونا اور دیگر تمام معاملات کو لپیٹ سپیٹ کر اپوزیشن سے نمٹنا چاہتے ہیں۔
وزیراعظم کی سوچ کی تاثیر ہے کہ آج کل سیاست کی گرما گرمی یوں عروج پر ہے جیسے کورونا کو پاکستان میں شکست دی جا چکی ہے بس ایک سیاست ہی ہے جو کرنے لائق ہے۔ شاہ محمود قریشی اور بلاول زرداری سینگ پھنسائے کھڑے ہیں۔ قومی اسمبلی اپوزیشن اور حکومت کے بیچ اکھاڑے کا منظر پیش کررہی ہے۔ شہباز شریف کی بدعنوانیوں کی ہمالیائی وسعتوں کے بارے میں پریس کانفرنس ہو رہی ہیں۔ پوری دنیا کو فکر ہے کہ کورونا کے بعد کی دنیا کیسی ہوگی لیکن یہاں وزیراعظم عمران خان کو اگر کوئی فکر ہے تو وہ یہ کہ شہباز شریف اب تک با ہرکیوں ہیں۔ وزیر مشیر بھی سمجھانے کے بجائے ہز ماسٹر وائس بنے ہوئے ہیں۔ صدر جان ایف کینڈی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ بے آف پگس اور کیوبا میزائل بحران جیسے معاملات کے دوران بھی ان کے مشیر نہ صرف انہیں بلکہ آپس میں بھی ایک دوسرے کی رائے کے خلاف رائے دینے سے ہچکچاتے تھے۔ یہاں بھی یہی صورتحال ہے۔ وزیراعظم کے مشیر خصوصی شہزاد اکبر نے ایک میڈیا ٹاک میں شہباز شریف کی کرپشن کے ثبوت جس دل جمعی اور سنجیدگی سے پیش کیے اس سے تو ایسا لگا جیسے ارطغرل شہباز شریف کے دروازے پر کلہاڑا تانے کھڑا ہے۔ ڈائریکٹ کک بیکس، کمیشن، بینکنگ ٹرانزیکشن اور ڈاکو منٹس پر مبنی ثبوت۔ وہ کون سا اپوزیشن لیڈر ہے جس کے خلاف اس طرح کے دعوے نہیں کیے گئے لیکن ان زیبروں نے عدالتوں میں جا کر گدھوں ہی کو جنم دیا۔ شہزاد اکبرنے شہباز شریف کو کرپٹ ثابت کرنے کے لیے اتنی مشقت کیوں اٹھائی۔ گرفتاری کے لیے؟ پاکستان میں جس طرح نظام عدل کی ایسی تیسی کی گئی ہے بھینس کی چوری میں ملوث کرکے بھی انہیں گرفتار کیا جاسکتا ہے۔
عمران خان کی پریشانی کی وجہ کچھ اور ہے۔ شہباز شریف جب تک لندن میں رہے وہ معصوم عن الخطا تھے لیکن جب سے وہ پاکستان واپس آئے ہیں تمام حکومتی وزیروں مشیروں اور عمران خان کی دم سوالیہ نشان کی طرح بلند ہے کہ ضرور کہیں کچھ نہ کچھ ہورہا ہے۔ اس سوالیہ نشان کی وجہ شہباز شریف خود بھی ہیں۔ ان کی گرفتاری بھی نہیں ہورہی، وہ خاموش بھی ہیں حکومت کے خلاف مکے بھی نہیں لہرا رہے ہیں، اسمبلی میں بھی نہیں آرہے ہیں۔ وہ وزیر، مشیر، خیر خواہ جن کی مونچھوں اور دموں کا رخ ہر وقت عمران خان کی طرف رہتا ہے وہ بھی خان صاحب کے کان بھر رہے ہیں۔ اس لیے شہباز شریف کے باب میں حکومت پریشان ہی نہیں افراتفری کے عالم میں ہے۔ شہباز شریف کے ایک انٹرویو میں تاثر دیا گیا کہ شہباز شریف کی حقیقی حکمرانوں سے کوئی ڈیل چل رہی تھی۔ ایک مرتبہ نہیں کئی مرتبہ انہیں ڈیلیں آفر ہوچکی ہیں جو انہوں نے قبول نہیں کیں۔ یہ افواہیں بھی چل رہی ہیں کہ ان ہائوس کوئی تبدیلی لائی گئی تو اس میں شہباز شریف کا مرکزی کردار ہوگا۔ تب سے عمران خان شہباز شریف کے پیچھے پڑے ہیں۔ ان کے پیچھے تو پڑ نہیں سکتے جن کا پیچھا بھاری ہے۔
اس لیے شہباز شریف کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے۔ اب تک وہ گرفتار کیوں نہیں ہوئے یہ چیز بھی خان صاحب کو پریشان کررہی ہے کون ہے جو انہیں گرفتار نہیں ہونے دے رہا۔ شہباز شریف گرفتار ہوتے ہیں یا نہیں لیکن کورونا کو سیریس لینے پر کوئی تیار نہیں۔ نہ عوام نہ عمران خان۔ دونوں طرف آگ لگی ہوئی ہے۔ ایک طرف پیٹ کی آگ دوسری طرف وزارت عظمیٰ کے چھن جانے کے خطرے کی آگ۔