قدس، مسلمانوں کا دائمی مسئلہ

350

احمد محمدی
امام خمینیؒ نے دنیا بھر کی قوموں کو فلسطین کے مظلوم عوام کی آزادی کے لیے جدوجہد کی حمایت پر یکجا کرنے کے لیے، ماہ مبارک رمضان کے آخری جمعہ کو عالمی یوم القدس قرار دیا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم امہ ماہ مبارک رمضان کی روزہ داری سے روحانیت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ، عالم اسلام کا اہم مسئلہ یعنی فلسطین اور مسلمانوں کے قبلہ اول کی آزادی پر اپنی توجہ مبذول کر سکتی ہے۔ اسی بنا پر سالانہ طور پر رمضان کے آخری جمعہ کو ایران اور دیگر اسلامی ممالک حتیٰ کے غیر اسلامی ممالک میں بھی عالمی یوم القدس کے طور پر منایا جاتا ہے۔
آج کل، صدی کی شوم ڈیل کے مختلف پہلوؤں کا منظر عام پر آنے کے بعد یوم القدس کو منانے کی اہمیت دوگنی ہوچکی ہے، کیونکہ اب یہ چھپی بات نہیں رہی کہ فلسطین کا مسئلہ صرف فلسطینیوں تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ مسئلہ فلسطین کی سرزمین سے بڑھ کر ہے چونکہ صہیونی رجیم اس لیے بنایا گیا تا کہ وہ عالم اسلام خاص کر جنوبی ایشیا اور مشرق وسطیٰ جیسے اسٹرٹیجک علاقے میں تفرقہ پیدا کرنے کے لیے فرنٹ لائن بنے۔
اگر مسلم امہ فلسطین اور صدی کی شوم ڈیل کے معاملے میں چپ رہیں تو جو مصائب گزشتہ برسوں میں فلسطین کے مظلوم عوام پر ڈھائے گئے ہیں وہ مستقبل قریب میں تمام مسلمانوں پر ڈھائے جائیں گے۔ جیسا کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ ’’امن خوشحالی کے لیے‘‘ کی ڈیل جو کہ صدی کی ڈیل کے طور پر جانا جاتا ہے، اقوام متحدہ کے کئی عالمی قرراردادوں جیسا کہ قرارداد نمبر 242(1967)، 338(1973)، 2334(2016) کی منافی ہے۔ ان قراردادوں کی رو سے صہیونی رجیم کا جون 1967 کے مقبوضہ علاقوں جیسا کہ مشرقی قدس، دریائے اردن کے مغربی کنارے اور غزہ پٹی پر قبضہ غیر قانونی ہے اور اس رجیم کو چاہیے کہ ان مقبوضہ علاقہ جات سے نکلے تا کہ فلسطین کی خود مختار حکومت کی مشرقی قدس کی مرکزیت کے پر تشکیل ہوسکے۔ اسی بنا پر کہا جا سکتا ہے کہ صدی ڈیل ایک غیرقانونی ڈیل ہے جسے ٹرمپ سرکار ’’لاٹھی اور گاجر‘‘ (دھمکی دینا اور قائل کرنا) کی پالیسی کو اپناتے ہوئے فلسطینیوں پر مسلط کرنا چاہتی ہے۔
بہت سارے فلسطینیوں اور تجزیہ کاروں کی نظر میں صدی کی ڈیل مواد کی رو سے قابل قبول نہیں اور اس کے پریزنٹیشن کا طریقہ توہین آمیز اور ذلت آمیز تھا۔ غیر وابستہ ممالک کی تحریک (125 رکن اور 25 آبزرور پر مشتمل)، عرب لیگ (22 رکن پر مشتمل)، او آئی سی (57 رکن پر مشتمل)، اور افریقی یونین (55 رکن پر مشتمل) اس ڈیل کو رد کرچکے ہیں، اس کے علاوہ تمام فلسطینی گروہوں نے بھی اس کی مخالفت کی ہے جو کہ اس بات کی غماز ہے کہ یہ ڈیل جنم کے وقت ہی مردہ ہوچکی ہے اور اللہ تعالیٰ کی مدد سے اس سال کی یوم القدس میں اس شوم ڈیل کی تابوت پر آخری کیل ٹھونک دی جائے گی۔
یہاں اپنے پاکستانی برادران کو یاد دہانی کرانا چاہتا ہوں کہ اسلامی جمہوریہ ایران صدی کی ڈیل کی کھلی مخالفت کے ساتھ ساتھ ریفرنڈم کے انعقاد پر تاکید کرتا ہے جو فلسطین کے مسئلے کا واحد قابل قبول، جمہوری اور منصفانہ حل ہے۔ اس منصوبے کی رو سے جو اقوام متحدہ کے سیکرٹریٹ میں رجسٹرڈ ہو چکا ہے، فلسطینی مہاجرین کی اپنی سرزمین پر واپسی اور اس سرزمین کے دیرینہ باشندوں میں ان کی تقدیر نیز ان کے پسندیدہ سیاسی نظام کی نوعیت کے انتخاب کے لیے ریفرنڈم کا انعقاد ہی اس تنازع کا موثر ترین راہ حل ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران سمجھتا ہے کہ اس مجرم رجیم کے ساتھ تعلقات کو نارمل کرنا، فلسطین کے مقاصد سے غداری اور ایک غاصب، خونخوار اور طفل کش رجیم کو انعام دینے اور ساتھ ہی اس رجیم کو دیگر تمام اسلامی سرزمینوں کو بھی غصب کرنے میں حوصلہ افزائی دینے کی مترادف ہوگی۔ افسوس کے ساتھ کچھ اسلامی ممالک سمجھتے ہیں کہ صہیونی رجیم کے ساتھ اپنی تعلقات کو نارمل کرکے سیاسی امن اور استحکام تک ان کی رسائی ہوسکتی ہے، جبکہ تاریخ کے تجربوں نے ثابت کیا ہے کہ یہ رجیم اور اس کے اصل حامی صرف اپنے لیے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرنے اور دیگر ممالک سے فائدہ اٹھانے کے درپے ہیں، اور اپنے اس شوم مقصد کو کھلے عام اعلان کرنے سے ڈرتے نہیں ہیں۔
آخر میں کراچی میں تعینات اسلامی جمہوریہ ایران کے قونصل جنرل کی حیثیت سے اپنے ملک اور خطے کے تمام ممالک کے درمیان ’’عدم مداخلت کے معاہدے‘‘ پر دستخط کی پیشکش پر تاکید کرتا ہوں۔ یہ پیشکش اس خوف کو جو صہیونی رجیم اور امریکی حکام نے ایران کے حوالے سے ان ممالک کے دل میں ڈالا ہے کو بالکل مٹا سکتی ہے۔ امید کرتا ہوں ان ممالک میں موجود ہمارے مسلمان دوست اس آئیڈیا کو قبول کرنے کے ساتھ ساتھ، فرضی بدامنی کی جڑ کو اکھاڑ پھینکیں گے تاکہ اس کے بعد تمام مسلم ممالک فلسطین کے مسئلے کو ڈیموکریٹک طور پر حل کرنے پر غور کرسکیں۔