محکمہ صحت کے ایس او پیز میں تضاد

187

محکمہ صحت حکومت سندھ نے کورونا سے جاں بحق افراد کی نماز جنازہ اور عام قبرستان میں تدفین کی اجازت دے دی ہے ۔ نئی ہدایات یا ایس او پی کے مطابق وائرس میت سے منتقل نہیں ہو سکتا ۔ جسم پر چسپاں تمام آلات کو نکالنا اسپتال عملے کی ذمہ داری ہو گی ۔ میت منتقلی کی ذمے دار ضلعی انتظامیہ ہو گی ۔تاہم نئے ایس او پی کے ابتدائی جملوں اور آخری چند ہدایات میں پھر تضاد ہے ۔ کہا گیا ہے کہ میت کو پلاسٹک میں لپیٹنا لازمی ہو گا ۔ اور بچوں اور50 برس سے زائد عمر کے افراد کو میت کے گھر جانے کی اجازت نہیں ہو گی ۔ خدا خدا کر کے محکمۂ صحت کو یہ خیال آیا کہ ان کے احمقانہ ایس او پی کی وجہ سے میتوں کی حد درجہ توہین اور بے حرمتی ہو رہی ہے ۔اگر روز نامہ جسارت اپنے اداریوں کے ذریعے توجہ نہ دلاتا رہتا تو یہ سلسلہ شاید برسوں جاری رہتا ۔تاہم محکمہ صحت نے آخر میں پھر بلا وجہ کی پخ لگا دی ہے ۔ اپنے حکم کے آغاز میں محکمہ کا کہنا ہے کہ میت سے وائرس منتقل نہیں ہوتا اور اب تک کوئی ڈاکٹر یا محقق یہ بات وثوق سے نہیں کہہ سکاکہ میت سے وائرس منتقل ہو جاتا ہے لیکن پھر بھی میت کو پلاسٹک میں لپیٹنے کا حکم جاری کر دیا گیا ۔ میت کو پہلے غسل دیا جانا چاہیے پھر اسے کفن دیا جانا چاہیے پھرجنازہ اور تدفین ۔ یہ ہے ایس او پی یعنی شرعی آپریٹنگ پروسیجر ۔اور پچاس برس سے زاید کے لوگ میت والے گھر نہیں جا سکیں گے تو اس کا سبب کیا ہے ۔ ایسی باتوں کا مطلب یہی ہے کہ یہ احکامات جاری کرنے والے خود تذبذب کا شکار ہیں اور پورے ملک میں ایس او پی کے بارے میں شاید آگہی نہیں ہے یا پھر اس کا مذاق بنا دیا گیا ہے ۔ اگر ایس او پی اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجر ہے تو یہ اسٹینڈرڈ ایک دفعہ طے ہوتے ہیں اور برسہا برس چلتے ہیں ۔ پاکستان میں دو ڈھائی ماہ میں ایس او پی بار بار تبدیل ہوتے ہیں اور مختلف طبقات اور مواقع کے لیے ایس او پی مختلف ہیں ۔ مثال کے طورا پر ارکان اسمبلی کے لیے ایس او پی کی پابندی لازمی نہیں ۔ بازار اور مسجد میں لازمی ہے ۔ سبزی منڈی اور بندر گاہ پر لازمی نہیں، تراویح میں لازمی ہے ۔ یوم علی کے جلوس کے لیے لازمی نہیں ۔ عید کی نمازوں کے لیے لازمی ہے ۔ایس او پی ایک دفعہ بنتے ہیں اور مستقل رہتے ہیں ۔ ہمارے حکمرانوں نے ایس او پیز کو بھی مذاق بنا لیا ہے ۔