دیر آید درست آید

247

بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے کے مصداق حکومت دوچار ٹھوکریں کھانے کے بعد ملک کے چالیس لاکھ سے زائد طلبہ وطالبات اور ان کے خاندانوں میں پائی جانے والی بے چینی کے خاتمے میں تو کسی حدتک کامیاب ہوگئی ہے لیکن دوسری جانب نجی شعبے کے بھرپور احتجاج کے باوجود تعلیمی اداروں کی پندرہ جولائی تک بندش کے حکومتی فیصلے کے باعث لاکھوں طلبہ اور ان کے والدین تاحال بے یقینی کا شکار ہیں۔ حکومت جس کے ہاتھ پائوں کورونا کے باعث پہلے ہی سے پھولے ہوئے ہیں اور جو تعلیمی اداروں کے حوالے سے پچھلے تقریباً دوماہ سے جس بے یقینی اور گومگو کی کیفیت سے دوچار ہے نے باقی سب کچھ کھول دینے کے باوجود تعلیمی اداروں کی بندش پر جو سخت اسٹینڈ لیا ہے اس پر پوری قوم بالعموم اور نوجوان نسل بالخصوص جس ذہنی کوفت اور پریشانی سے گزر رہی ہے وہ ناقابل بیان ہے۔ حکومتی شاہی فرمان کے ذریعے تعلیمی اداروں کی بندش اور اس میں مسلسل توسیع کو ایک آسان کام سمجھ کر حکومت اور اس کے متعلقہ ادارے سمجھ رہے ہیں کہ اس طرح وہ اپنے فرائض سے سبک دوش ہو گئے ہیں حالانکہ گزرتے ہر دن کا ایک ایک لمحہ برسوں پر بھاری ہوکر متعلقہ طلبہ وطالبات اور ان کے والدین پر کوہ گراں بن کر گر رہا ہے۔ ماہرین تعلیم کا استدلال ہے کہ جب کورونا نے معاشرے میں ابھی اپنے منحوس پنجے پوری طرح نہیں گاڑے تھے اور ایسے میں جب ملک بھر میں میٹرک کا امتحان شروع ہوچکے تھے اور انٹرمیڈیٹ کے امتحان کے شروع ہونے میں محض دوتین ہفتے رہ گئے تھے تو اگر حکومت تھوڑی سی پھرتی اور بہتر قوت فیصلہ کا مظاہرہ کرتی تو بعض ناگزیر اور سخت حفاظتی تدابیر کے ذریعے کم از کم میٹرک اور انٹر کے امتحانات کا ڈول ڈال سکتی تھی لیکن ایک پیپر کے بعد اچانک امتحانات کا پہلے التواء اور بعد میں اس التواء میں توسیع اور اب سرے سے امتحانات کے عدم انعقاد کے اعلان سے تعلیمی حلقوں میں ایک اور بحث چھڑ گئی ہے جس کے مختلف مظاہر ہم سوشل میڈیا پر دلچسپ تبصروں اور چٹکلوں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح ایک موقع پر جب حکومت نے ان امتحانات کی منسوخی اور امتحانات کے تمام امیدواران کی اگلی کلاسوں میں پروموشن کا اعلان کیا تو اس پر پورے ملک میں تو توکار مچ گئی تھی کیونکہ یہ ایک اتنا غیر واضح اور مبہم اعلان تھا جس نے پوری قوم کو چکرا کررکھ دیا تھا۔
یاد رہے کہ یہ اعلان جو عجلت میں بغیرکسی ہوم ورک اور مشاورت کے کیا گیا تھا میں کہا گیا تھا کہ اس سال میٹرک اور انٹر کے سالانہ امتحانات نہیں ہوں گے اور تمام طلبہ وطالبات کو ان کی پچھلی جماعتوں کے نتائج کی بنیاد پر اگلی جماعتوں میں پروموٹ کیا جائے گا جس سے لاکھوں طلبہ اور ان کے والدین میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی کیونکہ ایک تو یہ اعلان اس قدر غیرواضح تھا کہ اس میں کوئی معمولی اشارہ بھی اس جانب نہیں تھا کہ آیا پچھلی جماعت سے کون سی جماعت مراد تھی یعنی دسویں اور بارہویں جماعتوں کے لیے تو نویں اور گیارہویں پچھلی جماعتیں ہیں اور اس حد تک یہ بات قابل فہم بھی تھی لیکن نویں اور گیارہویں کے لیے پچھلی کلاسوں کا واضح مطلب بالترتیب آٹھویں اور دسویں جماعتیں تھی جن کی بنیاد پر نویں اور گیارہویں کے نتائج کے اجراء کی بات یقینا ناقابل فہم تھی اس لیے اس پہلے فیصلے پرنہ صرف خوب تنقید ہوئی بلکہ متعلقہ اداروں کو غلطی کا احساس ہونے پر اگر ایک طرف یہ اعلان عجلت میں واپس لینا پڑا تو دوسری جانب انہیں قومی رابطہ کمیٹی کے اگلے (حالیہ) اجلاس میں اپنے اپنے متعلقہ بورڈوں کی مشاورت سے پوری تیاری اور یکسوئی کے ساتھ بھی آنا پڑا جس کے نسبتاً بہتر اور واضح نتائج موجودہ فیصلے کی صورت میں آج ہمارے سامنے ہیں جس کی تکرار کا یہاں نہ تو موقع ہے اور نہ ہی ضرورت البتہ یہاں دوچار امور کی نشاندہی اور ان پر حکومتی اداروں کو توجہ دینے کے ساتھ ساتھ ان پر ان اداروں کا موقف بھی لازماً سامنے آنا چاہیے بصورت دیگر اس ابہام کی موجودگی میں کیے گئے بہتر فیصلے بھی اپنی افادیت کھو بیٹھیں گے اور یہ فیصلہ فائدے کے بجائے عامتہ الناس کے لیے درد سر اور پریشانی کا باعث ثابت ہوگا۔
اس ضمن میں پہلی بات یہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ دسویں اور بارہویں کے طلبہ تو امتحان دیے بغیر گزشتہ سال کے نویں اور گیارہویں جماعتوں کے نتائج کی بنیاد پر تین فی صد اضافی نمبروں کے ساتھ ترقی اور کامیابی کے حقدار قرار دے دیے گئے ہیں لیکن نویں اور گیارہویں کے جن طلبہ کو دسویں اور بارہویں جماعتوں میں پروموٹ کیا گیا ہے ان کے تعلیمی سال کا اب تک کم از کم ضائع ہوچکا ہے اور میٹرک اور انٹر کے علاوہ دیگر کلاسوں کے طلبہ کا جو قیمتی وقت ضائع ہوا ہے یا ہورہا ہے اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بھی اعلیٰ حکومتی سطح پر سوچ بچار ضروری ہے۔ اسی طرح مختلف سطحوں کے سمسٹر سسٹم کے جن طلبہ کے تقریباً ایک سمسٹر ضائع ہونے کا خدشہ ہے اس پر بھی غور وخوض ضروری ہے۔ جامعات کی بندش سے ماسٹر، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی کلاسز اور خاص کر ریسرچ ورک سے متعلق طلبہ وطالبات کا جو قیمتی وقت ضائع ہورہا ہے اس کا مداوا اور حل بھی ضروری ہے اس حوالے سے گو کہ ایچ ای سی تمام جامعات کو آن لائین کلاسز شروع کرنے کے احکامات جاری کر چکی ہے لیکن پاکستان جیسے پسماندہ ملک جہاں انٹرنیٹ کی دستیابی تو کجا بجلی اور پانی جیسی بنیادی ضروریات کی دستیابی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے وہاں آن لائین کلاسز کا انعقاد کسی کی خوش فہمی تو ہوسکتی ہے اس کا حقیقت کی دنیا سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے لہٰذا توقع ہے کہ اعلیٰ تعلیم کے کارتا پرداز اس جانب بھی خصوصی توجہ دیں گے۔