تمنا کا دوسرا قدم

261

وزیر اعظم عمران خان اور ان کے حواریوں کا کہنا ہے کہ اب ہمیں کورونا کے ساتھ ہی جینا ہوگا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تحریک انصاف کو یہ بیان دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ گویا لوگ درست کہ رہے ہیں کہ وزیر اعظم عمران خان اشرافیہ کی مرضی کے بغیر منہ کھولنا تو کجا سانس بھی نہیں لیتے۔ مگر اکثر لوگ سوچ رہے ہیں کہ وہ سیاست داں اور مقتدر طبقے ہی کو اشرافیہ سمجھتے تھے مگر عمران خان اشرافیہ کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ اگر ہر کام اشرافیہ ہی کو کرنا ہے تو عمران خان کو وزارت عظمیٰ پر براجمان ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ کیوں اس عہدے پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں بعض ستم ظریفوں کا کہنا ہے کہ عمران خان وزارت عظمیٰ کی گدی پر بیٹھے ہی نہیں۔ بس اسے دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔ کیونکہ انہیں وزارت عظمیٰ سے اب کوئی دلچسپی نہیں وہ اور ان کے حواری ایسی قبر کی تلاش میں ہیں جسے مزار کا درجہ دے کر عمران خان کو اس کا گدی نشین بنا دیا جائے اور پھر امیر المومنین بنا دیا جائے۔ وطن عزیز میں اس سے قابل قدر گدی کوئی نہیں میاں نواز شریف نے بھی امیر المومنین بننے کی کوشش کی تھی بلکہ سیاست سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ مسئلہ کوئی بھی ناقابل حل نہیں ہوتا۔ مکالمہ سے گریز پائی کبوتروں کو خوف زدہ کردیتی ہے۔ جہاں جگہ ملتی ہے وہیں دبک کر بیٹھ جاتے ہیں۔ آسمان کبوتروں سے خالی ہوجائے تو اِسے ایسی بد شگونی سمجھا جاتا ہے جیسے شیخ رشید کا دم بھی بے دم نہیں کرسکتا۔
گزشتہ کچھ دنوں سے امتحانات پر تمام مکتبہ فکر کے لوگ اپنی اپنی ڈفلیاں اٹھائے اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں مگر سارے راگ سر اور تال سے خالی ہیں۔ ادب سے جمالیاتی عنصر نکال دیا جائے تو وہ شور شرابا کی سماعت شکن آواز بن جاتا ہے جہاں وہ چار پڑھے لکھے لوگ اکٹھے ہوتے ہیں اس معاملے میں خاصے جذباتی دکھائی دیتے ہیں۔ اکثر جوانوں کا خیال ہے کہ اگر ڈاکٹر شہباز گل کو وزیر اعظم کا اعزازی معاون خصوصی بنایا جاسکتا ہے انہیں پولیٹیکل کمیونیکیشن کی ذمے داری سونپی جاسکتی ہے تو طلبہ کو اعزازی طور پر اگلی کلاس میں داخلہ کیوں نہیں دیا جاسکتا۔ حالانکہ پرائیوٹ اسکول اور کالج بڑے دھڑلے سے تین ماہ میں میڑک اور چھ ماہ میں بی اے کرانے کے اعلانات کرتے رہتے ہیں۔ گویا تین اور چھ ماہ کے بعد امتحانات دیے جاسکتے ہیں۔ کالم لکھنے کے دوران ہمیں اطلاع ملی کہ امتحانات کے معاملے میں سمجھوتا ہوگیا ہے اچھی بات ہے مگر اس سے بھی اچھی بات یہ ہے کہ ایسے معاملات کو قبل از وقت میڈیا کی جھولی میں ڈال کر ذہنی دبائو نہ پھیلایا جائے کہ یہ کورونا سے بھی زیادہ خطرناک بیماری ہے۔ ہمیں یاد ہے بٹ گرام خیبر پختون خوا میں ایک حکیم صاحب میڈیکل اسٹور اور حکمت ساتھ ساتھ چلاتے تھے وہاں کے ایک نوجوان کا بھائی کشمیر میں شہید ہوگیا جمعہ کے دن وہاں سارے بازار بند رہتے ہیں مگر حکیم ساتھ کا میڈیکل اسٹور کھلا رہتا تھا اس نوجوان نے بھائی کا بدلہ لینے کے لیے حکیم صاحب کی دکان پر فائرنگ شروع کردی۔ حکیم صاحب شدید زخمی ہوئے اور ایک مریض جان بحق ہوا۔ نماز کے بعد لوگوں نے قاتل کو پکڑ کر پولیس کے حوالے کردیا اور حکیم صاحب کو ایبٹ آباد اسپتال میں داخل کرادیا۔ حکیم صاحب ٹھیک ہونے کے بعد بمبئی چلے گئے اور وہاں کی شہریت اختیار کرلی قابل غور بات یہ ہے کہ انڈین حکومت نے انہیں اعزازی طور پر حکمت کی سند اور لائسنس دے کر میڈیکل اسٹور کھولنے کی اجازت دے دی۔ کیا پاکستان کی عدلیہ یہ جرات کرسکتی ہے۔۔۔؟