کورونا عالمی بُرج اُلٹ رہا ہے؟

386

کورونا نام کا ایک حقیر وائرس دنیا کی معاشرت، معیشت اور سیاست کو بدل رہا ہے۔ صدیوں سے چلے آنے والے معاشرتی آداب اور روایات یکسر تبدیل ہو گئی ہیں۔ جو چیزیں انسانی تہذیب اور قربت ووالہانہ پن کی علامت اور پہچان ہوا کرتی تھیں اب زہر قاتل ہو کر رہ گئی ہیں۔ معانقے اور مصافحے جو جذبات کی گرم جوشی کو ظاہر کرتے تھے اب متروک ہو چکے ہیں اور بیگانگی، بے حسی اور سنگ دلی کی علامت فاصلوں کو سوشل ڈسٹنسنگ کا نام دے کر مرض کا عارضی نسخہ شفا قرار دیا گیا ہے۔ یہ تو اس وائرس کے آداب معاشرت بدلنے کی ایک جھلک ہے۔ اسی طرح کورونا نے دنیا کی معیشت کی کتاب بھی نئے سر ے سے تحریر کرنا شروع کردی ہے۔ اپنی مضبوط معیشتوں پر اترانے والے اور بے روزگاروں کی جنت کہلانے والے ملکوں کی معیشت کے استخوان لرز رہے ہیں اور وہ بے روزگاروں کی فیکٹریاں بنتے جا رہے ہیں۔ جن ملکوں میں لوگ رزق روزگار کمانے دھوم دھام سے جاتے تھے اب وہاں سے وہی لوگ بے روزگارہو کر واپس گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ بہت طاقتور ممالک آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے آگے قرض کے لیے ہاتھ پھیلائے کھڑے ہیں۔ ایشیائی ترقیاتی بینک نے ایک رپورٹ کے ذریعے خبردی ہے کہ کورونا سے عالمی معیشت کو 8.8ٹریلین کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اس وبا کی وجہ سے بے روزگار ہونے والوں کی تعداد پندرہ کروڑ اسی لاکھ سے لے کر چوبیس کروڑ بیس لاکھ کے درمیان ہو سکتی ہے۔ ان میں ستر فی صد کا تعلق ایشیا اور بحرالکاہل سے ہوگا۔ یہ اعداد وشمار لکھنا اور دہرانا آسان ہے مگر اس کے اثرات کو ماپنا اور تولنا اور ان اثرات کا اندازہ کرنا حد درجہ مشکل ہے۔ بے روزگاری کے نتیجے میں سماجی مسائل کا ایک وسیع سلسلہ اور دردناک داستانوں کی ایک پوری کتاب باہم مربوط ہے۔ یہ وہ اثرات ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہونا شروع ہوں گے۔
کورونا دنیا کی سیاست کو بھی تیزی سے بدلتا جا رہا ہے۔ امریکا اور روس دنیا کے اہم ملکوں میں شمار ہوتے ہیں۔ امریکا دنیا کا نمبر ون ہے اور روس بھی معاشی اور فوجی اعتبار سے کم نہیں۔ دونوں کے سربراہوں روسی صدر ولادی میرپوٹن اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کورونا کے اثرات کے نتیجے میں سیاسی مشکلات کا شکار ہو رہے ہیں۔ امریکا کے شہرہ آفاق اخبار ’’ٹائم‘‘ نے کورونا سے نمٹنے میں ناکامی پر ڈونلڈ ٹرمپ کی بڑھتی ہوئی سیاسی مشکلات پر ایک مضمون لکھا ہے۔ صدر ٹرمپ کو اس سال کے آخر میں صدارتی انتخاب کا معرکہ درپیش ہے۔ ان کے مقابلے میں سابق نائب صدر جوبائیڈن ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدوار کے طور میدان میں خم ٹھونک کر موجود ہیں۔ ٹرمپ کورونا کی دلدل میں دھنس رہے ہیں اور یہ حالات جوبائیڈن کے لیے سیاسی ٹانک کا کام دے رہے ہیں۔ ٹائم کے مطابق صدر ٹرمپ کے بہت سے پرجوش ووٹر اس بار کورونا بحران میں ان کی کارکردگی سے ناخوش ہیں اور اپنے ووٹ کا مخالفت میں استعمال کرنے کے ارادوں کا کھلے بندوں اظہار کررہے ہیں۔
ٹائم نے اس کے لیے ہیڈی اور ڈینس نام کے دو کردار چنے ہیں جو گزشتہ انتخابات میں صدر ٹرمپ کے پرجوش حامی تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم ٹرمپ کے پرجوش ووٹر تھے ہمیں اس کا سخت
موقف پسند تھا۔ ہمیں یہ بات پسند تھی کہ وہ سیاست دان نہیں تھا۔ میں ساڑھے تین برس تک اس کا حامی رہا مگر پھر مایوسی ہوتی چلی گئی اور کورونا بحران میں ان میں سنجیدگی کا فقدان دیکھا گیا اور یہ اونٹ پر آخری تنکا ثابت ہوا۔ ان کا کہنا تھا کہ کورونا میں کچھ ذاتی تجربات اور حکومتی نااہلی کے بعض واقعات نے انہیں ٹرمپ سے متنفر کر دیا وہ ’’ٹرمپ کے سابق حامی‘‘ کے نام سے ایک فیس بک پیج چلا کر ان کی مخالفت کر رہے ہیں۔ ہیڈی کا کہنا ہے اس کے انکل کورونا کا ٹیسٹ کرانے اسپتال گئے تو دو بار انہیں ٹیسٹ کرائے بغیر واپس بھیج دیا گیا۔ تیسری بار وہ اسپتال گئے تو ان کی حالت اس قدر بگڑ چکی تھی کہ انہیں داخل کر دیا گیا اور اٹھائیس دن وینٹی لیٹر پر کوما کی حالت میں رہے۔ یہ تھا ٹرمپ کا حسن انتظام اور وہ انہی لمحوں کہہ رہا تھا کہ ٹیسٹ کرانے کے لیے کوئی مشکل نہیں لوگ بے دھڑک اسپتالوں میں جا کر ٹیسٹ کرائیں۔ ڈینس کا کہنا تھا کہ ٹرمپ کی مقبولیت کم ہورہی تھی مگر کورونا اس ماحول میں اونٹ کے اوپر آخری تنکا ثابت ہوا۔
جوبائنڈن کئی ریاستوں میں مقبولیت اور پوائنٹس کے لحاظ سے ٹرمپ سے آگے ہیں اور ان میں وہ ریاستیں بھی شامل ہیں جن میں ٹرمپ نے گزشتہ صدارتی انتخابات میں واضح برتری حاصل کی تھی۔ یہ امریکا کے بزعم خود مرد آہن صدر ٹرمپ کی کورونا کے ہاتھوں بننے والی سیاسی دُرگت ہے جس کا احوال خود امریکا کے ایک معتبر اخبار نے بیان کیا ہے۔ بی بی سی کی بیان کر دہ روسی صدر پیوٹن کی مشکلات بھی کچھ کم نہیں۔ وبا کے آغاز پر ہی پیوٹن کریملن چھوڑ کر ماسکو سے باہر اپنی ذاتی رہائش گاہ میں منتقل ہو چکے ہیں اور وہیں سے وڈیو لنک پر کارِ حکومت چلا رہے ہیں۔ پیوٹن اس وقت کورونا سے بال بال بچے تھے جب انہوں نے ایک اسپتال کا دورہ کیا۔ انہیں اسپتال کا دورہ کرانے والے ڈاکٹر کا کورونا ٹیسٹ مثبت آیا۔ جس پر انہیں اپنا ٹیسٹ کرانا پڑا تھا۔ کورونا کے باعث روس میں بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ آزاد پولنگ فرم لیواڈا کے مطابق چار میں سے ایک شخص اپنی ملازمت کھو بیٹھا ہے یا کھونے کے خدشے کا شکار ہے۔ ایک تہائی لوگوںکی تنخواہوں میں کٹوتی ہو گئی ہے یا ان کے کام کے اوقات میں کمی کر دی گئی ہے۔ فعال سیاسی زندگی میں پیوٹن کو پہلی بار ایسے چیلنج کا سامنا ہے۔ اس موسم بہار میں روس میں لوگوں کو ایک ایسی آئینی ترمیم کے لیے ووٹ ڈالنا تھا جس کے تحت پیوٹن مزید دو بار صدر کا انتخاب لڑنے کے اہل ہوسکتے ہیں مگر یہ منصوبہ بھی دھرے کا دھرا رہ گیا ہے۔ اسی دوران ٹائم میگزین ہی نے ایک اور طویل مضمون میں ’’کیا چین کورونا بحران کے بعد مزید مضبوط ہوکر اُبھر سکتا ہے‘‘ کے عنوان سے لکھا ہے کہ چین جہاں سے کورونا کی وبا چلی تھی بہت مختصر مدت میں بہت مہارت کے ساتھ حالات پر قابو پا چکا ہے۔ اس طرح چینی سسٹم نے عوام اور معیشت پر اپنی مضبوط گرفت ثابت کر دی ہے اور اس کے آگے بڑھنے کے امکانات بھی زیادہ واضح ہوکر رہ گئے ہیں۔ چین نے نہ صرف اپنے گھر میں وبا پر قابو پایا ہے بلکہ ایران، عراق اور اٹلی کو بڑے پیمانے پر مدد بھی فراہم کی ہے۔ حتیٰ کہ نیویارک میں ماسک، کٹس اور وینٹی لیٹرز کی صورت میں چینی سامان کی کھیپ اترتی رہی۔ چین اپنے معاشی حالات پر بھی بہترین انداز سے قابو پا رہا ہے۔ چین کا سخت گیر سسٹم اس وقت دنیا کے لیے آئیڈیل ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ اسی سخت گیری کی وجہ سے چین نے کورونا پر قابو پالیا ہے۔