پوری دنیا میں اس وقت کورونا وائرس سے مقابلہ کو جنگ سے تشبیہ دی جارہی ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ ایک نظر نہ آنے والے دشمن کے خلاف لڑائی ہو رہی ہے۔ اسپتالوں میں ڈاکٹروں، نرسوں اور میڈیکل کارکنوں کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ سب اولین محاذ پر کورونا وائرس کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ نے کورونا وائرس کو چینی وائرس قرار دے کر اسے غیر ملکی خطرہ قرار دیا ہے اور اپنے آپ کو زمانہ جنگ کے صدر کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ امریکا کی خاص ریت ہے کہ ہر صدر اپنے سینہ پر ایک جنگ کا تمغہ ضرور لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ یورپ میں بیش تر ملکوں نے اس وبا کو دوسری عالم گیر جنگ کے بعد نہایت سنگین چیلنج قرار دیا ہے اور کورونا وائرس کو اموات کے اعدادو شمار کے آئینہ میں جنگ کی ہلاکتوں کی طرح پیش کیا جارہا ہے اور ان اعداد وشمار کی بنیاد پر کورونا کے خلاف جنگ میں کامیابی یا ناکامی کا دعویٰ کیا جارہا ہے۔ جنگوں کی طرح حکومتیں عوام کو تسلی دینے اور ان کا حوصلہ بڑھانے کے لیے وائرس کی اموات کو گھٹا بڑھا کر پیش کرنے کی کوشش کررہی ہیں۔
کورونا وائرس کے خلاف یہ جنگ عجیب و غریب ہے کہ پوری دنیا اس جنگ میں بغیر کسی ہتھیار کے کود پڑی ہے۔ اس جنگ میں کامیابی کا سارا دارو مدار کورونا کے مرض کے خلاف ویکسین کی تیاری پر بتایا جاتا ہے جس کی تیاری میں ستمبر تک انتظار کرنا پڑے گا۔ ویکسین کی بات تو دور کی وبا کے پھیلنے کے بعد بھی اس سے دفاع کے لیے ضروری حفاظتی لباس اور ونٹیلیٹرز کا پوری طرح سے انتظام نہیں کیا گیا تھا۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ اس وقت جب کہ کورونا کی وبا کے خلاف مقابلہ کو جنگ قرار دیا جارہا ہے یہ تاریخی حقیقت بھلا دی گئی ہے کہ جنگ اور وبائی امراض کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔
پہلی عالم گیر جنگ میں میدان ِ جنگ میں ہلاک ہونے والے فوجیوں سے کہیں زیادہ وبائی مرض سے ہلاک ہوئے تھے۔ وبائی مرض سے برطانیہ اور اس کی نوآبادیوں کے ایک لاکھ تیرہ ہزار فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ یہی صورت حال جرمن فوج کی ہلاکتوں کی تھی۔ میدان جنگ میں ہلاک ہونے والے جرمن فوجیوں کی تعداد پندرہ لاکھ اکتیس ہزار تھی جب کہ وبائی مرض سے ہلاک ہونے والے جرمن فوجیوں کی تعداد ایک لاکھ پچپن ہزار تھی۔ یہ فوج زیادہ تر متعدی بخار سے اور خندقوں کے امراض کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے۔
پہلی عالم گیر جنگ کے دوران مشرقی محاذ پر فوجوں میں ٹایفس کی وبا سے صرف یوگوسلاویہ میں ایک لاکھ پچاس ہزار فوجی ہلاک ہوگئے تھے اور روس کی خانہ جنگی میں ٹایفس کی وبا کے تیس لاکھ افراد شکار ہوگئے تھے۔ اور پہلی عالم گیر جنگ ہی کے آخری دنوں میں جان لیوا انفلوئنزا کی وبا نے جو ہسپانوی فلو کہلاتی ہے تین ماہ کے اندر اندر یورپ، امریکا اور ایشیا میں پانچ کروڑ افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں چھ لاکھ پچھتر ہزار امریکی شامل تھے۔ میدان جنگ میں امریکا کے اتنے فوجی ہلاک نہیں ہوئے جتنے کہ ہسپانوی فلو سے ہلاک ہوئے۔ گو یہ وبا ہسپانوی فلو کہلاتی ہے لیکن دراصل یہ وبا فرانس، چین، برطانیہ اور امریکا سے پھیلنا شروع ہوئی تھی اور اس کا سارا زور فوجی کیمپوں میں تھا۔ جب بھی ذکر ہوتا ہے جنگ اور وبائی مرض کی ہم جولی ہونے کا تو تاریخ دان 1803سے 1815کے دوران نیپولیائی جنگوںکی یاد دلاتے ہیں جن میں برطانوی فوج کے میدان جنگ سے چار گنا زیادہ فوجی وبائی مرض سے ہلاک ہوئے تھے۔ ادھر امریکا کی خانہ جنگی میں چھ لاکھ ساٹھ ہزار فوجیوں میں سے دو تہائی فوجی نمونیا اور ٹایفائیڈ سے ہلاک ہوئے تھے۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ جنگوں میں تیسری فوج وبائی امراض کی ہوتی ہے۔
یہ صحیح ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کسی بڑی جنگ کی وجہ سے نہیں پھیلی اور نہ اس وبا کا تعلق ان خانہ جنگیوں سے ہے جو اس وقت مختلف ملکوں میں لڑی جارہی ہیں لیکن اس بات کا خطرہ ہے کہ اس وبا کے نتیجے میں کوئی بڑی جنگ بھڑک اٹھے۔ چین اور امریکا کے درمیان اس وبا پر تنازع کی وجہ سے کشیدگی تیزی سے بڑھ رہی ہے جو ایک بڑی جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس وقت کورونا وائرس کی وجہ سے دنیا بھر میں معیشت جس تباہی کا سامنا کر رہی ہے اس کو سنبھالنے کے لیے بیش تر ممالک معیشت کی بحالی کے لیے بے تاب ہیں اور کوشاں ہیں کہ زیادہ سے زیادہ کارکن اپنے کام پر واپس جائیں لیکن ٹرانسپورٹ میں اور دفاتر اور فیکٹریوں میں سماجی فاصلہ رکھنے میں مشکلات کی وجہ سے خطرہ ہے کہ وائرس پھر پلٹ کر وار کرے اور اب تک اس وبا کو روکنے کے لیے جو تدابیر اختیار کی گئی ہیں وہ بے سود ثابت ہوں اس بنا پر عام خیال ہے کہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ طول پکڑ جائے گی اور ایک بات واضح ہے کہ اس جنگ کا جو بھی نتیجہ نکلے، دنیا کے بیش تر ممالک کی معیشت بری طرح سے تباہ ہو جائے گی جس کی بحالی بہت مشکل ہوگی۔
امریکا میں جہاں کورونا وائرس نے سب سے زیادہ تباہی مچائی ہے دو کروڑ افراد بے روزگارہو چکے ہیں۔ برطانیہ میں اس سال وبا کی وجہ سے اکیس لاکھ افراد بے روزگاری کا شکار ہوں گے۔ اندازہ لگایا گیا ہے کہ برطانیہ میں معیشت کی بحالی کے لیے اس سال تین سو ارب پونڈ کا قرضہ لینا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ یہ قرضہ کہاں سے مل سکے گا دنیا کے دوسرے ممالک کی بھی معیشت تباہ ہو گئی ہے۔ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کے خلاف جنگ میں کس کی جیت ہوگی تاہم ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سائنس دان کورونا وائرس کو شکست دینے میں ناکام ہوتے نظر آتے ہیں اور اب ان کی رائے ہے کہ مکمل لاک ڈاون کی حکمت عملی بے سود ثابت ہوئی ہے اور اب مکمل لاک ڈاون ترک کردینا چاہیے۔ بلا شبہ اس جنگ میں کورونا کو زیر کرنے کے لیے ویکسین کی تیاری لازم ہے جس کے لیے برطانیہ، امریکا اور سوئزرلینڈ میں جان توڑ کوششیں ہورہی ہیں۔ توقع کی جاتی ہے کہ ستمبر تک اس ویکسین کی تیاری میں کامیابی ہو سکے گی اس کے بعد ہی کورونا کے خلاف جنگ کا فیصلہ ممکن ہو سکے گا۔