ہمسایہ خدا

441

ظفر عالم طلعت
چچا غالب دو ڈھائی سو سال پہلے کہہ گئے تھے۔
ایک بندہ کمینہ ہمسایہ خدا ہے
یہ بات تو انہوں نے خود اپنے بارے میں کہی تھی کیوں کہ ان کا گھر مسجد سے متصل تھا۔ لیکن یہاں میں ایک ایسی جیتی جاگتی ہستی کا ذکر خیر کروں گا جو اب ہم میں نہیں رہی۔ جو رشتے میں ہمارے ماموں زاد بھائی تھے اور راولپنڈی سیٹلائٹ ٹائون میں رہائش پزیر تھے۔ نام ان کا تھا محمد احمد۔ دھان پان سے آدمی تھے اور سگریٹ بے انتہا پیتے تھے۔ یعنی چین اسموکر تھے۔ اکثر ہم انہیں چھیڑتے تھے کہ بھائی محمد احمد اگر آپ کی نس کٹ جائے تو خون کے بجائے اس میں سے صرف سگریٹ کا دھواں ہی نکلے گا۔ جس پر وہ ایک بہت زوردار قہقہہ لگا کر اس کو اپنی مسلسل کھانسی سے بریک لگاتے تھے۔ دھواں بھی ایسی شان سے نکالتے تھے کہ قوس و قزع کی طرح ایک چاند کا ہالہ سا فضا میں بن جاتا تھا۔ گو کہ انہوں نے اتنی سگریٹ پی لی تھی کہ ان کے زندہ بچنے کے امکانات بہت ہی کم تھے۔ مگر جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے۔ بہت ہی زندہ دل اور بزلہ سنج تھے۔ ہمارا راولپنڈی جانا ہوتا تو ان کے ساتھ بڑی محفلیں جمتی تھیں۔ اکثر ایسی محفلیں سردیوں کی راتوں میں آتش دان کے سامنے لحاف میں گھس کر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے عشاء سے شروع ہوکر فجر پر ختم ہوتی تھیں۔۔۔ مگر تشنگی باقی رہتی۔ ان کی محفل میں کسی بھی عمر اور مزاج اور ذوق کا آدمی ایک دفعہ ان کو سننا شروع کرتا تو پھر کیا مجال ہے کہ محفل ختم ہونے سے پہلے اٹھ جائے۔
یوں تو پیشے کے اعتبار سے استاد تھے لیکن ویسے بھی بہت استاد تھے۔ اگر استادوں کا استاد کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کبھی ہم نے ان کو فریق مخالف سے مات کھاتے نہیں دیکھا۔ اتنا وسیع مطالعہ اور مشاہدہ تھا اور زندگی کے اتنے نشیب وفراز بھگت چکے تھے کہ مات کھانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ گھاٹ گھاٹ کا پانی پی رکھا تھا۔ لیبیا، سعودی عرب اور پاکستان گھوم چکے تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ شروع ہی سے ایک بہت ہی متحرک صحافی بھی رہے۔ اور کئی اخبارات میں کام کیا اور اس ذمے داری کو بھی آخری وقت تک نبھایا۔ گویا مرانجان مرنج قسم کی شخصیت تھی۔۔۔ نظریاتی طور پر بھی ایک بہت ہی زبردست داعی اسلام تھے۔ مگر عمل کے معاملے میں ہم جیسے ہی گفتار کے غازی تھے۔ کبھی نماز پڑھی۔ کبھی نہ پڑھی۔۔۔ عمل میں ہماری طرح ہی کمزور۔
ایک دفعہ ہم نے بھری محفل میں ایک چبھتا ہوا سوال ان سے پوچھ لیا کہ بھائی آپ ماشاء اللہ اتنی اچھی گفتگو کرتے ہیں اسلام کے بارے میں کہ داد دیے بغیر چارہ نہیں مگر نمازوں کے معاملے میں کچھ سستی سی ہے۔ کہنے لگے بات یہ ہے کہ ہمارا گھر مسجد کے پڑوس میں ہے۔ دیوار بھی ملی ہوئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمسائے کے حقوق پر اتنا زور دیا ہے کہ کیا قیامت میں ہمیں پڑوسی ہونے پر معاف نہیں کرے گا؟؟ ہم نے آنسو (اپنے) پونچھتے ہوئے کہا کیوں نہیں۔ یقینا اللہ آپ کے حسن ظن کے مطابق عطاکرے گا ایسے موقع پر وہ غالب کے انداز میں فرماتے۔ ایک بندہ کمینہ ہمسایہ خدا ہے۔
اکثر اپنا تعارف بہت ہی خوبصورت اور پر شکوہ انداز میں کراتے۔۔ فیلڈ مارشل محمد احمد خان راجپوت سورج بنسی۔۔۔ ہم نے پتا کیا تو معلوم ہوا ایوب خان کی طرح خود ساختہ فیلڈ مارشل نہ تھے بلکہ ان کو یہ خطاب گورنمنٹ ڈگری کالج اصغر مال راولپنڈی کے مشہور زمانہ پروفیسر وثیق احمد نے عطا کیا تھا کیونکہ وہ پروفیسر صاحب کے سب سے ذہین و فطین اور حاضر جواب اور لیڈرانہ صلاحیتوں سے مالا مال شاگرد رشید تھے۔ جسامت میں سنگل پسلی تھے مگر بہادر بہت تھے ایک زمانے میں بھٹو صاحب نے لیاقت باغ راولپنڈی میں متحدہ حزب اختلاف کے جلسے کو اپنی بدنام زمانہ ایف ایس ایف (فیڈرل سیکورٹی فورس) کے ذریعے ناکام بنانے کی کوشش کی اور گولیاں چلوادیں۔ یہاں تک کہ بہت سے لوگ شہید ہوگئے اور بہت سے زخمی اور اکثر بھاگ کھڑے ہوئے۔ مگر محمد احمد بھائی اسٹیج پر ڈٹے رہے اور زخمیوں کی مدد بھی کرتے رہے۔ ایک دفعہ محمد احمد بھائی ہمارے بھانجے کی شادی میں کراچی آئے تو ہمارے گھر قیام کیا۔ اور فرمائش کی کہ ہمارے ساتھ کراچی کی سیر کریں گے۔ ہم نے کہا کیوں نہیں۔۔ ضرور۔۔ کہنے لگے ایک شرط ہے۔ ہم نے کہا وہ کیا؟؟ کہنے لگے کہ سیر کا مزہ تو تب آئے گا کہ جب ہم بسوں میں سفر کریں۔ اس طرح ہم زیادہ اچھی طرح کرا چی سے واقف ہو سکیں گے۔ ورنہ کار میں تو آدمی آناً فاناً گزر جاتا ہے اور موقع واردات اور اس کی جزیات چھوٹ جاتی ہیں۔۔۔ لہٰذا ہم نے بھی کمر ہمت کس لی اور ہم دونوں بس میں روانہ ہوئے۔ پہلے عزیزآباد سے لالوکھیت اور قائد کے مزار سے بندر روڈ ہوتے ہوئے ریڈیو پاکستان سے گزرتے ہوئے ٹاور پہنچے۔ وہاں سے دوسری بس پکڑ کر نیٹی جیٹی سے ہوتے ہوئے کیماڑی پہنچے پھر کشتی پر منوڑہ گئے۔۔ اور سمندر کنارے بیٹھ کر لہروں کا نظارہ کرتے رہے اور گزرے وقت کی یادوں کو تازہ کرتے رہے۔ راستے بھر ان کے چٹکلوں سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ اور ساتھ ہی ان کے لیے کراچی کی کمنٹری بھی کرتے رہے۔ واپسی میں صدر بوہری بازار پر اُترے اور زیب النساء اسٹریٹ پر مٹر گشت کرتے ہوئے بالآخر اولڈ کلفٹن برج تین تلوار۔۔ شون چورنگی اور دو تلوار ہوتے ہوئے عبداللہ شاہ غازی کے مزار سے ہوتے ہوئے کلفٹن اور سی ویو سے لطف اندوز ہوئے۔۔ سمندر کی لہریں گنتے رہے اور ان لہروں پہ سنگ باری بھی کرتے یوں تو وہ بہت ہی بزلہ سنج، مرنجان مرنج اور یار باش قسم کے آدمی تھے لیکن اندر سے بہت دکھی۔ مگر اپنے دکھوں کو ہمیشہ اپنی اور دوسروں کی ہنسی میں چھپائے رکھا۔ دل کے بہت سخی تھے ان کے انتقال پر ملال کے بعد معلوم ہوا کہ کئی طلبہ کا خرچہ خود اٹھاتے تھے اور لوگوں کے دکھ اور مصیبتیں بانٹنے میں ہر وقت لگے رہتے تھے۔ جب ان کا انتقال ہوا تو ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ انہوں نے پڑوسی کے حقوق کے بارے میں حدیث پر عمل کرتے ہوئے اپنا جدی پشتی مکان جس سے ان کی بہت سی یادیں جڑی ہوئی تھیں مسجد کو مارکیٹ ریٹ سے کہیں کم پرفروخت کردیا۔۔۔ اس دن ہمیں یقین ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ بھی جواباً اپنے اس پڑوسی کا ضرور خیال رکھے گا۔ اور جنت میں اس سے بڑا اور اس سے عالی شان محل عطا کرے گا۔ ان شاء اللہ۔ آمین ثمہ آمین ہمسایہ خدا فیلڈ مارشل محمد احمد خان راجپوت سورج بنسی۔۔۔ تم وہاں بھی ہمسایہ خدا ہو گے۔۔۔ ان شاء اللہ