معروف مورخ نوح حراری کے خیالات کا تجزیہ

600

جس طرح کھوٹا سکہ کھرے سکے کے دھوکے میں چلتا ہے اسی طرح باطل ہمیشہ حق کے دھوکے میں چلتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باطل ہمیشہ حق کی نقل کرتا ہوا پایا جاتا ہے۔ سوشلزم ایک مذہب دشمن فلسفہ تھا مگر سوشلسٹ دنیا میں سوشلزم خود ایک مذہب بن کر کھڑا ہوگیا۔ لبرل ازم ایک مذہب بیزار فکر ہے مگر برطانیہ کے ممتاز جریدے ’’دی اکنامسٹ‘‘ کے بقول اب لبرل ازم ایک Faith یا عقیدہ ہے۔ سائنس کا تعلق صرف مادی دنیا سے ہے اور اسے ہرگز بھی انسان کی مجموعی رہنمائی کا کام نہیں سونپا گیا مگر عہد حاضر میں سائنس بالخصوص فلسفۂ سائنس بجائے خود ایک مذہب بن کر کھڑا ہوگیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سائنس پرست سائنس کو مقدس مذہب بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ان کے لہجے میں ویسا ہی تیقن ہوتا ہے جیسا تیقن صرف مذہب کے لیے زیبا ہے۔ سائنس پرست سائنس سے ویسی ہی اتھارٹی بھی وابستہ کرتے ہیں جو صرف ایک سچے مذہب کے ساتھ وابستہ کی جاسکتی ہے۔ یووال نوح حراری عہد جدید کے ایک اہم مورخ ہیں۔ وہ نسلاً یہودی اور فکری اعتبار سے سیکولر ہیں۔ انہیں سائنس سے ایسا عشق ہے کہ وہ سائنس کو مذہب کی طرح پیش کرتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ انہوں نے اپنی حالیہ تصنیف Homo Deus میں لکھا ہے کہ موت خدا کے حکم سے نہیں آتی بلکہ آدمی اس لیے مرجاتا ہے کہ اس کے جسم کا کوئی بھی اہم جزو کام کرنا بند کردیتا ہے۔ نوح حراری نے دعویٰ کیا ہے کہ سائنس اتنی ترقی کرگئی ہے کہ موت اب ایک تکنیکی مسئلہ ہے۔ یعنی انسان آج نہیں توکل، کل نہیں تو پرسوں موت پر قابو پالے گا اور دائمی زندگی حاصل کرے گا۔ نوح حراری نے لکھا ہے کہ زندگی کے ساتھ ہمارا یہ ideological commitment ہے کہ ہم کبھی موت کو قبول نہیں کرسکتے چناں چہ ہم موت پر قابو پانے کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔
(ہومو ڈیوز، نوح حراری صفحہ 25 اور 32)
نوح حراری کی مذکورہ بالا کتاب 2017ء میں شائع ہوئی تھی۔ اتفاق سے کورونا کی وبا کے بعد نوح حراری کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس کی وسعت اللہ خان صاحب نے روزنامہ ایکسپریس میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں تخلیص کی ہے۔ ذرا دیکھیے تو نوح حراری کیا فرما رہے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے۔
’’مگر یہاں یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے کہ ہم بھلے ہی کتنی ترقی کرجائیں کوئی نہ کوئی غیر متوقع چیلنج یا وبا ہمیں ضرور آزمائش میں ڈالتے رہیں گے۔ لہٰذا ہمیں ناقابل تسخیر ہونے کے اندھے زعم سے خود کو بچانا ہوگا جیسے سیزر کے پیچھے پیچھے ہمیشہ ایک شخص چلتا تھا۔ جس کا کام ہی یہ تھا کہ جہاں سیزر خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگے یہ شخص اس کے کان میں کہے سیزر تم جتنے بھی طاقت ور سہی مگر لافانی نہیں ہو‘‘۔ (روزنامہ ایکسپریس۔ 9 مئی 2020)
جیسا کہ ظاہر ہے نوح حراری کی ان دونوں تحریروں کے اقتباسات ایک دوسرے کی تردید اور تکذیب کرتے نظر آرہے ہیں۔ 2017ء میں نوح حراری صاحب کہہ رہے تھے کہ سائنس کے لیے موت صرف ایک تکنیکی مسئلہ رہ گیا ہے مگر اب موت تو کیا سائنس کورونا پر بھی قابو کے لائق نظر نہیں آرہی۔ 2017ء میں لکھی گئی کتاب ہومو ڈیوز میں سائنس کے لیے سب کچھ قابل تسخیر تھا۔ موت بھی، مگر اب نوح حراری کہہ رہے ہیں کہ انسان ناقابل تسخیر نہیں ہے اسے موت کیا ایک وبا بھی تسخیر کرسکتی ہے۔ چناں چہ ہمیں اس زعم میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کہ انسان ناقابل تسخیر ہے۔ اس کے معنی اس کے سوا کیا ہیں کہ آنکھ سے نظر نہ آنے والے ایک وائرس نے سائنس کی عظمت کے غبارے کی ساری ہوا نکال دی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ کاش نوح حراری نے اپنی تصنیف ’’ہوموڈیوز‘‘ میں بھی انکسار اور فروتنی اختیار کی ہوتی اور کہا ہوتا کہ سائنس کی فتوحات غیر معمولی سہی مگر وہ بہرحال موت پر قابو پانے کے قابل نہیں، لیکن ہومو ڈیوز لکھتے وقت نوح حراری سائنس سے وابستہ جھوٹی عظمت کے گھوڑے پر سوار تھے اور سائنس کو مذہب کیا خدا بنائے ہوئے تھے۔ اتفاق سے صرف تین سال میں ان کا آسمان پر تھوکا ہوا ان کی طرف واپس لوٹ آیا ہے۔
نوح حراری نے اپنے مضمون میں ایک اور اہم بات کہی ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ ہمیں یقینا سائنس پر اعتماد کرنا چاہیے مگر انفرادی اور اجتماعی اخلاقیات اور اپنے اندر کی انسانیت کو زندہ رکھنے کی ذمے داری ہمیں خود ہی اٹھانا پڑے گی۔ کوئی روبوٹ ہمارے لیے یہ کام نہیں کرے گا۔
بدقسمتی سے نوح حراری نہ خدا کو مانتے ہیں نہ مذہب پر ان کا ایمان ہے۔ اس کے باوجود وہ انفرادی اور اجتماعی اخلاقی ذمے داری کی بات کررہے ہیں۔ جیسا کہ ظاہر ہے یہ دونوں باتیں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اخلاقیات کا ہر تصور اپنی اصل میں ایک مذہبی تصور ہے چناں چہ جو لوگ خدا اور مذہب پر ایمان نہیں رکھتے وہ اخلاق کی بات کرتے ہوئے اچھے نہیں لگتے۔ اخلاقیات پر گفتگو انہی کے لیے زیبا ہے جو خدا اور مذہب کے قائل ہیں۔ بدقسمتی سے مغرب کی جدید فکر اخلاقیات کو اضافی یا Relative بھی سمجھتی ہے حالاں کہ اضافی اخلاقیات سرے سے کوئی اخلاقیات ہی نہیں ہے۔ اس لیے کہ اخلاقیات ہر صورت میں مطلق یا Objective ہوتی ہے۔ اضافی اخلاقیات یہ ہے کہ اخلاقی اقدار اور اخلاقی تصور وقت اور زمانے کے ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ ممکن ہے آج جو حلال ہے کل وہ حرام ہوجائے اور آج جو حرام ہے ممکن ہے آنے والے کل میں حلال قرار پا جائے۔ اس کے برعکس مطلق اخلاقیات کا مطلب یہ ہے کہ اخلاقی تصورات دائمی ہیں۔ مذہب کا حلال، ہمیشہ حلال رہے گا اور مذہب کا حرام ہمیشہ حرام رہے گا۔ ساری دنیا مل کر بھی مذہب کے حلال و حرام کو بدلنے کا اختیار نہیں رکھتی۔ اس لیے کہ حلال و حرام کا تعین انسان نے نہیں اللہ تعالیٰ نے کیا ہے۔ صرف خدا ہی اپنے حلال و حرام میں تغیر کا اختیار رکھتا ہے۔
نوح حراری نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ چھ سو سال پہلے جب یورپ میں طاعون کی وبا پھیلی تو لوگوں نے اسے خدا کا قہر قرار دیا مگر آج انسان قدرتی اور انسانی آفات کے بارے میں مختلف انداز سے سوچ رہا ہے۔ مثلاً ٹرین حادثے، آتشزدگی یا سمندری طوفان وغیرہ سے ہلاکتوں کا سن کر دھیان آسمان سے نازل ہونے والے عذاب کی طرف نہیں بلکہ اس طرف جاتا ہے کہ ریل کے مسافروں کے تحفظ سے غفلت برتی گئی ہے۔ بلدیہ آتشزدگی سے متعلق قوانین پر عمل نہیں کراسکی۔ سمندری طوفان میں حکومت بروقت متحرک نہیں ہوئی۔
جدیدیت کی ایک بہت بڑی کامیابی یہ ہے کہ اس نے اربوں لوگوں کو خدا، رسالت، اور آخرت کے تصور سے یکسر کاٹ دیا ہے۔ ان تمام لوگوں کے لیے اب مادی دنیا ہی اصل دنیا ہے۔ مادی زندگی ہی اصل زندگی ہے اور مادی حقائق ہی حتمی حقائق ہیں۔ چناں چہ بیماری ہو یا زلزلہ، طوفان ہو یا کوئی آفت یہ لوگ ہر چیز کی صرف مادی یا عقلی توجیہ پر اصرار کرتے ہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑی آفت یہ ہے کہ جو اربوں لوگ خدا، رسالت، آسمانی کتاب اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں ان کی عظیم اکثریت بھی جدیدیت کے زیر اثر مسائل و معاملات کی روحانی تعبیر سے کہیں زیادہ مادی تعبیر پر یقین رکھتی ہے۔ ہندوئوں اور عیسائیوں کی بات ہی کیا مسلمانوں کی عظیم اکثریت نے خدا کو صرف ایک تصور میں ڈھال لیا ہے اور خدا ان کی زندگی میں Functional Reality کی حیثیت نہیں رکھتا۔ قرآن کہتا ہے کہ عزت اور ذلت خدا کے ہاتھ میں ہے مگر کروڑوں مسلمان سمجھتے ہیں کہ عزت و ذلت تو معاشرے، حکمرانوں، ریاست اور سرمائے اور طاقت کے پاس ہے۔ پاکستان میں ہونے والے ایک ملک گیر سروے کے مطابق پاکستان کے صرف چار فی صدی لوگ کورونا کو خدا کا عذاب سمجھتے ہیں۔ پاکستانیوں کی عظیم اکثریت کورونا کو صرف دنیا کے تناظر میں دیکھ رہی ہے۔ ہم سب اپنے علمی مشاہدے اور تجربے سے بخوبی جانتے ہیں کہ ہمارے افکار و افعال کا محرک دنیا ہوتی ہے آخرت نہیں۔ یہ جدیدیت کی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے مذہبی لوگوں کی بہت بڑی تعداد کے تناظر کو بھی ایک حد تک سیکولر بنادیا ہے۔
نوح حراری نے کہا ہے کہ اس وقت ہماری امیدیں پروہتوں، پادریوں اور راہبوں سے نہیں ڈاکٹروں اور نرسوں سے وابستہ ہیں۔ یہی ہمارے ہیرو ہیں، ہمارے سپر ہیرو ہمارے وہ سائنس دان ہیں جو تجربہ گاہوں میں کورونا کا توڑ ڈھونڈ رہے ہیں لوگوں کو یقین ہے کہ سپرمین یا اسپائیڈر مین کی طرح کوئی کردار بالآخر دنیا کو بچالے گا۔ اس وقت سوال یہ نہیں پوچھا جارہا کہ ویکسین کیسے بنے گی بلکہ سوال یہ پوچھا جارہا ہے کہ ویکسین کب بنے گی۔ کورونا کی ویکسین کی کہانی دلچسپ اور اہم ہے۔ کورونا کی وبا سامنے آئی تو کہا گیا ویکسین تین ماہ میں آجائے گی۔ پھر کہا گیا کہ اس کام میں چھ ماہ لگیں گے، اس بیان میں مزید ترمیم ہوئی کہا گیا کہ ویکسین کے آنے میں ایک سال لگ سکتا ہے۔ اب عالمی ادارہ صحت کہہ رہا ہے کہ ممکن ہے کورونا کی ویکسین کبھی نہ آسکے۔ ممکن ہے کورونا کی ویکسین جلد آجائے لیکن کمال کی بات یہ ہے کہ کورونا کی ویکسین کے حوالے سے سائنس یا سائنس دانوں نے اتنے بیانات بدلے ہیں کہ ان پر پاکستانی سیاست دان ہونے کا گمان ہونے لگا ہے۔ اس کے باوجود سائنس اور سائنس دانوں کی توقیر میں کوئی کمی نہیں آئی۔ اگر مذہبی لوگوں نے ایک مسئلے کے بارے میں اتنے بیانات بدلے ہوتے تو کروڑوں لوگوں کو اہل مذہب سے نفرت ہوگئی ہوتی۔ لوگ کہتے اہل مذہب تو ہوتے ہی جھوٹے ہیں۔
نوح حراری نے لکھا ہے کہ دو صدی قبل انسان کی اوسط عمر چالیس سال سے کم تھی۔ آج 72 برس تک پہنچ گئی ہے۔ بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں اوسط عمر 83 برس ہوگئی ہے۔ زیادہ عمر عہد جدید کے ساتھ مخصوص نہیں۔ سیدنا آدمؑ کی عمر ایک ہزار سال سے زیادہ تھی۔ سیدنا نوحؑ کی عمر کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ وہ ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے۔ چناں چہ ہمارے زمانے میں انسان کی عمر مزید بڑھے گی تو ماضی بعید کا احیا ہی ہوگا کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔ ویسے زندگی کے سلسلے میں اصل بات اس کا طویل یا مختصر ہونا نہیں ہے۔ زندگی ایک ہزار سال کی ہو اور بے معنی ہو تو فضول ہے۔ زندگی پچاس سال کی ہو اور بامعنی ہو تو شاندار زندگی کی ایک مثال ہوگی مگر جدیدیت کے لیے معنویت کا سوال اہم ہے ہی نہیں۔