حکومت نے چینی اسکینڈل سے متعلق فارنزک رپورٹ پبلک کردی , چینی کی کڑوی رپورٹ میںپی پی پی ،مسلم لیگ “ن”تحریک انصاف کے ارکان کے ملوث ہونے کے ثبوت مل چکے ہیںلیکن , کارروائی ہو سکے گی؟ یا نہیں‘وزیراعظم عمران خان نے وعدہ پورا کردیا ‘ پہلی بار ساتھیوں کے خلاف کارروائی ہو نے کا امکان ہے تفصیلات کے مطابق چینی انکوائری کمیشن نے تحقیقاتی اور فرانزک آڈٹ رپورٹ وفاقی کابینہ میں پیش کر دی جس میں چھ بڑے گروپوں کو ذمہ دار قرار دیا گیا۔رپورٹ میں پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی مسلم لیگ ق سے وابستہ بعض رہنمائوں کے نام بھی سامنے آئے ہیں ، کمیشن نے اس ضمن میں جہانگیر ترین ، شریف فیملی ، خسرو بختیار کے بھائی عمر شہریار، مونس الٰہی اور سندھ کے اومنی گروپ کو ذمہ دار قرار دیا۔ اس رپورٹ کی خاص با ت یہ ہے کہ ملک ایک برسر اقتدارتحریک انصاف اور دو سابق حکومت کر نے والی پارٹیاں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ “ن” کے ارکان پر ثبوت کے ساتھ نام شامل ہیں اور رپورٹ میں ملزم قراردیاگیا،رپورٹ میں کہاگیاہے کہ پیداواری لاگت میں گھپلے ‘کارٹل‘سیٹھ اور حکومتی اداروں کیلئے الگ الگ کھاتوں ‘پرچی سے کم قیمت پر گنے کی خرید‘ بغیراجازت پیداواری صلاحیت میں اضافے ‘افغانستان کو چینی برآمد‘بے نامی خریداری ‘ ٹی ٹی سے وصولی اورسٹے کے ذریعے ہیراپھیری اور فراڈ کیاگیا۔رپورٹ میں سفارش کی گئی کہ چینی بحران کے ذمہ داروں کے مقدمات درج کرکے وصولیاں کی جائیں ‘ریکور کی گئی رقم متاثر ہ کسانوں اورعوام میں تقسیم کی جائے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ شوگر ملز مالکان نے عوام کو بھی بھاری مالی نقصان پہنچایااور ان کی جیب میں جو کچھ ہیوہ عوام کا ہے اس لیے عوام کو بھی زرتلافی ادا کیاجائے اور چینی کی قیمت52روپے فی کلو کیا جائے۔
جسارت نے اس سلسلے میں ماہر معاشیات ڈاکٹر اکرام الحق سے معلوم کیا کہ ان کی کیا رائے ہے جس پر انھوں نے بتایاکہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان کے ڈبل کھاتوں کی مدد سے کھپلا کیا جاتا تھا ۔اس کے علاوہ کم پیدوار بتاکر زیادہ مال تیار کیا جاتا تھا اور اس کو زائد قیمتوں پر فروخت کیا جاتا تھا ۔ ان کہنا تھا کہ شوگر مالکان نے کے بجٹ 2017-18میں حکومت سے منظور کرایاکہ ان کے کھاتوں کا آڈ ٹ نہیں ہو گا ۔ملک میں 88شوگر ملز ہیں ان میں 38شوگر ملز بہت بڑی ہیںمیں چینی کی تیاری کا کام جاری ہے۔ جہانگیر تر ین کی شوگر ملز میں جو چینی تیا رکی جاتی اس کا مارکیٹ شیئر ز 21فیصد ہیں ۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر شاہد حسن کہنا ہے کہ شوگر اسکینڈل میں ماضی میں پوری کابینہ ملوث پا ئی گئی ہے اور اب بھی اگر ایسا ہو ا تو اس صورت میں کسی کو کوئی سزا نہیں ملے گی ۔انھو ں کہا کہ اسوقت صورتحال یہ ہے کہ رپورٹ منظر ِعام پر نہ آنے کی وجہ سے حکومت بدنام ہو رہی تھی اس لیے عمران خان نے فوری رپورٹ جاری کر نے کا حکم دیا ۔امھو نے کہا کہ دو یا دو سے زائد بینک کھاتوں کا ریکارڈ رپورٹ میںموجود نہیں ایسا نہیں ہے رپورٹ میں ہر بات کو کھول کر پیش کیا گیاہے لیکن اس رپورٹ میں ایک اور بات بھی قابل ذکر ہے یہ ہے کہ جس کا ذکر معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے کیا ان کا کہناتھا کہ شوگر ملز نے 22 ارب روپے کا انکم ٹیکس دیا اور 12 ارب کے انکم ٹیکس ریفنڈز واپس لے لیا یوں صرف 10 ارب روپے انکم ٹیکس دیا گیا‘کمیشن نے چینی بحران کا ذمہ دار ریگولیٹرز کو قرار دیا ہے جن کی غفلت کے باعث بحران پیدا ہوا اور قیمت بڑھی‘شوگرایڈوائزری بورڈ ‘ ایس ای سی پی، مسابقتی کمیشن،ایف بی آر، اسٹیٹ بینک سمیت وفاقی اورصوبائی اداروں نے غیر ذمہ داری دکھائی۔سوایہ پیدا ہو تا ہے کہ کمیشن نے کیسز نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن کو بھجوانے کی سفارش کی ہے، کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں آنے والے دنوں میں ایکشن ہوگا۔ رپورٹ پر ایکشن ہی اس رپورٹ کی جان ہے اور اگر ایکشن کہ ہو سکاتو واجد ضیاء کی رپورٹ پناما کی طرح پجامہ بن جائے گی
بتایا جارہا ہے کہ عید کے بعد وزیراعظم کی ہدایت پر سفارشات تیار ہوں گی جبکہ وفاقی وزیراطلاعات سینیٹر شبلی فرازکا کہناہے کہ یہ رپورٹ شروعات ہے ‘ دیگر معاملات کی بھی تحقیقات ہوگی ‘ماضی کے حکمرانوں نے اپنے مفادات کی وجہ سے ادارے تباہ کیے۔ 21مئی کو وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد شبلی فراز اور معاون خصوصی شہبازگل کے ساتھ میڈیا کو بریفنگ دیتے ہوئے شہزاد اکبر نے کہاکہ واجد ضیا نے کابینہ کے سامنے چینی کمیشن کی رپورٹ پیش کی۔شوگر انکوائری کمیشن نے دسمبر 2018 سے اگست 2019 تک چینی کے مصنوعی بحران کی تحقیقات کی اور اس بات کا پتہ چلایا کہ اس عرصے میں چینی کی قیمتوں میں 33 فیصد کیونکر اضافہ ہوایہ اضافہ 17 روپے فی کلوگرام بنتا ہے۔
شوگر ملز نے کسانوں کے ساتھ زیادتی کی اور تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا، کسان سے کٹوتی کے نام پر زیادتی کی گئی، شوگر ملیں 15 سے 30 فیصد تک گنے مقدار میں کم کرکے کسانوں کو نقصان پہنچاتی رہیں۔شوگر ملز نے کسانوں سے سپورٹ پرائس سے کم دام پر اور کچی پرچیوں پر گنا خریدا، کسانوں کے ساتھ مل مالکان نان آفیشل بینکنگ بھی کرتے رہے، 2019 میں گنا 140 روپے سے بھی کم میں خریدا گیا، شوگر ملز نے 2017-18 میں چینی کی 13 روپے زیادہ قیمت مقرر کی۔2017-18میں مل مالکان نے 51 روپے چینی کی لاگت بتائی، حالانکہ کمیشن نے تعین کیا یہ لاگت 38 روپے ہے۔شہزاد اکبر نے بتایا کہ اسی طرح 2018-19 میں ساڑھے بارہ روپے کا فرق پایا گیا۔2019-20 میں 16 روپے کا فرق پایا گیا، شوگر ملز نے2018-19 میں 12 اور 2019-20 میں 14 روپے زیادہ قیمت مقرر کی، ساری شوگر ملز نے دو کھاتے بنائے ہوئے ہیں، ایک کھاتا حکومت کو دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے، چینی کی بے نامی فروخت بھی دکھا کر ٹیکس چوری کی گئی۔معاون خصوصی نے کہا کہ چینی کی قیمت میں صرف ایک روپیہ اضافے سے 5 ارب 20 کروڑ روپے منافع کمایا جاتا ہے‘ریگولیٹری اور ٹیکس فراڈ سے کرشنگ کی استعداد کو بڑھایا جاتا ہے۔اس کے بعد رپورٹ میں ریمارکس دیا گیا کہ شوگر ملز مالکان سے لوٹی ہو ئی رقم واپس لے کر کاشتکاروں کو دیا جائے
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ شوگر ملز نے کسانوں کے ساتھ زیادتی کی اور تسلسل کے ساتھ نقصان پہنچایا، کسان سے کٹوتی کے نام پر زیادتی کی گئی، شوگر ملیں 15 سے 30 فیصد تک گنے مقدار میں کم کرکے کسانوں کو نقصان پہنچاتی رہیں۔شوگر ملز نے کسانوں سے سپورٹ پرائس سے کم دام پر اور کچی پرچیوں پر گنا خریدا، کسانوں کے ساتھ مل مالکان نان آفیشل بینکنگ بھی کرتے رہے، 2019 میں گنا 140 روپے سے بھی کم میں خریدا گیا، شوگر ملز نے2017-18 میں چینی کی 13 روپے زیادہ قیمت مقرر کی۔2017-18 میں مل مالکان نے 51 روپے چینی کی لاگت بتائی، حالانکہ کمیشن نے تعین کیا یہ لاگت 38 روپے ہے۔شہزاد اکبر نے بتایا کہ اسی طرح 2018-19 میں ساڑھے بارہ روپے کا فرق پایا گیا۔2019-20 میں 16 روپے کا فرق پایا گیا، شوگر ملز نے2018-19 میں 12 اور 2019-20 میں 14 روپے زیادہ قیمت مقرر کی، ساری شوگر ملز نے دو کھاتے بنائے ہوئے ہیں، ایک کھاتا حکومت کو دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے، چینی کی بے نامی فروخت بھی دکھا کر ٹیکس چوری کی گئی۔معاون خصوصی نے کہا کہ چینی کی قیمت میں صرف ایک روپیہ اضافے سے 5 ارب 20 کروڑ روپے منافع کمایا جاتا ہے‘ریگولیٹری اور ٹیکس فراڈ سے کرشنگ کی استعداد کو بڑھایا جاتا ہے۔قانون کے مطابق اس استعداد کو بغیر منظوری کے نہیں بڑھایا جاسکتا کیونکہ 8000 میٹرک ٹن سے 65000 میٹرک ٹن روزانہ کی استعداد بڑھائی گئی اتنی استعداد بڑھنے کا مطلب 8 اضافی شوگر ملز لگانا ہے۔پاکستان میں تقریباً 25 فیصد گنا ان رپورٹڈ (غیر دستاویزی شکل میں) ہے جس سے اس پر ٹیکس بھی نہیں دیا جاتا، پانچ برسوں میں 88 شوگر ملز کو 29 ارب کی سبسڈی دی گئی۔
شاہد حسن نے کہا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ایسا مذاق ہے جو آج تک کسی نے نوٹ نہیں کیا۔وفاقی کابینہ نے دیگر ملوں کا بھی فرانزک آرڈر کرنے کی ہدایت دی اور ریکوری کرکے پیسے عوام کو دینے کی سفارش کی۔ ایسا نہیں ہے مشرف دور میں بھی ایسی ہی صورتحال پیدا ہوئی تھی اوراس وقت بھی وزیر عظم اورکابینہ کے شوگر رپورٹ روک دی تھی رپورٹ سے بہت سے ادارے بے نقاب ہوئے ہیں‘یہ تمام ادارے 20ماہ میں خراب نہیں ہوئے بلکہ یہ ایک منظم نظام کے تحت تباہ کیے گئے۔چینی ملز کارٹل کے طور پر کام کررہے ہیں ، مسابقتی کمیشن ان کو روکنے میں ناکا م رہا‘ملک کے 6 بڑے شوگر گروپ کا فرانز ک آڈٹ کیا گیا جو ملک کی مجموعی چینی کا 51 فیصد پیدا کرتے ہیں۔ان میں ملک کی 88 شوگر ملز میں سے 38 بڑے کارخانے ان چھ بڑے گروپوں کی ملکیت ہیں ، ان گروپوں میں جمال دین والی( جے ڈی ڈبلیو) گروپ ، رحیم یار خان( آر وائی کے) گروپ ، المعیز گروپ ، تاندلیاں والا گروپ ،شریف گروپ اور اومنی گروپ شامل ہیں۔ان میں جمال دین والی گروپ ( جے ڈی ڈبلیو) گروپکا 20 فیصد شیئر ، رحیم یار خان( آر وائی کے) گروپ کے 12 فیصد شیئر ، المعیز گروپ کے 6.8فیصد اور تاندلیاں والا گروپ کے 4.9فیصد شیئر ، شریف گروپ کے 4.5فیصد شیئر اور اومنی گروپ کے 1.65فیصد شیئر ہیں۔رحیم یار خان گروپ میں مونس الہی ، عمر شہریار اور دیگر کے شیئرز ہیں ، جے ڈی ڈبلیو میں جہانگیر خان ترین ، علی ترین اور احمد محمود کے شیئرزہیں ، شریف برادران میں سلمان شہباز ، حمزہ شہباز ، شہباز شریف کے شیئرز ہیں۔حمزہ ملز میاں محمد طیب فیملی کی ہے، ان تمام گروپوں میں انتہائی اہم اورطاقتور سیاسی شخصیات ان کے قریبی عزیز اور قابل اعتماد دوست شامل ہیں ، گزشتہ کئی برسوں سے ان بڑے گروپوں نے یوٹیلٹی اسٹورز کو چینی فراہم نہیں کی ، اور ادارے چینی بحران میں خاموش تماشائی بنے رہے۔ مشیر تجارت عبدالرزاق دائودسے متعلق سوال کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ رپورٹ میں نام آنا کافی نہیں ان کے کردار کو بھی دیکھنا ہوتا ہے۔ اس طرح کی حمایت سے رپورٹ کو مشکوک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے ۔اس کے علاوہ ایک سوال عمران خان سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ 2018ء کے انتخابات کے بعد جہانگیر ین کا جہاز عمران خان کو وزیر اعظم بنانے کے لیے رکشے اور موٹر سائیکل کے طور استعمال ہو رہا تھا اس وقت کرپشن کہا ں دفن ہو گیا تھا۔