وقاص احمد
گزشتہ تین مہینوں میں کورونا وائرس سے جڑے معاملات میں بہت ساری غیر متوقع، حیران کن باتیں سامنے آتی جارہی ہیں۔ جوں جوں مختلف علمی اور سائنسی حلقے، آزاد ذہن رکھنے والے ڈاکٹرز اور سائنسدان اپنی تحقیقات اور رائے پیش کر رہے ہیں ویسے ویسے بعض معاملات میں شک کے بادل چھٹتے جارہے ہیں اور صورتحال اور منصوبے واضح ہورہے ہیں۔ لیکن کچھ امور شدید بحث طلب بھی ہیں اور سوالات کے جوابات چاہتے ہیں۔ مفادات، ایجنڈے اور حرص میں ڈوبے ہوئے پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا کی اکثریت سے کسی غیر جانبدار، شفاف اور ایجنڈے سے پاک تحقیقاتی خبر اور رپورٹ کی امید رکھنا اور یہ توقع رکھنا کہ یہ سچ کی تلاش میں سرگرداں رہیں گے اپنے آپ کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہے۔ ان لوگوں کو جو بیانیہ اوپر سے بتایا گیا ہے یہ اسی کے لائوڈ اسپیکر بنے رہیں گے۔ راقم کے نذدیک جو باتیں غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کی متلاشی ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔ چین میں اچانک لوگوں کے اندر کورونا کیسز کی کمی اور مریضوں کی صحت یابی میں اضافے کے پیچھے کیا راز ہے۔ چین میں کس دوایا طریقہ علاج کا استعمال کیا گیا۔ وبا تو چین میں بہت پہلے ہی پھیل چکی تھی اور لوگ ووہان سے چین کے دوسرے علاقوں میں سفر بھی کر چکے تھے تو پھر چین میں کیوں آبادی کے لحاظ سے اتنے کم کیسز رپورٹ ہوئے اور کیسے ووہان کو کھولنے کا فیصلہ اتنی جلدی کرلیا گیا۔ پھر اگلا اہم سوال یہ جنم لیتا ہے آخر یہ کون یورپ اور امریکا کے خاص پالیسی ساز ادارے، ڈاکٹرز اور سائنسدان ہیں جن کے انتہائی غلط سائنسی ڈیٹا ماڈل کے ہوش ربا اور ہولناک اندازوں نے حکومتوں کو سخت لاک ڈاون اور لوگوں کے معاشی استیصال پر مجبور کیا جب کہ اب یہ نتائج بھی سامنے آرہے ہیں کہ لاک ڈاون سے پہلے ہی کورونا آبادیوں میں پھیل چکا تھا اور لاک ڈاون سوائے معیشت تباہ کرنے اور لوگوں کو ڈیپریشن میں مبتلا کرنے کے اور کوئی خاص کام نہیں کیا۔ ان اداروں نے اپنی تحقیقی رپورٹوں اور اندازوں کا (Peer Review) بھی نہیں کروایا جو کسی بھی ریسرچ کو شائع کرنے کا ایک مستند طریقہ کار ہوتا ہے۔ اس کے بجائے ان مشکوک سائنسدانوں نے صرف اپنی پوزیشن اور اثر و رسوخ کا استعمال کیا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ان پالیسی ساز اداروں جیسے امپیریل کالج لندن ، جان ہاپکنز یونیورسٹی، ڈبلیو ایچ او، امریکی سی ڈی سی، ڈاکٹر فائوچی کا ادارہ صحت اور ایف ڈی اے اور ان میں موجود بھاری بھرکم ڈاکٹروں اور سائنسدانوں کا تعلق اعلانیہ اور غیر اعلانیہ کسی نہ کسی طرح بل گیٹس اور بڑے بڑے فارما سیوٹیکل کمپنیز سے مل جاتا ہے۔ بل گیٹس جو دنیا کی صحت کے حوالے سے زبردستی کے ٹھیکیدار بن کر پتا نہیں کیوں دس پندرہ سال سے بے تحاشا دلچسپی لے رہے ہیں اور خوب وسائل خرچ کر رہے ہیں اور دولت ہے جو کم ہونے کے بجائے دوگنی چوگنی ہوتی جارہی ہے۔
عوام تو اپنے ذہین، فطین، نامور اینکرز سے امید رکھتے ہیں کہ وہاں سنجیدہ معاملات میں بھی حقائق تک پہنچنے کے لیے اپنی صلاحیتوں، ذہانت اور وسائل کا بھرپور استعمال کریں گے جس کا مظاہرہ وہ اپنے ٹاک شوز کو جاندار بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ لیکن ایسا خوابوں میں بھی نہیں ہوپاتا۔ یہ اپنی جگہ خود ایک سوال ہے کہ میڈیا نے کیوں کورونا وائرس اور اس سے جڑی صحت اور سائنس کے ایک ہی قسم کے بیانئے کو فروغ دیا جسے ڈبلیو ایچ او کی آشیرباد حاصل ہو۔ اور دوسرے بڑے بڑے اداروں میں کام کرنے والے زبردست ماہرین، تجربہ کار ڈاکٹرز اور نوبل انعام یافتہ سائنسدانوں کی آراء اور تحقیقات کو بالکل بھی اہمیت نہیں دی۔
ایک بات جو خطرناک حد تک نظر انداز کی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ انسان کا قدرتی جسمانی مدافعتی نظام۔ جس نے اس وائرس کے خلاف اللہ کے فضل سے زبردست ردعمل دکھایا ہے۔ بچوں میں تو یہ وائرس نہ ہونے کے برابر پھیلا جبکہ پینتالیس سال تک کے لوگوں میں بھی انتہائی کم لوگوں کو اسپتال جانا پڑا۔ مجموعی طور پر اسی فی صد سے زائد لوگوں کو صرف معمولی علامات ظاہر ہوئیں۔ ان سب لوگوں کے جسم میں کورونا کے خلاف اینٹی باڈیز پیدا ہوگئی ہیں جو ان کو مستقبل میں بیماری سے متاثر ہونے اور اسے دوسروں تک پھلانے سے بہت حد تک محفوظ رکھے گی۔ بچوں، جوانوں اور پچاس ساٹھ سال کے صحت مند لوگ جتنا اپنے اندر کورونا کے خلاف مدافعتی نظام تعمیر کریں گے اتنا ہی قوم اس وائرس سے محفوظ رہے گی۔ یہ پورا عمل (Herd Immunity) کہلاتا ہے۔ اسٹینفرڈ (Stanford) یونیورسٹی امریکا اور بون یونیورسٹی ہاسپٹل جرمنی کے سائنسدانوں نے اس حوالے سے اپنے سروے مکمل کرلیے ہیں جس کے مطابق کورونا کی ہلاکت خیزی امریکا جیسے ملک میں بھی فلو کی ہلاکت خیزی کے آس پاس ہی ہے جہاں کورونا سے ہر دس لاکھ کی آبادی پر 268لوگوں کی امواتیں ہوئی ہیں۔ تو پاکستان میں جہاں یہ تناسب دس لاکھ پر چار کا ہے اب مزید کیا بات کی جائے۔ اس موضوع پر بات کیوں نہیں ہورہی کہ بنگلا دیش، انڈیا، پاکستان جیسے ملکوں کے باشندوں کے جسم کی اجزائے ترکیبی کیا ہے جو الحمدللہ یہ وائرس ہلاکت خیز نہ ہوسکا۔ یا ایسا کیا مسئلہ ہے جو امریکا اور یورپ میں ہلاکتیں زیادہ ہوئیں۔ کہیں فلو کا ٹیکہ اور دوسرے کئی ٹیکے جو وہ ہر سال امریکا اور یورپ کے لوگ لگاتے ہیں وہ تو کسی مسئلے کی وجہ نہیں؟۔ امریکی پی ایچ ڈی ڈاکٹر، ریسرچر اور Whistleblower ڈاکٹر جوڈی مکووٹس کی حال ہی میں شائع ہونے والی تہلکہ خیز کتاب (Plague of Corruption) نے جس طرح سائنسی تحقیق کی دنیا میں موجود کرپشن، جعلسازی، دولت اور مفادات کی خاطر حقائق اور نتائج چھپانے کے مکروہ اعمال پر سے پردہ اٹھایا ہے وہ آنکھوں کو خیرہ کرنے کے لیے کافی ہے۔ یہ اکیڈمک و سائنسی مافیا کسی ڈرگ مافیا سے کم نہیں ہے جسے بڑی بڑی فارما سیوٹیکل کمپنیاں کنٹرول کرتی ہیں۔ ان کے سائنسی رسالوں اور جرنلز میں وہی تحقیق چھپتی ہے جو کاروبار کے لیے موافق ہو۔ اسی طرح معروف قانون دان اور جان ایف کینیڈی کے بھتیجے رابرٹ کینیڈی ویکسین اور ٹیکوں کے بار ے میں بہت سی سنجیدہ اور دل دہلا دینے والی باتیں اعداد و شمار کے حوالے سے کرتے ہیں۔ پاکستان میں لاک ڈاون کے حامی لوگ اور ان کا ہم نوا میڈیا اس حوالے سے کیوں بات نہیں کرتے۔ اس لیے نہیں کرتے کہ کوئی پوچھنے والا منہ ہی نہیں ہے ہمارے میڈیا کے پاس۔ اس کے پاس صرف بھیڑ چال اور خوف کا سامان ہے۔
آخر اس موضوع پر بات کیوں نہیں ہورہی کہ سوئیڈن ایک دو اور ملکوں نے جنہوں نے ہر ڈامیونٹی (Herd Immunity) کی سائنس کے مطابق اپنے بچوں اور جوانوں کو ایک محدود سطح پر سرگرمیوں کی اجازت دی۔ اسکول، ریسٹورانٹس، پارکس، کاروباری ادارے کھلے رکھے۔ جنہوں نے صرف بیماروں اور بزرگوں پر تھوڑی سخت پابندی لاگو کی۔ ان کی شرح اموت ان ممالک سے کم ہی رہی جنہوں نے سخت لاک ڈاون کرکے اپنی معیشت کا بھٹا بٹھایا جس سے سب سے زیادہ متاثر غریب متوسط، چھوٹے کاروباری اور محنت کش طبقات ہوئے۔ مین اسٹریم میڈیا پر ان سب موضوعات پر نہ ہونے کے برابر بات ہورہی ہے۔ پاکستان میں راقم نے نہیں سنا کہ کوئی دستاویزی رپورٹ اس بات پر بنائی گئی ہو کہ لاک ڈاون میں غریب مزدور اور محنت کش کا کیا حال ہے۔ اس کی گزر بسر کیسے ہورہی ہے۔ نہ کوئی ایسی سروے رپورٹ بنائی اور سنائی گئی کہ کورونا کے خوف اور لاک ڈاون کی مشکلات سے کینسر، دل اور گردے کے مریضوں کے علاج کا کیا ہوا۔ ڈیپریشن، دماغی اسٹروک، گھریلو تشدد، خود کشیوں کے کیا حالات رہے۔ جبکہ سات ارب لوگوں کے لیے ویکسین کی تلاش اور ان کو ’’ٹیکا‘‘ لگانے کی بات شدومد سے ہورہی ہے جو اپنی جگہ خود ایک پنڈورا باکس ہے۔ نیلسن (Neilsen) ادارے کے مطابق ادویات اور ویکسین کی کمپنیاں چھ ارب ڈالر سے زیادہ امریکی میڈیا اور اخبارات پر خرچ کرتی ہیں۔ اس سے یہی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہی کمپنیاں اور ان کے ساتھ دوسری این جی اوز، بل گیٹس فائونڈیشن وغیرہ پاکستانی میڈیا پر بھی غیر اعلانیہ اپنی مارکیٹنگ بجٹ میں سے خطیر رقم خرچ کرتے ہوںگے تاکہ ایک خاص بیانیے کا فروغ ہو۔ ویکسین کی تاریخ، اس کی منظوری کا طریقہ کار، اس کے محفوظ ہونے کی گارنٹی اور تنازعات پر بات ان شاء اللہ اگلے مضمون میں ہوگی۔ فی الحال جاتے جاتے ایک اور چبھتا ہوا سوال سنتے جائیے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ کسی بھی علاج یا دوا کے استعمال کی خبریں آنے پر ڈبلیو ایچ اور عالمی میڈیا اور حتی کہ سماجی رابطوں کے بڑے بڑے آن لائن اداروں کی مینجمنٹ پریشان ہوجاتی ہے اور مل جل کر اس کی حوصلہ شکنی کرتی ہیں۔ جبکہ امریکی صدر ٹرمپ (hydroxychloroquine) کا نام بار بار لیتے رہے بلکہ ایک پریس کانفرنس میں انہوں نے خود اسے استعمال کرنے کی خبر دی۔ امریکی صحت کے ادارے این آئی ایچ اور دوسرے اداروں نے اب اس دوا کی کامیابی کے واضح امکانات کو دیکھتے ہوئے اس پر مزید کام شروع کردیا ہے۔ ایسے کئی حقائق پر مبنی سوالات ہیں جس پر دنیا کا نوے فی صد میڈیا مجرمانہ حد تک خاموش ہے۔ اور سوشل میڈیا کے بڑے بڑے پلیٹ فارم جیسے یوٹیوب اور فیس بک بھی ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں، ہمارے ارباب اختیار کو عقل سلیم اور حکمت کے موتی عطا کرے جس سے وہ دنیا اور آخرت میں کامیابی کے فیصلے کر سکیں۔