کورونا کا انجام کیا ہوگا؟

466

جاوید الرحمن ترابی
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ گزشتہ سال دسمبر سے چین کے شہر ووہان سے شروع ہونے والے کورونا وائرس نے پھیلتے پھیلتے پوری دنیا کی معیشتوں کو جکڑ لیا ہے جبکہ اس وائرس سے اب تک دنیا بھر میں ساڑھے تین لاکھ کے قریب ہلاکتیں ہوئی ہیں اور متاثرین کی تعداد پچاس لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ پاکستان میں بھی اس وقت کورونا وائرس کا پھیلائو سنگین صورتحال اختیار کرچکا ہے اور اب تک 47 ہزار سے زائد لوگ اس وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جبکہ اموات بھی ایک ہزار سے تجاوز کرچکی ہیں اگرچہ دوسرے ممالک بالخصوص مغربی دنیا کے مقابلے میں پاکستان میں کورونا متاثرین اور اس سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد انتہائی کم ہے تاہم اس وبا کا پھیلائو روکنے اور اس کے سدباب کے لیے ہمیں بہرصورت وہ تمام احتیاطی اقدامات اٹھانا ہیں جو عالمی ادارہ صحت کے متعین کردہ پیرامیٹرز کے مطابق دوسرے ممالک میں اختیار کیے گئے۔ یہ حقیقت تو اب کھل کر سامنے آچکی ہے کہ کورونا وائرس کی آزمائش کسی ایک دن‘ ماہ یا سال کی نہیں بلکہ یہ دیگر موذی امراض کی طرح ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکی ہے چنانچہ ہمیں اسی تناظر میں اس وبا کے ساتھ رہ کر زندگی گزارنے کا چلن اختیار کرنا ہے۔ اس صورتحال میں مضبوط معیشتوں والے امیر اور ترقی یافتہ ممالک بھی کاروبار زندگی مستقل طور پر بند کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے اور جب تک کورونا وائرس کا موثر علاج تیار نہیں ہو جاتا‘ اس وقت تک بہرصورت احتیاطی اقدامات کے ساتھ معمولات زندگی کو جاری رکھنا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان نے تو شروع دن ہی سے ملک کی اقتصادی اور مالی صورتحال اور محدود قومی وسائل کی بنیاد پر کرفیو جیسے لاک ڈائون کی پالیسی اختیار کرنے سے گریز کیا تھا کیونکہ انہیں اس حقیقت کا مکمل ادراک تھا کہ کاروبار زندگی بند ہوا تو لوگ کورونا سے بچتے بچتے غربت اور فاقہ کشی سے مارے جائیں گے۔ ملک میں مجبوراً جزوی لاک ڈائون ضرور کرنا پڑا مگر اس کے نتیجہ میں بھی لاکھوں ملازم پیشہ اور دہاڑی دار افراد ملیں‘ فیکٹریاں‘ مارکیٹیں بند ہونے سے بے روزگار ہوگئے اور عملاً فاقہ کشی کا شکار ہونے لگے۔
حکومت نے وزیراعظم کی ہدایت پر کورونا متاثرہ خاندانوں کی بحالی اور بے روزگاروں کی امداد کے لیے مختلف ریلیف پیکیجز کا اجراء کیا جبکہ فوج نے بھی آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی قیادت میں حکومت کے ساتھ یکجہت ہو کر متاثرین کی امداد اور بحالی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے باجود ہماری معیشت اتنی مستحکم نہیں تھی کہ تادیر امدادی سرگرمیاں جاری رکھی جا سکیں۔ وزیراعظم نے بالخصوص مضبوط معیشتوں والے ترقی یافتہ ممالک کی قیادتوں سے کورونا سے متاثرہ غریب ممالک کی امداد اور عالمی مالیاتی اداروں سے ان کے قرضوں میں ریلیف فراہم کرنے کی اپیل کی جس کا عالمی برادری کی جانب سے مثبت ردعمل بھی سامنے آیا تاہم کاروباری سرگرمیاں بحال کیے بغیر ہماری معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنا انتہائی دشوار تھا جبکہ جزوی لاک ڈائون سے حکومتی ٹھوس پالیسی کے معاملہ میں بھی گومگو کی کیفیت پیدا ہوگئی تھی جس کا چیف جسٹس گلزار احمد نے اپنے ازخود اختیارات کے تحت نوٹس لیا اور وفاق اور صوبوں میں یکساں پالیسی لاگو کرنے پر زور دیا۔ اسی بنیاد پر وفاقی حکومت نے لاک ڈائون میں نرمی اور بعض شعبوں میں کاروباری سرگرمیاں بحال کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ لوگوں کو غربت اور فاقہ کشی سے بچایا جاسکے۔ اب عدالت عظمیٰ نے صوبوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ کورونا کے حوالے سے وفاق کے فیصلوں پر عملدرآمد کریں جبکہ عدالت عظمیٰ کی ہدایات کی روشنی میں ملک بھر میں تمام کاروباری سرگرمیاں بحال کردی گئی ہیں۔ ٹرانسپورٹ اور ٹرینیں بھی چل پڑی ہیں اور پنجاب میں بزرگان دین کے مزارات بھی کھولنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس صورتحال میں متعینہ احتیاطی اقدامات کی پابندی کرنا اور بھی ضروری ہو گیا ہے بصورت دیگر ہمارے ملک میں بھی کورونا زیادہ تیزی کے ساتھ پھیل سکتا ہے۔ حکومت اور عسکری قیادتوں نے باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ احتیاطی اقدامات پر عملدرآمد کی ٹھوس پالیسی بہرحال طے کرلی ہے جو سختی سے لاگو کی جائیگی تو ہمیں کورونا کے ساتھ رہ کر کاروباری زندگی جاری رکھنے کا ڈھنگ بھی آجائے گا۔ زندہ قوموں نے آزمائش کے ایسے مراحل میں ہی بھرپور طریقے سے جینے کا چلن اختیار کرنا ہوتا ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ ہم اجتماعی بصیرت کے ساتھ اس چیلنج میں سرخرو ہوںگے اور کورونا وائرس کے ساتھ ہمارے معمولات زندگی بھی چلتے رہیں گے۔