خطرے کی گھنٹی بج چکی

628

شہلا خضر
زندگی نام ہے ہر پل تغیر اور تبدیلی کا۔ چشم زدن میں دیکھتے ہی دیکھتے ہم دن، کو رات میں۔۔ بہار کو خزاں میں، جوانی کو بڑھاپے میں اور زندگی کو موت میں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ یہ تغیر اور تبدیلی قانون فطرت کے عین مطابق اور انسانی حیات کے لیے نہایت ناگزیر ہے۔
انسانی سرشت میں تحیر اور تجسس کا مادہ تخلیق آدم ہی سے پروان چڑھتا رہا ہے۔ اسی تجسس کی بدولت وہ اپنے ’’دائمی مسکن یعنی جنت‘‘ سے ’’عارضی ٹھکانے یعنی دنیا‘‘ کی طرف اُتارا گیا۔ اور آج اسی کی بدولت ہم اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ خوبصورت، منظم اور مربوط دنیا کو تباہی کے دہانے تک پہنچا چکے ہیں۔ اسی جذبے کی تسکین کے لیے وہ کائنات کی کھوج اور تسخیر میں گم ہو گیا یہاں تک کہ چاند اور مریخ تک جا پہنچا، اور انگنت کہکشائوں کا ہم نشین ہوا۔ سمندروں کی گہرائی جاننے کا رسیا ہوا تو ہزاروں میٹر کی گہرائی میں پائی جانے والی نایاب سمندری مخلوقات دریافت کر ڈالیں۔ زمین کی گہرائی ناپنے کا تجسس اسے دنیا کے قطر کے بیچوں بیچ کئی کلومیٹر کی گہرائی میں موجود ایک ہزار ڈگری سینٹی گریڈ حدت کے گرم سیال (magma) تک لے گیا۔ تحیر اور تجسس کا جادو جب سر چڑھ کے بولا تو سائنسی ترقی کے کئی میدان مار لیے۔۔۔ بے شمار برقی گیجٹس، مشینی آلات، فیکٹریاں اور کارخانے بنا ڈالے۔ اسی سائنسی ٹیکنالوجی کے خمار میں وہ انگنت دولت و شہرت کے لالچ اور حوس کے سمندر میں میں ڈوبتا ہی چلا گیا۔
مال و دولت کی ریل پیل، مادی آسائشیں، حسین طرز زندگی اور نت نئے مشاغل نے ایسا دیوانہ بنا دیا کہ ایک بار جو یہ چلا تو پھر اس نے ایک پل بھی ٹھیر کے یہ سوچنے کی زحمت گوارہ نہ کی کہ آخر کار اس اندھا دھند دوڈ کا انجام کیا ہو گا۔
آج انسان تباہی کے اس دہانے تک جا پہنچا ہے جہاں سے پلٹنا اب اس کے لیے تقریباً نا ممکن ہے۔ اور ٹھیرنا محال ہے۔ فضا میں زہریلی گیسوں اور مضر صحت دھوئیں کے مرغولے بکھیرتی فیکٹریاں اور گاڑیوں کا ازدحام، اور استعمال شدہ کچرے کے پہاڑ ان سب، کے نیچے قدرتی انسانی حیات دب کر رہ گئی ہے۔ خود غرض انسان نے اپنی ذات کے لیے پر آسائش تعمیرات کی خاطر بڑے بڑے جنگلات کاٹ ڈالے۔ پہاڑوں کو کاٹ کر اپنی تجارت، سیاحت اور آمد ورفت کے لیے راستے نکالے اور ایک لمحے کو بھی نہ سوچا کہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو متوازن کرنے کے لیے جن پہاڑوں کو کھڑا کیا ہے انہیں توڑ ڈالنے کے نتیجے میں خطرناک لینڈ سلائیڈنگ، زلزلوں، سیلاب اور جنگلات کی ہولناک آتشزدگی کی صورت میں بھگتنا پڑے گا۔ سمندروں میں پھینکے جانے والے صنعتی فضلے، پلاسٹک اور کچرے کی بدولت ہر سال سیکڑوں آبی حیات جان سے جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے گرد موجود قدرتی حفاظتی حصار ’’اوزون لیئر‘‘ (oozone layer) جس کا کام ہماری دنیا کو سورج کی مضر تابکاری لہروں اور غیر ضروری حدت سے بچانا ہے اسے ہم اپنی انہی کوتاہیوں کے نتیجے میں کھوتے جا رہے ہیں۔ اوزون کی قدرتی ڈھال میں شگاف پڑ چکے ہیں اور سورج کی مضر صحت تابکاری کی بدولت زمین کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے ’’جس کی بدولت ہیٹ ویوز‘‘ (heat weaves) کی تکلیف دہ پریشانی ہمارے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔ اسی بڑھتے درجۂ حرارت کی وجہ سے ہزاروں سال سے منجمد گلیشیرز بھی غیر محسوس رفتار سے پگھلتے اور پھیلتے جا رہے ہیں جس کے نتائج ہم بدترین سیلابی تباہیوں کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔
لامحدود خوشیوں اور آسائشوں کے حصول میں نہ صرف انسان اپنی زمین، اس کی آب وہوا اور اس پر بسنے والے جانداروں کی تباہی اور بربادی کا ذمے دار بنا بلکہ خود اپنی صحت کی بربادی کی صورت میں اسے اس ترقی کی بھاری قیمت چکانی پڑی۔ آج کا انسان انگنت بیماریوں میں چاروں طرف سے گھرچکا ہے۔ ہر دوسرا شخص شوگر، بلڈ پریشر، جگر اور گردوں کی بیماریاں، کئی اقسام کے کینسرز میں مبتلا دکھائی دیتا ہے۔ مصنوعی طرز حیات، مصنوعی اشیائے خورونوش، کولا مشروبات، شراب نوشی یہ سب انسانی صحت کے بگاڑ کا سبب ہیں۔
مادی آسائشوں کی اس دوڈ میں ہم انسانی رشتوں اور جذبات کی قدر و قیمت کو کہیں بہت پیچھے چھوڑ آئے ہیں۔ بظاہر تو انسان نے بہت کچھ حاصل کیا مگر دراصل حقیقی خوشی اور حقیقی سکون اس سے روٹھ گیا، آج اعصابی اور ذہنی امراض میں غیر معمولی اضافہ انہیں نا آسودگیوں اور معاشرتی دوریوں کا شاخسانہ ہے۔ ہر شخص اپنی ذاتی خواہشات کا اسیر ہے۔ مادی ترقی کی دوڈ کی کوئی آخری حد اور نہ کوئی انتہائی ہے۔
اس غیر فطری طرزمعاشرت کی مرہون منت مختلف قسم کی نشہ آور اشیاء، اور منشیات کے استعمال کے رجحان میں پریشان کن حد تک اضافہ دیکھا گیا ہے۔ موجودہ صدی کا سب سے مہلک جرثومہ جسے ’’کوویڈ19‘‘ کا نام دیا گیا ہے وہ بھی انسان کی اسی حرص و حوس کی بدولت نمودار ہوا ہے۔ ہزاروں افراد لقمۂ اجل بن چکے ہیں اور لاکھوں اسپتالوں میں بے بس پڑے ہیں۔
حال ہی میں ایک مشہور برطانوی چینل پر انٹرویو دیتے ہوئے ایک سائنسدان نے انکشاف کیا کہ دنیا کے بڑے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کی بدولت ’’کوویڈ19‘‘ کا جرثومہ نمودار ہوا ہے، اور اگر جنگلات کی کٹائی کو روکا نہیں گیا تو مستقبل قریب میں اس سے بھی زیادہ خطرناک جرثوموں کے حملے کے لیے ہمیں تیار رہنا ہوگا۔ خطرے کی گھنٹی بج چکی ہے، اب بھی اگر انسان اپنی من مانیوں پر ڈٹا رہا تو پھر دنیا کو ہولناک تباہی اور بربادی سے بچانا ناممکن ہے…
اگر کائنات پر غور کریں تو ہمیں دکھتا ہے کہ چاہے جاندار ہو یا کہ بے جان سبھی اپنے خالق کے مقررہ نظام کے مطابق چل رہے ہیں تمام کائنات خالق کی تابع فرمان ہے انسان ہی وہ واحد مخلوق ہے جس نے اپنے تجسس اور تحیّر کی تسکین کے لیے اپنے تمام نظام حیات کو بدل کے رکھ دیا ہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک نہایت خوبصورت اور بہترین نظام قدرت کی حامل دنیا عطا کی تھی، جسے ہم نے مادی ترقی اور طاقت اور اقتدار کے شوق میں بگاڑ کے رکھ دیا ہے۔ اب بھی وقت ہے اگر تمام انسانیت آپس کی دشمنیاں، مادہ پرستی اور احساس برتری کو پس پشت ڈال کر باہمی بقائے انسانی اور خیر خواہی کے جذبے کے تحت سر جوڑ کر بیٹھیں اور قدرتی نظام کو درپیش مسائل کا حل ڈھونڈنے کی ایماندانہ کوشش کریں تو شاید ہم دنیا کو اس بھیانک انجام سے بچا پائیں جس کی جانب ہم تیزی سے بڑھ رہے ہیں، مصنوعی اورغیر ضروری اشیاء کے استعمال کو ترک کر کے قدرتی وسائل پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنا ہوگا، کارپوریٹ کلچر کی مطلق العنانیت کو اب لگام لگانی ہوگی، طرز زندگی کو آسان، سادہ اور فطرت کے عین مطابق کرنا ہوگا، کیونکہ قدرت کی طرف لوٹنا ہی اس مسئلے کا واحد اور مستقل حل ہے۔