قاضی جاوید
چین نے پوری دنیا میں سی پیک کا پہلا مرحلہ مکمل کرلیا یہ مرحلہ کاغذی تھا اور اب اس نے دوسرے مرحلے کی جانب پیشقدمی کا آغاز کردیا ہے۔ دوسرے مرحلے میں چین کی یہ کوشش ہے کہ وہ تمام ممالک جو سی پیک میں شامل ہیں وہ اپنے ملک کی حکومتوں میں ایک ایسا ماڈل تیار کریں جو چین کے نظام حکومت سے ملتا جلتا ہو۔ یہ بات بہت سارے سی پیک معاہدوں میں شامل نہیں ہے لیکن درپردہ پاکستان بھی شاید چین کے ساتھ کوئی ایسا معاہدہ کرچکا ہے جس میں وہ اپنے ملک کے دستور میں کچھ نہ کچھ ترمیم کرے گا چین نے دنیا کے مختلف ملکوں کے دستور میں تبدیلی کے لیے ایک نمونہ 27مئی 2020ء کو ہانگ کانگ میں پیش کردیا ہے۔ ہانگ کانگ میں چین کے خلاف گزشتہ ایک ماہ سے بھرپور مظاہرے جاری تھے۔ اس سلسلے میں چین کا کہنا تھا کہ امریکن سی آئی اے کے اہلکار ان مظاہروں کو ترتیب دیتے رہے ہیں۔
بہت دن برداشت کرنے کے بعد چینی حکومت نے ہانگ کانگ میں موجود انتظامیہ سے ایک بل بنوانے میں کامیاب ہوا۔ چین نے اس بل میں یہ شق شامل کرائی ہے کہ ہانگ کانگ سمیت اردگرد کے تمام ممالک میں جہاں بھی چین کے خلاف مظاہرہ کیا گیا تو اسے چین کے خلاف غداری سمجھا جائے گا۔ جس کی ابتدائی سزا تو 3سال کی قید ہوگی لیکن بعد میں ایسا کرنے والوں کے خلاف سزائے موت کے احکامات بھی جاری کیے جاسکتے ہیں۔ اس کے بعد پاکستان میں بھی قوانین میں تبدیلی کی باتیں زور و شور سے جاری ہیں۔ پاکستان سی پیک میں شامل ہے جس تحت وہ اپنے ملک کے دستور میں کچھ ضروری ترمیم کرنے کا پابندہے جس کا ذکر نواز شریف بھی کر تے رہے ہیں؟جمعہ کے دن وزیراعظم پاکستان نے ایک مرتبہ پھر یہ کہا ہے کہ پاکستان کے قوانین میں ترقی کے لیے مزید ترمیم کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں ایک کمیٹی بھی قائم کردی گئی۔ پاکستان میں بھی قوانین میں تبدیلی کی باتیں زور و شور سے جاری ہیں۔قبل ازیں عمران حکومت 18ویں ترمیم ختم کر نے کی باتیں کرتی رہی ہییہ سب کچھ ابھی کھل کر تو سامنے نہیں آرہا ہے کہ کن قوانین میں تبدیلی کی جائے گی لیکن چینی حکومت کا شاید یہ مطالبہ سی پیک کے تمام ارکان سے ہے کہ وہ اپنے قوانین کو ایسا بنائے جس کے بعد دستور میں سی پیک کے معاشی پھیلائوں میں رکاوٹوں کا خاتمہ کیا جاسکے۔ یہ اور اس جیسے قوانین سے یہ بات شاید واضح ہورہی ہے
پاکستان کے دستور کے بنیادی نظریے میں بھی شاید چھیڑ چھاڑ کی جائے۔ یہ روز اول کی طرح عیاں ہے کہ چین ایک خاص نظریاتی ملک ہے اور اس کے نظریات دنیا کے تمام مذہبی نظریات سے کسی نہ کسی طور پر ٹکراتے ہیں۔ اس سلسلے میں اس بات کا ذکر کیا جانا ضروری ہے کہ چین میں مسلمانوں کے ساتھ ایک طویل عرصے سے جو سختیاں کی جارہی ہیں وہ بھی اسی نظریے کی مرہوم منت ہیں۔
بھارت نے چین پر گرفت کی مظبوطی کے لیے دو نئے محاذ کھولنے کی کوشش میں ناکام ہوگیا 5مئی 2020ء کو چینی علاقے “اقصائے چن ــــــــ” اور 10 مئی کونیپالی سرحدے علاقے پر قبضے کی کوشش میں نا کا م ہو ا،چین نے بھارتی حملے کا سختی سے نوٹس لیتے ہو ئے فوری طور پر بھارتی مقبوضہ علاقے “لدحـ”کے مشرقی علاقے سوئن پر اپنے جنگی جہازوں سے حملہ کیا اور بھارت کے جنگی جنون کو خاک میں ملا دیا ۔اور اب بھارت کا اس علاقے پر چین کی مکمل گرفت ہے اس دوران بھارت نے سوئن کے محاذ پر بھارت کی 25ہزار فوج موجود تھی
موجودہ حالات میں چین نے امریکا کو پورے خطے سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا ہے۔ لداخ پر چین کے قبضے نے ایک نئی صورت حال پیدا کردی ہے۔ ہماری اطلاعات کے مطابق لداخ میں چین نے ایک ایئرپورٹ کی تیاری کا کام شروع کردیا ہے اور لداخ کے 35 کلومیٹر کے علاقے کو اپنے قبضے میں کرلیا ہے۔ چین کی مزید پیش رفت لداخ میں جاری ہے۔ لداخ بھی کشمیر کی طرح برطانیہ راج سے قبل ایک آزاد اور خود مختار ریاست تھی۔ اس کا اپنا نظام تھا لیکن برطانوی راج نے کشمیر کے ساتھ ساتھ لداخ کو بھی ظالم راجوں کے حوالے کردیا۔ اور قیام پاکستان کے بعد ہندوستان مقبوضہ کشمیر کے ساتھ ساتھ لداخ پر بھی قابض ہوگیا۔ 5اگست 2019ء کو بھارت نے کشمیر کی علیحدہ حیثیت ختم کرنے کے لیے جو قانون بنایا اسی قانون کو اس نے لداخ پر بھی نافذ کردیا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان لداخ ایک ایسا ہی متنازع علاقہ ہے جیسا بھارت اور پاکستان کے درمیان مقبوضہ کشمیر متنازع ہے۔ اس کے علاوہ بھارت نے لداخ کے لیے ایک گورنر جنرل جو دہلی میں رہتا ہے انتظامیہ کے لیے چن لیا اور وہ دہلی سے بیٹھ کر لداخ کے انتظامی امور کو چلاتا ہے۔ پچھلے سال کے آخر میں بھارت نے چین کی مداخلت کو روکنے کے لیے شیوک سے دولت پور تک ایک روڈ کی تعمیر مکمل کی۔ اس روڈ کی تعمیر کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد تھا کہ اس کو چین کے خلاف عسکری مداخلت کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ بات یہاں بتانا ضروری ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان تین ہزار پانچ سو کلو میٹر کی ایل او سی ہے اور یہ دنیا کی ایک نایاب ایل او سی ہے جس میں دنیا کے طویل ترین پہاڑ، کھائی، دریا اور نہریں موجود ہیں۔ اسی وجہ سے منگولوں اور دیگر چینی حملہ آوروں نے کبھی بھی بھارت کا رخ نہیں کیالیکن اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ چین کا ایک ہیلی کاپٹر AR-500Cپرواز کرتا ہوا لداخ اور تبت کی فضائوں میں آزادی کے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں۔ اس ہیلی کاپٹر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ ڈرون کی تمام خصوصیات سے مزین ہے اور اس میں کوئی پائلٹ موجود نہیں۔ اس ہیلی کاپٹر میں 5G ٹیکنالوجی بھی موجود ہے جو لداخ اور ایل او سی پاکستان اور چین کے درمیان موجود بھارتی فوجیوں کی تمام گفتگو ریکارڈ کررہا ہے۔
اُدھر دوسری جانب بھارت نے کیلاش پہاڑوں پر ہندو پوجاکر نے والوں کے لیے نیپالی سرحدوں کے اند ر سے سڑک تعمیر کرنی شروع کر دی تاکہ بھارتی فوج اس سے چین کی سر حد تک آسانی سے پہنچ سکے جس کے بعد نیپالی حکومت بھی بھارت کو آنکھیں دکھا رہی ہے، یہاں بھارت نے ایک روڈ کا تنازعہ کھڑا کیااس سلسلے میں معلوم ہوا ہے کہ بھارت چند دنوں میں نیپال میں مارشل لاء لگانے کا پروگرام بنا رہا ہے اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بھارت کا آرمی چیف نیپال کا اعزازی آرمی چیف بھی ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں یہ بھی معلوم کر نا چاہیے کہ ۔عظیم نیپال ایک نوزائدہ تصور ہے جس میں نیپال سے متعلق تمام علاقہ کو شامل کیا جاتا ہے۔ جنگ عظیم اول کے بعد نیپال میں بھارت کے وہ علاقے بھی شامل ہیںجنہیں گورکھا راجاوں نے وہاں کے حکمرانوں کو شکست دے کر جیت لیا تھا مگر برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے انہیں شکست دی اور سوگالی معاہدہ کے تحت ان علاقوں کو واپس بھارت میں شامل کر دیا گیا تھا۔ عظیم نیپال میں تبت کے وہ علاقے شامل نہیں ہیں جنہیں گورکھا راجاوں نے فتح ۔گورکھا نے 1789ء تا 1791ء کی جنگ میں وہ علاقے کحو دیے اور 1792ء چین نیپال جنگ میں چینی فوج نے گورکھا کو شکست دے دی۔ 1813ء میں تاریخی عظیم نیپال کو ستلج سے دریائے تیستا تک 1500 کلو میٹر تک وسیع کر دیا گیا تھا۔حالانکہ اس وسعت پر حکمرانی بہت مختصرتھی اور 1814-1815ء ایسٹ انڈیا کمپنی کے جنگ کے بعد وہ علاقے بھی واپس چھین لیے گئے۔ گرھوال میں گورکھا کی موجودگی محض دس برسوں کے لیے تھی، کوماوں میں 25 برس اور سکم میں 33 برس تک انہوں نے راج کیا۔ 1816ء میں گورکھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان میں سوگالی معاہدہ پر دستخط ہوئے جس کے نتیجہ میں حکومت نیپال کو 105,000 مربع کلو میٹر کے رقبہ سے ہاتھ دھونا پڑا اور اب نیپال کا کل رقبہ محض 147,18 مربع کلو میٹر ہے۔
چین کی طرح امریکا بھی ایک بڑے ملک بنتا ہے اور بھارت کا بہت بڑا اتحادی ہے۔بھارت کی 3500کلو سرحد یں اس وقت خطرناک صورتحال سے دو چار ہیں لیکن امریکا چین سے بات چیت کی باتیں کر رہا ہے
عظیم نیپال
۔عظیم نیپال ایک نوزائدہ تصور ہے جس میں نیپال سے متعلق تمام علاقہ کو شامل کیا جاتا ہے۔عظیم اول کے بعد نیپال میں بھارت کے وہ علاقے بھی شامل ہیںجنہیں گورکھا راجاوں نے وہاں کے حکمرانوں کو شکست دے کر جیت لیا تھا مگر برطانوی ایسٹ انڈیا کمپنی نے انہیں شکست دی اور سوگالی معاہدہ کے تحت ان علاقوں کو واپس بھارت میں شامل کر دیا گیا تھا۔ عظیم نیپال میں تبت کے وہ علاقے شامل نہیں ہیں جنہیں گورکھا راجاوں نے فتح ۔ گورکھا نے 1789ء تا 1791ء کی جنگ میں وہ علاقے کحو دیے اور 1792ء چین نیپال جنگ میں چینی فوج نے گورکھا کو شکست دے دی۔ 1813ء میں تاریخی عظیم نیپال کو ستلج سے دریائے تیستا تک 1500 کلو میٹر تک وسیع کر دیا گیا تھا۔ حالانکہ اس وسعت پر حکمرانی بہت مختصرتھی اور 1814-1815ء ایسٹ انڈیا کمپنی کے جنگ کے بعد وہ علاقے بھی واپس چھین لیے گئے۔ گرھوال میں گورکھا کی موجودگی محض دس برسوں کے لیے تھی، کوماوں میں 25 برس اور سکم میں 33 برس تک انہوں نے راج کیا۔ 1816ء میں گورکھا اور ایسٹ انڈیا کمپنی کے درمیان میں سوگالی معاہدہ پر دستخط ہوئے جس کے نتیجہ میں حکومت نیپال کو 105,000 مربع کلو میٹر کے رقبہ سے ہاتھ دھونا پڑا اور اب نیپال کا کل رقبہ محض 147,18 مربع کلو میٹر ہے۔
بھارت نے چین کی مداخلت کو روکنے کے لیے شیوک سے دولت پور تک ایک روڈ کی تعمیر مکمل کی۔ اس روڈ کی تعمیر کا صرف اور صرف ایک ہی مقصد تھا کہ اس کو چین کے خلاف عسکری مداخلت کے لیے استعمال کیا جائے۔ یہ بات یہاں بتانا ضروری ہے کہ چین اور بھارت کے درمیان تین ہزار پانچ سو کلو میٹر کی ایل او سی ہے اور یہ دنیا کی ایک نایاب ایل او سی ہے جس میں دنیا کے طویل ترین پہاڑ، کھائی، دریا اور نہریں موجود ہیں۔ اسی وجہ سے منگولوں اور دیگر چینی حملہ آوروں نے کبھی بھی بھارت کا رخ نہیں کیالیکن اب حالات تبدیل ہوچکے ہیں۔ چین کا ایک ہیلی کاپٹر AR-500Cپرواز کرتا ہوا لداخ اور تبت کی فضائوں میں آزادی کے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں۔ اس ہیلی کاپٹر کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ یہ ڈرون کی تمام خصوصیات سے مزین ہے اور اس میں کوئی پائلٹ موجود نہیں۔ اس ہیلی کاپٹر میں 5G ٹیکنالوجی بھی موجود ہے جو لداخ اور ایل او سی پاکستان اور چین کے درمیان موجود بھارتی فوجیوں کی تمام گفتگو ریکارڈ کررہا ہے۔
چین کا ایک ہیلی کاپٹر AR-500Cپرواز کرتا ہوا لداخ اور تبت کی فضائوں میں آزادی کے ساتھ گھوم پھر رہے ہیں