کوئٹہ( نمائندہ جسارت) بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں پولیس حکام کے مطابق سیکڑوں افراد پر مشتمل ہجوم نے خواتین کو ہراساں کرنے کے الزام میں بہیمانہ تشدد کرکے ایک نوجوان کو ہلاک اور 2 کو شدید زخمی کردیا ۔پولیس نے 2 گھنٹے کی کوششوں کے بعد زخمیوں کوریسکیو کرکے اسپتال منتقل کردیا۔واقعے میں بچ جانے والے شخص نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ لین دین کے تنازع کو خواتین کو ہراساں کرنے کا غلط رنگ دیا گیا، پولیس نے 12 افراد کو گرفتار کرلیا۔ بروری تھانہ کے ایس ایچ او عزت اللہ نے بتایا کہ واقعہ جمعے کی شب 8 بجے ہزارہ ٹاو¿ن میں علی آباد کے مقام پر پیش آیا جہاں لوگوں نے پشتون باغ کے رہائشی علاقے سے آنے والے 3 نوجوانوں کو خواتین کی وڈیو بنانے کے الزام میں پکڑکر بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، 300 سے 400 افراد پر مشتمل ہجوم نے تینوں نوجوانوں کوحجام کی دکان میں لے جاکر ان کے کپڑے اتارے اور انتہائی بے دردی سے مارتے رہے،ہجوم کے پتھراو¿ سے ڈی ایس پی اور ایس ایچ او معمولی زخمی ہوئے۔ پولیس کے مطابق 2 گھنٹے کی کوششوں کے بعد 2 نوجوانوں کریم اور نیاز احمدکو شدید زخمی حالت میں ریسکیو کیا گیا جبکہ 23 سالہ تیسرے نوجوان بلال احمد نورزئی کی موت ہوگئی تھی۔ لاش اور زخمیوں کو بولان میڈیکل اسپتال پہنچایا گیا۔ ڈاکٹر کے مطابق زخمیوں کو سر اور پورے جسم پر لاٹھیوں، ڈنڈوں، چاقو کے وار کے نتیجے میں گہرے زخم لگے ہیں اور ان کی حالت تشویشناک ہے جنہیں سول اسپتال منتقل کردیا گیا۔ کشیدگی کے باعث پولیس نے ہزارہ اکثریتی علاقوں میں سیکورٹی سخت کر دی۔سوشل میڈیا پر لاش اور زخمیوں کی برہنہ تصاویر شیئر ہونے پر بھی لوگوں نے غم و غصے کا اظہار کیا۔ مقتول کے لواحقین اور پشتون باغ کے رہائشیوں نے لاش کے ساتھ وزیراعلیٰ ہاو¿س کے قریب زرغون روڈ پر دھرنا دیا اور ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔ احتجاج میں شریک پشتون باغ کے رہائشی ولی محمد ترابی نے بتایا کہ پولیس کی موجودگی میں نوجوانوں پر بدترین تشدد کیا گیا، ان کے جسم دیکھنے کے قابل نہیں۔ لاش کی بھی بے حرمتی کی گئی، پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ تک نہیں کی۔ ڈی ایس پی اور ایس ایچ او نے ملزمان کو جانے دیا۔ انہوں نے کہا کہ حمام میں بیٹھے نوجوانوں کا پہلے حجام کی دکان کے مالک سے جھگڑا ہوا تھا اس بات کی تحقیقات ہونی چاہییں۔ صوبائی وزرا اور ڈپٹی کمشنر کوئٹہ پر مشتمل حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ مذاکرات کے بعد مظاہرین منتشر ہوگئے جس کے بعد مقتول کو پشتون باغ میں سپرد خاک کر دیا گیا۔ واقعے میں زخمی نیاز محمد بادیزئی نے ہفتے کو پولیس کو اپنا بیان ریکارڈ کرایا کہ کچھ عرصے قبل انہوں نے حجام کی دکان کے مالک جواد کو گاڑی 4 لاکھ 20 ہزار روپے میں فروخت کی تھی، وہ جمعہ کو 2 دوستوں کے ساتھ پیسے مانگنے دکان پر گئے تو جواد نے پیسے دینے کے بجائے اس بات پر بلیک میل کرنا شروع کردیا کہ آپ نے لڑکیوں کی وڈیو کیوں بنائی اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ تشدد کا نشانہ بنایا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مرکزی ملزم جواد سمیت 12 افراد کو چھاپے مار کر گرفتار کرکے ان کے خلاف تھانہ بروری میں انسداد دہشت گردی ایکٹ ، قتل، اقدام قتل سمیت دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔ مقدمے میں حمام مالک کو بھی نامزد کیا± گیا ہے تاہم اسے اب تک گرفتار نہیں کیا جا سکا۔ فوٹیجز کی مدد سے باقی ملزمان کی شناخت کی جارہی ہے۔ وزیراعلیٰ جام کمال اور صوبائی وزیر داخلہ میر ضیاءاللہ لانگو نے واقعے کا نوٹس لے کرمتعلقہ اداروں کو تحقیقات کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ایس ایچ او اور ڈیوٹی آفیسر سمیت 5 اہلکاروں کو غفلت برتنے پر معطل کر دیا گیا ہے۔ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی نے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ذمے داروں کو قانون کے کٹہرے میں لاکر قرار واقعی سزا دی جائے۔ پارٹی ترجمان نے کہا کہ واقعے کو بنیاد بناکر بعض عناصر قومی اور مذہبی منافرت پھیلانے کی کوشش کررہے ہیں ، اشتعال انگیزی روکنے کے لیے عوام اور سیاسی و مذہبی تنظیمیں اپنا کردار ادا کریں۔