ایسا لگتا ہے کہ حکمران بھرپور ابہام کا شکار ہیں۔ وفاقی حکومت کا رخ کسی اور جانب ہے اور سندھ کی صوبائی حکومت کا کسی اور جانب۔ ایک کاروبار کھولنے کی بات کرتی ہے تو دوسری کرفیو اور سختی کی بات کرتی ہے۔ کورونا سے ہلاکتوں کی تعداد کے حوالے سے شبہات تو پہلے ہی تھے اب ایسی شکایات بہت بڑھ گئی ہیں کہ عام مریضوں کو بھی کورونا کا مریض ظاہر کر دیا جاتا ہے۔ عام مریض کو زبردستی کورونا کا مریض ظاہر کرنے سے ڈاکٹروں کو پیسے ملنے کی باتیں یقیناً غلط ہوں گی۔ لیکن کچھ چیزیں ضرور ایسی ہیں جن کا فائدہ بڑے نجی اسپتالوں، لیبارٹریز اور حکومتوں کو ہو رہا ہے۔ ان میں ٹیسٹ کی فیسیں، لوگوں سے علاج کے نام پر لاکھوں روپے کی وصولی اور دس پندرہ دن بعد میت پولیس کے ذریعے تدفین کے لیے حوالے کر دی جاتی ہے۔ اخبارات میں بھی خوف پھیلانے کا سلسلہ جاری ہے۔ اس کا فائدہ لیبارٹریز اور نجی اسپتالوں کو پہنچتا ہے۔ اگر اعداد و شمار کو پلٹ کر دیکھا جائے تو پتا چلے گا کہ صحت یاب ہونے والوں کی تعداد اتوار کے روز تک 25 ہزار 271 ہو چکی تھی۔ وبا اپنی جگہ ہے اس سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ بھی ہو رہا ہے لیکن ابہام دور کرنا حکومتوں کی ذمے داری ہے نہ کہ ٹی وی کی سنسنی خیز خبروں کی بنیاد پر لاک ڈائون کرفیو اور سخت پابندیوں کی دھمکی دے دی جائے۔ یہ رویہ بھی افسوس ناک ہے کہ حکومتیں ہر مسئلے کا حل بندش میں نکالتی ہیں۔ بم دھماکا ہو جائے تو موٹر سائیکل پر ڈبل سواری بند۔ کسی کا قتل ہو جائے تو پورا شہر بند۔ اب تو اقوام متحدہ نے لاک ڈائون کے ذریعے بندش کو عالمگیر جواز دے دیا ہے۔ بندش کی روایت ایسی ہے کہ پورے کراچی میں جگہ جگہ سڑکیں بند کر دی گئی ہیں۔ بعض سڑکوں کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بند کرکے گاڑیاں سنسان علاقوں کی طرف موڑی جاتی ہیں۔ ایک سڑک پر تو ٹائر پنکچر والے کو پولیس نے ڈیوٹی دے دی ہے کہ شام سات بجے رکاوٹیں کھڑی کرکے سڑک کو تنگ کردو۔ خود پولیس والے لاپتا ہیں۔ اب اسکول بند کرنے کی نوید بھی سنا دی گئی ہے۔ حکومت کی جانب سے احتیاطی تدابیر پر عمل نہ ہونے کی شکایت ہے لیکن احتیاطی تدابیر اختیار کرنے میں، سہولتیں دینے کے لیے حکومتیں کوئی ٹھوس کام نہیں کر رہیں۔ اس حوالے سے ریلیف کا کام کرنے میں سب سے آگے الخدمت اور جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کا بیان بھی قابل غور ہے کہ حکومت سندھ اسپتالوں میں علاج فراہم کرنے میں ناکام ہو چکی ہے۔ کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آرہی جس کے نتیجے میں ڈاکٹر بھی مشکل میں ہیں اور عام لوگ بھی۔ بار بار مختلف حلقوں سے توجہ دلائی جا رہی ہے کہ بڑے بڑے آئسولیشن سینٹرز کو باقاعدہ کورونا ریلیف اسپتال بنایا جائے۔ صرف بستروں میں اضافے کے بجائے وینٹی لیٹرز، ڈاکٹر اور طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ لیکن کوئی یہ بتانے کے لیے تیار نہیں کہ حکومت سندھ نے سیکڑوں ارب روپے سے کتنے وینٹی لیٹرز خریدے۔ ڈاکٹروں کے تحفظ کے لیے کیا اقدامات کیے۔ ڈاکٹروں کی اموات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک طرف ٹرینوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے، دوسری طرف صوبائی حکومت سندھ میں ٹرانسپورٹ کھولنے کو تیار نہیں۔ بازاروں کے بارے میں بھی طرح طرح کی افواہیں گشت کر رہی ہیں۔ غرض بے یقینی کی کیفیت ہے اور دونوں حکومتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مصروف ہیں۔ مرکزی حکومت کے مسائل زیادہ ہیں اسے شریف اور زرداری خاندان کو ٹھکانے بھی لگانا ہے اور اپنے حلیفوں کو باندھ کر بھی رکھنا ہے۔ اگر وقت صلاحیت اور توانائی بچی تو کورونا پر بھی کچھ لگا دیں گے۔ صرف بندش کے ذریعے کب تک کورونا سے مقابلہ ہو گا۔ وفاقی حکومت کو بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانیوں کے مسائل سے آگاہ کیا جا چکا لیکن اس پر وہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ انہیں نواز شریف کے ہوٹل میں بیٹھ کر کافی پینے پر تو تکلیف ہے لیکن جن لوگوں کی میتیں وطن لانے کے لیے بیرون ملک پڑی ہیں ان کا کوئی خیال نہیں۔ وزیراعظم نے تو ان پاکستانیوں سے بھی کورونا فنڈ مانگا ہے یہ پاکستانی کیا صرف اسی لیے ہیں کہ ان سے فنڈز مانگے جائیں لیکن جب وہ کسی مصیبت میں پھنس جائیں تو حکمران نظریں پھیر لیں۔ وفاقی حکومت خصوصاً سندھ کی حکومت سیاست بند کرکے عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات کریں۔ یہ کام کب تک این جی اوز کرتی رہیں گی۔ این جی اوز کے بہترین کام کے نتیجے میں حکومتوں کی نااہلی پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ ایک اور مسئلہ جسے حکومت ہی کو دیکھنا ہوگا اس نے ڈاکٹروں کو بھی فرنٹ لائن پر تو کھڑا کر دیا لیکن جب ان سے اپنا بیانیہ پیش کروایا تو ڈاکٹر ہی عوام کے سامنے بھی کھڑے ہیں۔ حکومت کی ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے لوگوں کو علاج تو مل نہیں رہا جوں ہی مریض کی موت واقع ہوتی ہے لوگ مشتعل ہو کر ڈاکٹر کو برا بھلا کہنے لگتے ہیں، تشدد کے واقعات بھی ہو گئے ہیں۔ ڈاکٹروں کو بیماری اور حملوں سے بچانا بھی حکومت کی ذمے داری ہے۔ انہیں یوں ہی چھوڑ دینا غلط ہے۔ حکومت سندھ نے ہفتے کے روز تیسری یا چوتھی مرتبہ یہ پیش گوئی کی ہے کہ اگلے دس بارہ دن میں اسپتال بھر سکتے ہیں۔ لیکن وہ اسپتالوں میں گنجائش پیدا کرنے کو تیار نہیں، صرف خوف پھیلانے پر لگے ہوئے ہیں۔