قاسم جمال
رات ساڑے دس بجے کے قریب عید کا چاند نظر آنے کے اعلان نے ایک بھونچال پیدا کردیا۔ عید کا اعلان ہوتے ہی ملک بھر میں ہٹو بچو کی کیفیت پیدا ہوگئی۔ جن لوگوں نے عید کی شاپنگ نہیں کی وہ دیوانہ وار بازاروں کی طرف دوڑے۔ بازاروں میں رش کے باعث جو حالت تھی کہ الامان الحفیظ، ایسا تھا کہ لگ رہا تھا کہ اگر کورونا قریب ہی موجود ہوا تو آج خدانخواستہ سب کو ہی لے ڈوبے گا۔ لیکن شاباش ہے پاکستان قوم کو جس نے ہمیشہ اپنی ہی چلائی اور کسی کو خاطر میں نہیں لائی۔ عید سے دو روز قبل پی آئی اے کا جہاز کریش ہوا اور اس المناک حادثے میں عید منانے کراچی آنے والے 97مسافر لقمہ اجل بن گئے۔ عید کا دن جب لوگ عید کی خوشیاں منارہے تھے لیکن ان بدنصیب لوگوں کے گھروں پر صفت ماتم بچھی ہوئی تھی۔ وزیر اعظم صاحب اقتدار میں آنے سے پہلے ڈی چوک پر چیخ چیخ کر کہتے تھے کہ اگر ملک میں ریل یا کوئی فضائی حادثہ ہوجائے تو فوری طور پر ملک کے وزیر اعظم اور اس محکمہ کے وزیر کو مستعفی ہوجا چاہیے۔ لیکن اب عمل کے وقت ان سب کو جیسے سانپ سونگھ گیا ہے۔
پی آئی اے کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر ائر مارشل ارشد ملک دو دو عہدے لیے کرسی پر برجمان ہیں اور سب اچھا ہے کا راگ لاپا جا رہا ہے۔ عید کے موقع پر 97قیمتی جانوں کے نقصان پر پورا ملک غم میں ڈوبا ہوا ہے۔ ملک میں پہلے ہی کورونا وائرس سے 1200افرادکی اموات نے ملک کو ہلا کر رکھا ہوا ہے۔ ایسے غم کی حالت میں کون عید منائے گا۔ ملک میں دو ماہ سے زائد عرصہ سے لاک ڈائون کے نتیجے میں روز کمانے اور روز کھانے والے افراد بھوک اور فاقہ کشی کا شکار ہیں اور بدقسمتی سے عید کے دن بھی ان غریب لوگوں کے گھروں پر فاقے پڑ رہے تھے۔ وزیراعظم صاحب نے لاک ڈائون کے متاثرین کے لیے بارہ ہزار روپے کی امداد کا اعلان کیا۔ اول بات یہ کہ کیا صرف بارہ ہزار روپے سے ان غریب لوگوں کے مسائل حل ہوسکتے تھے لیکن چلو کچھ نہ سہی بھاگتے چور کی لنگوٹ ہی سہی کے مصداق یہ بارہ ہزار روپے مشکل کی گھڑی میں ایک نعمت سے کم نہیں۔ لیکن شاباش ہے ان مفاد پرست اور کم ظرف لوگوں پر جنہوں نے غریبوں کے اس حق پر بھی ڈاکا مارا اور ایک ایک گھر سے پانچ پانچ افراد نے بہتی گنگا سے ہاتھ دھوئے اور مستحق افراد منہ دیکھتے رہ گئے۔ حکومت کو چاہیے غریبوں کے پیسوں پر ڈاکا ڈالنے والو کو نشان عبرت بنایا جائے اور ان سے تمام سرکاری عہدے اور مراعات واپس لی جائیں کیونکہ اس طرح کے خائن اور کرپٹ عناصر کسی بھی معاشرے کے لیے ایک ناسور سے کم نہیں ہوتے۔
یہ عید بڑی دکھی اور غم میں ڈوبی ہوئی عید تھی۔ لوگوں کی آنکھوں میں خوشی کے بجائے خون کے آنسو تھے یہ سب اپنے پیاروں کو یاد کر کے غم زدہ اور رنجیدہ تھے۔ اللہ تعالیٰ امت مسلمہ پر اپنا رحم وکرم فرمائے اور اس کی تمام خطائوں کو بھی معاف فرمائے اور اپنی رحمتوں اور برکتوں کا سایہ عطا فرمائے تاکہ آئندہ عید ہم سب کے لیے خوشیاں کا سامان لے کر آئے۔ لاک ڈائون کے متاثرین کی امداد کے لیے تمام ہی سماجی تنظیموں نے اپنی بساط کے مطابق خدمت کی ہے لیکن الخدمت نے پورے ملک میں جو کارنامہ سر انجام دیا ہے وہ ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ غریب اور معصوم بچے جو اپنے ماں باپ بہن بھائیوں کی مدد اور مشکلات پریشانی دور کرنے کے لیے ان کا ہاتھ بٹاتے ہیں یہ معصوم بچے جن کے ابھی کھیلنے کودنے کے دن ہیں لیکن یہ معصوم بچے اپنے ننھے منے ہاتھوں سے موٹر سائیکل میکینک کی دوکانوں، گارمنٹس کے کارخانوں اور دوکانوں میں مزدوری کر کے رزق حلال کماتے ہیں، الخدمت کیجانب اس سال ان معصوم بچوں کو بھی عید کی خوشیوں میں شامل کیا گیا ان معصوم بچوں میں عید گفٹ تقسیم کیے۔ یہ معصوم بچے الخدمت کیجانب سے عید گفٹ وصول کر کے انتہائی خوش اور مسرت کا اظہار کر رہے تھے ان معصوم بچوں کو سمجھ میں ہی نہیں آرہا تھا کہ ہمارے معاشرے میں کچھ تنظیمیں اور لوگ ایسے بھی ہیں جو خدمت خلق کے جذبوں سے سرشار اور درد دل بھی رکھتے ہیں۔ ان بچوں کے چہروں کی مسکراہٹ اور ان کی خوشی ہی حقیقی عید کا پیغام ہے۔ ان بجھے ہوئے مرجھائے اور اداس چہروں کی مسکراہٹ ایک ایسی کامیابی ہے جس کا اجر اور انعام اللہ تعالیٰ ہی بہتر انداز میں دے سکتا ہے۔
ہمارے ایک انتہائی قریبی دوست اور بھائیوں کی طرح سماجی رہنما مظہر ہانی جو ریڑھی گوٹھ میں بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کر رہے ہیں وہاں کے لوگوں کے لیے ویلفیئر اسپتال اور ڈسپنسری قائم کی ہے۔ ان کا ادارہ برسوں سے غریب لوگوں کے لیے دس روپے میں پیٹ بھر کر کھانا فراہم کرتا ہے۔ لاک ڈائون ہوا تو مظہر ہانی اپنی گاڑی اور ایمبولینس پر سندھ کے دور دراز علاقوں ٹھٹھہ، سجاول، بدین، میرپورخاص، تھر میں راشن باٹنے نکل گئے اور اب تک وہ تن تنہا کروڑوں روپے کا راشن تقسیم کرچکے ہیں۔ مظہر ہانی کو قریب سے جاننے والے افراد جانتے ہیں کہ وہ بہت حساس آدمی ہیں۔ غریبوں سے محبت ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ سیدابوالاعلی مودودی اور عبدالستار ایدھی کے وہ گرویدہ ہیں علمی اور ادبی شخصیت کے مالک اور کراچی میں ہونے والی سماجی تقریبات اور مشاعروں کی جان ہیں۔ ان جیسی شخصیات نے خدمت خلق کا بیڑا اٹھایا ہے تو یہ بڑے اعزاز کی بات ہے اور یہ کا تو انبیاء ؑ کام ہے۔ اللہ پاک اس کام کے لیے اپنے نیک بندوں کو چنتا ہے اور ان سے کام لیتا ہے۔ کورونا وائرس نے ساری دنیا ہی بدل ڈالی ہے اور ان مشکلات سے لڑنے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ درد دل رکھنے والے افراد میدان عمل میں آئیں اور غریب نادار مفلوک الحال لوگوں کی دستگیری کریں یہ کام تو حکمرانوں کا ہی ہوتا ہے لیکن شومئی قسمت پاکستان کو اب تک ایسے حکمراں میسر نہیں آسکے جوکہ غریبوں کی دلجوئی اور ان کی عملی مددکرسکے۔