اور اب بھارت کی نشریاتی جارحیت!

364

محمود ریاض الدین
ویسے تو بھارت 1947ء میں تقسیم برصغیر کے فوراً بعد سے پاکستان کے خلاف صوتی محاذ پر سرگرم رہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نے پاکستان کی سرحدوں کے ساتھ اپنے الیکٹرونک میڈیا نیٹ ورک کا وسیع جال بچھایا ہے لیکن وزیراعظم نریندر مودی کی پہلی میعاد کے اواخر میں بھارت نے پاکستان مخالف پروپیگنڈا تیز کردیا تھا جسے انتخابات جیتنے کا ہتھکنڈا سمجھ کر پاکستان میں نظر انداز کر دیا گیا۔ تاہم دوبارہ برسر اقتدار آنے کے بعد وزیراعظم مودی نے اپنے بدنام زمانہ ’’ہندوتوا‘‘ ایجنڈے کو پروان چڑھاتے ہوئے جہاں بالاکوٹ میں جارحیت کا ارتکاب کیا وہیں انہوں نے سفارتی و نشریاتی محاذوںکو پاکستان کے خلاف بھرپور انداز میں استعمال کرنا شروع کردیا۔
گزشتہ سال5؍اگست کو نریندر مودی نے کشمیر سے متعلق نہ صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں بلکہ اپنے ہی ملک کے آئین کے آرٹیکل 370 جس کے تحت ریاست کو بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع علاقہ ہونے کی وجہ سے خصوصی حیثیت دی گئی تھی، کی دھجیاں اڑاتے ہوئے مقبوضہ ریاست کی خصوصی حیثیت کو ختم کرکے اسے بھارت کا حصہ قرار دے دیا اور اس طرح بھارت کی سرحد کو توسیع دے کر ایک طرف آزاد کشمیر اور دوسری طرف پاکستان کی سرحد سے ملادیا اور اس کے ساتھ ہی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھارت کا دعویٰ کردیا۔
بدقسمتی سے بھارت نے پاکستان کی امن کی خواہش اور مسائل کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی پیشکش کو پاکستان کی کمزوری پر محمول کیا۔ بھارت نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین نیز اقوام متحدہ میں اپنے ہی بانیوں کی طرف سے کیے گئے وعدوں کی بھی پاسداری نہیں کی بلکہ فسطائی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے جو کبھی نازی ہٹلر کا خاصہ تھے، کشمیریوں کے ساتھ ساتھ خود بھارت میں مقیم مسلمانوں پر بھی عرصہ حیات تنگ کرنا شروع کردیا نیز عالمی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لیے بھارت نے نشریاتی محاذ پر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا بھی مزید تیز کردیا۔
اب بھارت نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کو مزید آشکار کرتے ہوئے اور نشریاتی جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے اپنے سرکاری ٹیلی وژن دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو پر خبرنامے کے بعد موسم کی خبروں میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے علاقوں کو بھی شامل کرلیا ہے اور ان علاقوں کے موسم کی پیش گوئی بھی اسی طرح کی جارہی ہے جیسے بھارت کے دوسرے خطوں کے موسم کا احوال بتایا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کے محکمہ موسمیات (Indian Meteorological Deaprtment) کی ویب سائٹ پر شمال مغربی سب ڈویژن کے تحت مظفرآباد، اسکردو اور وادی نیلم کے موسم کی روزانہ خبر دی جارہی ہے۔
بھارت کے ذرائع ابلاغ کی طرف سے ایسا کیوں کیا گیا؟ اس کا اندازہ بھارت کی سیاسی و فوجی قیادت نیز دیگر کارپردازان کے بیانات اور دھمکیوں سے بخوبی ہوجاتا ہے۔ مثلاً بھارت کے وزیر خارجہ ایس جے شنکر کا اپنے ایک بیان میں کہنا ہے کہ ’’پاکستان کے زیر انتظام کشمیر (آزاد کشمیر) بھارت کی ملکیت ہے اور ہم توقع کرتے ہیں کہ ایک دن یہ باضابطہ طور پر بھارت کا حصہ بن جائے گا۔ اسی طرح بھارت کے محکمہ موسمیات کے سربراہ مرتونجے موہاپاترا کا کہنا ہے کہ ہم موسم کی خبروں میں گلگت بلتستان اور مظفرآباد کا ذکر کررہے ہیں کیونکہ یہ ہمارے دیش کا حصہ ہیں۔
ہندوستان ٹائمز نے حال ہی میں اپنی ایک رپورٹ میں بعض سرکاری اہلکاروں کے حوالے سے انکشاف کیا کہ پاکستان کے زیرانتظام علاقوں کو بھارت کے موسم کی خبروں میں شامل کرنے کا شاطرانہ منصوبہ بھارت کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دووال کے شیطانی ذہن کی اختراع تھی اور اس سلسلے میں ایک باضابطہ تجویز تین مہینے پہلے تیار کی گئی تھی۔ اس تجویز کو قومی سلامتی کے نائب مشیر کے دفتر سے خارجہ اور داخلہ سیکرٹریوں کے پاس بھیجا گیا اور اسے انٹیلی جنس بیورو اور بھارت کے بدنام زمانہ جاسوسی ادارے (RAW) کے پاس بھی بھیجا گیا، تجویز کی حتمی منظوری تقریباً تین ہفتے قبل دی گئی اور تقریباً ایک ہفتے کی فرضی مشق کے بعد اسے سرکاری ٹیلی وژن دور درشن اور آل انڈیا ریڈیو کے خبرناموں کا باقاعدہ حصہ بنانے کے علاوہ بھارت کے محکمہ موسمیات کی ویب سائٹ پر نمایاں طور پر شامل کرلیا گیا۔
ہندوستان ٹائمز نے ایک اعلیٰ بھارتی اہلکار کے حوالے سے ہرزہ سرائی کی ہے کہ بھارت پاکستان اور اس کے اتحادیوں کو واضح طور پر یہ پیغام دینا چاہتا ہے کہ اسلام آباد نے جموں و کشمیر کے 86ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر غیر قانونی طور پر قبضہ کررکھا ہے۔
راقم کو بعض تجزیہ کاروںکے اس خیال سے اتفاق نہیں کہ کشمیر سے متعلق بھارت کے ان اقدامات کا تعلق کورونا کی صورتحال سے ہے اور یہ اقدامات کورونا کی مشکل صورتحال سے توجہ ہٹانے کے لیے کارگر ثابت ہو سکتے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے اس خیال سے اس لیے بھی اتفاق نہیں کیا جاسکتا کیونکہ یہ اقدامات عارضی نوعیت کے نہیں نیز یہ کہ یہ محض بھارتی رہنمائوں کے بیانات اور سرکاری ذرائع ابلاغ پر موسم کی خبروں تک محدود نہیں بلکہ بھارت گزشتہ سال 5؍اگست سے اپنے شیطانی ایجنڈے پر عملدرآمد بھی کررہا ہے (اب بھارت نے اپنے شیطانی ایجنڈے کے تحت نیپال میں سڑک کی تعمیر جبکہ لداخ میں چین کے ساتھ بھی چھیڑخانی شروع کردی ہے اور اب گزشتہ سال فروری میں جس طرح پاکستان سے تھپڑ کھانے کے بعد سرخ گال سہلاتا رہا، اب چین سے سینہ کوبی کرتا ہوا بھاگا ہے)۔
اس صورتحا ل میں جبکہ بھارت گزشتہ سال 5؍اگست سے اپنی حدود کو پاکستان اور آزاد کشمیر کی سرحدوں تک بڑھا چکا ہے اور آئے دن کنٹرول لائن اور ورکنگ بائونڈری کی خلاف ورزی کر رہا ہے، پاکستان کو ابلاغ عامہ کے محاذ پر اپنی پالیسی کو ازسرنو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
اس وقت پاکستان کے محکمہ موسمیات (جو شروع سے خبر کا ایک اہم ذریعہ رہا ہے) کی ویب سائٹ پر صرف اسلام آباد، چاروں صوبائی دارالحکومتوں اور گلگت کا درجہ حرارت دیا جارہا ہے جبکہ اس میں مظفرآباد اور میرپور کے ساتھ ساتھ سری نگر، جموں، کارگل اور لہہ کے درجہ حرارت کو بھی شامل کیا جانا چاہیے اور ساتھ ہی واضح طور پر درج ہونا چاہیے کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تحت یہ علاقے متنازع ہیں اور بھارت نے ان پر ناجائز قبضہ کر رکھا ہے۔ یہی سلسلہ ریڈیو پاکستان اور پاکستان ٹیلی وژن کے خبرناموں اور ان کی ویب سائٹ پر بھی شروع کرنا چاہیے بلکہ اگر ممکن ہو تو بھارتی مقبوضہ حیدرآباد دکن، بھارتی مقبوضہ جوناگڑھ اور بھارتی مقبوضہ مناودر کا درجہ حرارت بھی درج کرنا چاہیے کیونکہ ان علاقوں پر بھی بھارت نے تقسیم ہند کے اصولوں کے برخلاف مختلف حیلے بہانوں سے غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے۔ 2016ء میں راقم نے حکام کو متعدد تجاویز پیش کی تھیں جن میں سے چند یہ ہیں:
پاکستان کے لیے آزاد کشمیر، پنجاب اور سندھ کے بھارت سے ملحقہ سرحدی علاقوں میں ریڈیو پاکستان کے چھوٹے اسٹیشن قائم کرکے بھارت کے پروپیگنڈے کا توڑ کرنا انتہائی ضروری ہے، نیز بلوچستان کے بارے میں بھارت کے پروپیگنڈے کا بھرپور مقابلہ انتہائی ضروری ہوچکا ہے۔