انسانی تاریخ میں انبیائے کرام علیہم السلام کی امتوں پر عذاب بھی نازل ہوتے رہے، وبائیں اور آفات وبلیّات بھی نازل ہوتی رہیں۔ قومِ نوح پر عذابِ استیصال آیا، اُن کا نام ونشان مٹا دیا گیا، سفینۂ نوح کے نجات یافتگان کے سوا کوئی نہ بچا، اُن پر عذاب طوفان کی صورت میں آیا۔ سیدنا ہودؑ کی قوم عاد پر آیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اور رہے عاد تو اُن کو گرجتی ہوئی تیز آندھی سے ہلاک کردیا گیا، (اللہ نے) اس (آندھی) کو اُن پر مسلسل سات راتیں اور آٹھ دن مسلّط رکھا، پس (اے مخاطَب!) تو اُن لوگوں کو ان دنوں اور راتوں میں یوں گرے ہوئے دیکھتا گویا وہ کھجور کے گرے ہوئے ڈھنڈ (سوکھے تنے) ہیں، تو کیا تم اُن میں سے کسی کو بچا ہوا دیکھتے ہو، (الحاقّہ: 6-8)‘‘۔ اسی طرح سیدنا صالحؑ کی قوم ثمود تھی جو اپنے عہد کے خوشحال لوگ تھے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
’’کیا تمہیں دنیا کی نعمتوں میں اس طرح چھوڑ دیا جائے گا کہ تم امن سے رہو، باغات، چشموں، کھیتوں اور کھجوروں میں، جن کا شگوفہ نرم ونازک ہے، تم ماہرانہ انداز میں پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے ہو، (الشعراء: 148-149)‘‘۔ قومِ ثمود کے بارے میں فرمایا: ’’بے شک ہم اُن کی آزمائش کے لیے اونٹنی بھیجنے والے ہیں تو اے صالح! آپ اُن کے انجام کا انتظارکریں اور صبر کریں اور انہیں بتادیں کہ پانی اُن کے (اور اونٹنی کے) درمیان تقسیم کیا ہوا ہے، ہر ایک اپنی اپنی باری پر حاضر ہوگا، سو انہوں نے اپنے ساتھی کو پکارا، اس نے تلوار پکڑی اور اُس کی کونچیں کاٹ ڈالیں، تو کیسا رہا میرا عذاب اور ڈرانا، بے شک ہم نے ان پر ایک دہشت ناک آواز بھیجی تو وہ باڑ لگانے والے کی روندی ہوئی گھاس کی طرح چورا چورا ہوگئے، (القمر: 27-31)‘‘۔ اسی طرح قومِ لوط پر عذاب آیا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’فرشتوں نے کہا: ہم آپ کے رب کے بھیجے ہوئے ہیں، وہ ہرگز آپ تک نہیں پہنچ سکیں گے، پس آپ سوائے اپنی بیوی کے اپنے گھر والوں کو رات کے ایک حصے میں لے جائیں اور تم میں سے کوئی بھی پلٹ کر نہ دیکھے، ورنہ اُسے بھی وہی عذاب پہنچے گا جو انہیں پہنچے گا، ان پر عذاب آنے کا مقررہ وقت صبح ہے، توکیا صبح قریب نہیں ہے، پھر جب ہمارا عذاب آگیا تو ہم نے اس بستی کو تہ وبالا کردیا اور ہم نے اس پر پے در پے آگ کے پکے ہوئے ایسے پتھر برسائے جو آپ کے رب کی طرف سے (مجرموں کے لیے) نشان زد تھے اور یہ سزا اُن ظالموں سے کچھ دور نہ تھی، (ہود: 81-83)‘‘۔ پھر فرعون اور قومِ فرعون پر عذاب نازل ہوا اور انہیں سمندر میں غرق کردیا گیا، اللہ تعالیٰ بنی اسرائیل سے فرماتا ہے: ’’اور وہ وقت یاد کرو جب ہم نے تمہارے لیے سمندر کو پھاڑ دیا، پس تمہیں بچالیا اور فرعونیوں کو تمہارے دیکھتے ہی دیکھتے غرق کردیا، (البقرہ: 50)‘‘۔ لیکن عذاب کی یہ صورتیں ایسی تھیں کہ بعض علاقوں تک محدود رہیں، پوری دنیا کو احاطے میں نہیں لیا۔
اسی طرح جنگیں بھی برپا ہوئیں، تباہیاں اور ہولناکیاں آئیں، لیکن دنیا پھر آباد ہوگئی۔ ماضی میں بھی وبائیں آئیں، سیلاب آئے، زلزلے آئے، جنگِ عظیم اول اور دوم میں کئی ملین افراد زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسائے گئے، اسپینش فلو سے پانچ کروڑ افراد متاثر ہوئے، پچاس لاکھ لقمۂ اجل بنے، لیکن دنیا پھر آباد ہوگئی۔ اس سے پہلے ایبولا، سارس، مرس وائرس پیدا ہوئے، ڈینگی اور نگلیریا تو ماضی قریب کی بات ہے۔ بہت سی بیماریوں کے لیے علاج بھی دریافت ہوئے، لیکن کسی نے دعویٰ نہیں کیا کہ ہپاٹائٹس اے تا ای، ٹی بی، پولیو، ملیریا اور فلو کی بیماریاں جڑ سے ناپید ہوگئیں، اب بھی دنیا میں کہیں نہ کہیں موجود ہیں اور ہر سال لوگ نشانہ بنتے ہیں، روایتی اور غیر متعدی بیماریاں مثلاً دل، گردے، جگر، دماغ، ہڈیوں اور جلد سے متعلق، نیز شوگر، بلڈ پریشر، نزلہ زکام اور بخار وغیرہ تو ہمیشہ سے جاری وساری ہیں۔
مگر کورونا وائرس ایک ایسی وبا ہے جس نے پہلی مرتبہ پوری دنیا کا احاطہ کرلیا ہے، شرق سے غرب اور شمال سے جنوب تک اس کی تباہی کے آثار ثبت ہوچکے ہیں، جدید دنیا کے لوگوں کا سائنس کی طاقت پر بڑا ایمان تھا، لیکن سرِ دست سائنس بھی بے بس ہے، مستقبل کا علم اللہ کے پاس ہے۔ دنیا نے پہلی مرتبہ لاک ڈائون کی اصطلاح سنی، ملکوں کے ملک بند ہوگئے، لوگ گھروں میں قید ہوگئے، نظام کورونا وائرس کو کنٹرول کرنے میں بے بس بلکہ ساکت و جامد ہوگیا، ایسا لگا کہ اس کی روح سلب ہوگئی ہے۔ حیرت ہے کہ جس وبا کا اختتام معلوم نہیں، اس کا حل عالمِ انسانیت کو لاک ڈائون ہی سمجھ میں آیا ہے، لیکن دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت کے لیے بھی غیر معینہ مدت کے لیے لاک ڈائون میں رہنا عملاً ناممکن ہے، چنانچہ اب اموات کا سلسلہ بھی جاری ہے اور لاک ڈائون میں نرمی کا آغاز بھی ہوچکا ہے۔
کورونا وائرس انسانی زندگی کے لیے تو خطرہ بن کر آیا ہی تھا، مگر اس نے عالمی معیشت کو بھی تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے، پسماندہ اور ترقی پزیر ممالک کی بات تو چھوڑیے، ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کو جھٹکے لگ رہے ہیں۔ ہم تو ویسے بھی کسی چیز کے موجد نہیں ہیں، بلکہ جدید علم کے میدان میں اندھے مقلّد ہوتے ہیں، اس لیے دنیا نے لاک ڈائون کیا، تو اُن کی تقلید میں ہمیں بھی اسی راہ پر چلنا پڑا، ایک لبرل تجزیہ نگار کے بقول اگر جلد یا بدیر کوئی ویکسین ایجاد ہوتی ہے تو وہ بھی مغرب سے ہی آئے گی۔
ابھی تک ہمارے ہاں بحث ہورہی ہے کہ لاک ڈائون جیسا کہ ہونا چاہیے تھا، نہیں ہوا، لیکن عمران خان درست کہتے ہیں کہ ہماری معیشت آئیڈیل لاک ڈائون کی متحمل ہوہی نہیں ہوسکتی، ہماری معیشت میں اتنی سکت نہیں ہے، زرِ مبادلہ کی تو بات ہی چھوڑیے، بنیادی ضرورتوں اور خوراک سمیت ہمارے محفوظ ذخائر ہمیشہ محدود ہوتے ہیں، ہمارے اخراجات ہمارے محاصل سے ہمیشہ زیادہ ہوتے ہیں، ہمارے وسائل ہمیشہ محدود اور خواہشات لامحدود ہوتی ہیں۔ اُن ماہرین کو تو چھوڑیے جو ائر کنڈیشنڈ اسٹوڈیوز میں بیٹھ کر لاک ڈاؤن کے فضائل پر فصیح وبلیغ گفتگو کرتے ہیں، امریکا سمیت اہلِ مغرب اور جدید ترقی یافتہ دنیا کو بھی معلوم نہیں ہے کہ کورونا وائرس سے نجات کب تک ممکن ہوگی، تو کیا پھر لاک ڈائون غیر معینہ مدت تک جاری رکھا جاسکتا ہے، ہماری معیشت اس کا بوجھ اٹھا سکتی ہے۔ پس ہمیں حقیقت پسند بننا چاہیے اور ہر شعبے کے لیے معیاری طریقۂ عمل (SOP) وضع کرکے اس پر سختی سے عمل کرنا چاہیے۔
ہاں! اگر اس کورونا وائرس کے جبر سے سبق حاصل کرتے ہوئے ہم اپنے بازاروں اور کاروبار کو ساری دنیا کی طرح صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک محدود کرلیں تو ہمارے ہاں بجلی کی قلت پر بھی کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ آخر کیا بات ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں تو بازار اور مارکیٹیں عام حالات میں سرِ شام بند ہوسکتی ہیں اور کاروبارِ دنیا چل سکتا ہے، تو ہمارے ہاں کیوں نہیں چل سکتا، کیا ہم کسی اور سیارے کی مخلوق ہیں کہ ہمارے کاروباری حضرات راتوں کو جاگ کر مجلسیں بپا کریں، دوپہر کو بارہ بجے اٹھیں اور بعد دوپہر مارکیٹوں کا رخ کریں اور پھر رات دس بجے تک ہمارے ہاں دکانیں کھلی رہیں۔ ایسا کیوں نہیں ہوسکتا کہ دینی تقریبات سمیت ہماری سماجی تقریبات ایک مقررہ وقت پر ختم ہوجائیں۔
ان عاداتِ بَد کی وجہ سے بیش تر لوگ فجر کی نماز بھی نہیں پڑھتے، زوال کے وقت اٹھنے والوں کو عروج کیسے نصیب ہوسکتا ہے، جبکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: (۱) ’’اور ہم نے رات کو پردہ پوش بنایا ہے اور ہم نے دن کو روزگار کے لیے بنایا، (النبا: 10-11)‘‘۔ (۲) ’’اور وہی ہے جس نے رات کو تمہارے لیے پردہ پوش، نیند کو (باعثِ) راحت بنایا اور اٹھنے کے لیے دن بنایا، (الفرقان: 47)‘‘۔ رسول اللہؐ نے فرمایا: (1) ’’اے اللہ! میری امت کے صبح کے وقت میں برکت دے، (ابن ماجہ)‘‘، (2): ’’صبح کے وقت سونا رزق کو روک دیتا ہے، (المعتصر)‘‘، (3): ’’اور جب تم فجر کی نماز پڑھ لو تو اپنے رزق کے لیے جدّوجہد کیے بغیر سونے کی بات نہ کرو، (کنز العمال)‘‘، (4): ’’سیدنا انس بیان کرتے ہیں: نمازِ فجر سے طلوعِ آفتاب تک طلبِ معاش کے بغیر نہ سوئو، اُن سے پوچھا گیا: ایسا کیوں، انہوں نے فرمایا: ستّر مرتبہ تسبیح، تہلیل اور تکبیر پڑھو، کیونکہ اس وقت پاکیزہ رزق نازل ہوتا ہے، (اللآلی المصنوعہ)‘‘، (5): ’’جُندَب بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: جس نے صبح کی نماز پڑھی، وہ اللہ کی حفاظت میں آگیا، (مسلم)‘‘، (6): ’’عبدالرحمن بن ابی عَمرہ بیان کرتے ہیں: سیدنا عثمانؓ نمازِ مغرب کے بعد مسجد میں داخل ہوئے اور تنہا بیٹھ گئے، میں بھی ان کے پاس جا بیٹھا، انہوں نے کہا: بھتیجے! میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے ہوئے سنا: جس نے عشا کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی تو گویا اس نے آدھی رات تک قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز (بھی) جماعت کے ساتھ پڑھی تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا، (مسلم)‘‘۔
اسلام دینِ یُسر ہے، دینِ فطرت ہے، لیکن ہم نے فطرت کے خلاف عادات اپنا لی ہیں، کاش کہ کورونا وائرس کے جبر کے ان ایام میں ہم اپنے آپ کو شریعت کے ضابطوں کے مطابق ڈھال لیں، فارسی کا مقولہ ہے: ’’عدو شرّے برانگیزد کہ خیر ما دراں باشد‘‘، یعنی دشمن شر بپا کرتا ہے، لیکن اسی کے اندر سے ہمارے لیے خیر کی صورت پیدا ہوجاتی ہے، سو اگر ہم ان حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی عادات واطوار بدل لیں اور اپنے شب وروز کو شریعت کے منشا کے مطابق ڈھال لیں، تو یہ ہمارے لیے خیرِ مستور ثابت ہوگی۔ کل ایک بزرگ کہہ رہے تھے کہ ہمارے اندر ایک مینو فیکچرنگ فالٹ ہے، یعنی ہماری ذہنی ساخت اور طبعی نہاد میں ایک نَقص سرایت کرچکا ہے کہ ہم ضوابط توڑنے کو کمال سمجھتے ہیں اور بعض اوقات اس کے نتائج بھی بھگتنے پڑتے ہیں، کاش کہ ہم اپنے آپ کو ان ضوابط کا پابند بنالیں جو ہمارے انفرادی اور اجتماعی مفاد میں ہیں۔