تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں

360

احسن اختر
پاکستان پیپلز پارٹی تقریباً 20 سال سے صوبہ سندھ کے اقتدار پر قابض ہے۔ پاکستان کے کسی اور صوبے میں اتنے طویل عرصے کسی ایک پارٹی کی حکومت نہیں رہی۔ سندھ کی بدقسمتی ہے کہ ہر میدان میں حکومت نااہلی کی مثالیں رقم کرتی رہی۔ کبھی جماعت کے سربراہ بدعنوانی کے الزام کا سامنا کرتے نظر آئے، کبھی کسی وزیر کے اوپر زمینوں پر قبضے کا الزام لگایا کبھی کسی وزیر کے گھر سے ڈالر، یورو اور ملکی کرنسی کے ڈھیر برآمد ہوئے۔ پاکستان میں کتے کے کاٹنے کے سب سے زیادہ واقعات صوبہ سندھ ہی میں رپورٹ ہوئے۔ دنیا میں ’’متنازع‘‘ خطرناک ترین ٹائیفائیڈ ویکسین کا تجربہ ہمارے صوبہ سندھ کے بچوں پر ہی کیا گیا۔ سندھ کے شہری علاقے کے اردو بولنے والے لوگوں کو دیوار سے لگایا اور ملازمتوں پر میرٹ کا قتل عام بھی ہماری سندھ حکومت کا کارنامہ ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کی ماہانہ رقم امیروں، وزیروں اور سرکاری ملازمین میں تقسیم کرکے سندھ حکومت سے اپنی مرحومہ قائد کے نام کو صحیح بٹا لگایا ہے۔
موجودہ عالمی وبا ’’کورونا‘‘ اور اس کا علاج ’’لاک ڈائون‘‘ اور عالمی شیطانی ایجنڈا ’’خوف و ہراس کی افزائش‘‘ اور خصوصاً مساجد میں اللہ کے آگے جھکنے پر پابندی لگانے میں ہماری سندھ حکومت پورے پاکستان میں سب سے زیادہ اچھلتی کودتی نظر آئی۔ سندھ حکومت کا آدھا تیتر اور آدھا بٹیر اسٹائل لاک ڈائون شہری عوام کے لیے بڑی تکلیف کا سبب بنا۔ کہا گیا کہ لاک ڈائون ہوگا کچھ شعبے کھلیں گے اور کچھ بند ہوں گے۔ پولیس کے مزے آگئے، ہر محلے میں اپنے منظور نظر لوگوں کے کاروبار چلنے دیے گئے، کسی محلے میں بیکریاں بند ہیں کسی میں چل رہی ہیں، گوشت کی دکانوں پر لوگ ایک دوسرے کے قریب ہو کر گوشت بنوارہے ہیں۔ روز پچاس سے ساٹھ ہزار لوگ سبزی منڈی جا کر سبزی لا کر بیچ رہے ہیں۔ ہزاروں ٹرک اندرون سندھ سے سبزی، فروٹ لارہے ہیں اور پھر واپس جارہے ہیں کورونا نہیں پھیل رہا۔ میں جہاں رہتا ہوں وہاں بریانی کی دکانیں بند ہیں لیکن کچھ دکانیں کھلی ہیں، موبائل آتی ہے، سپاہی بریانی لے کر جاتے ہیں، کوئی روک ٹوک نہیں۔ برتن کی دکان کھلی ہے، حالاں کہ پابندی ہے، پتا چلا پولیس والے کا بھائی ہے، حلوہ پوری کی دکان بھی کھلی ہے پتا چلا تھانے والے اٹھا کر لے گئے تھے دکاندار واپس آیا ہے پورے شہر میں بند ہے اجازت مل گئی۔ اب کورونا نہیں پھیلے گا۔ کسی علاقے میں دیکھیں سب ہوٹل بند ہیں کہیں ایک دو ہوٹل کھلے ہیں، کہیں لوگ اندر بھی بیٹھ کر کھا پی رہے ہیں۔ کہیں دیکھیں پولیس نے ناکہ لگایا ہوا ہے روڈ جام ہے، ایمبولینس سائرن بجا رہی ہے، گرمی ہورہی ہے آدھے روڈ کو گھیرا ہوا ہے نہ چیکنگ کررہے ہیں، بس آدھے ٹینٹ میں بیٹھے ہیں اور کچھ آپس میں کھڑے خوش گپیاں کررہے ہیں، باقی لوگوں کے منہ تَک رہے ہیں یہ ڈیفنس پولیس اسٹیشن پر روز ہوتا رہا ہے۔ صوبائی وزیر سعید غنی کورونا وائرس کا شکار ہوئے گھر پر رہے نہ ان کے گھر والوں کو کچھ ہوا، نہ ڈرئیور، نہ سیکورٹی گارڈز، نہ حالی موالی کارکنان کو کچھ ہوا نہ ان کی گلی اور علاقہ سیل ہوا۔ جناب خود بخود صحیح ہوگئے۔
مراد علی شاہ کے بہنوئی ایران سے آئے بغیر چیکنگ کے گھر چلے گئے، کہا گیا ٹیسٹ ہوا ہے نیگیٹو آیا ہے، حکم ربی تھا اللہ نے بلالیا۔ نہ مراد علی شاہ کو کچھ ہوا نہ گھر والوں کو وائرس ہوا لیکن سندھ حکومت اب مشتبہ مریضوں کو جن کا محلہ والوں کو پتا ہی نہیں ان کی گلیاں اور محلے سیل کررہی ہے۔ سعید غنی کی یوسی خطرناک نہیں وزیراعلیٰ کے بہنوئی کی گلی اور محلہ خطرناک نہیں وہ گلیاں جہاں کوئی کیس رپورٹ ہی نہیں ہوا ان کو سیل کیا جارہا ہے۔
اب لاک ڈائون پر اصرر سمجھ سے بالاتر ہے ملک کو 70 فی صد ریونیو دینے والے شہر کی بندش اور سندھ کے اندرونی علاقوں میں زور شور سے ’’گندم کی کٹائی‘‘ اندرون سندھ گھوٹکی میں مندر کی تقریب میں کھوے سے کھوا چھلتے عوام کی ویڈیو یہ بات ثابت کرتی ہے کہ یا تو ان کی نیت خراب ہے یا یہ لوگ نااہل ہیں۔ وفاق سے رسہ کشی اور محاذ آرائی 70ء کی دہائی کی یاد تازہ کررہی ہے جب 164 نشستیں جیتنے والی عوامی لیگ کو 83 نشستیں جیتنے والی پیپلز پارٹی نے حکومت نہیں بنانے دی اور اس کے لیڈر نے دھمکی دی کہ جو رکن حلف اٹھانے جائے گا اس کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔
عدالت عظمیٰ اور محب وطن ادارے ہی اس بحرانی حالت سے سندھ کو نکال سکتے ہیں۔ نہیں تو یہ ’’جونک‘‘ مادر وطن کا خون کا آخری قطرہ تک چوس لے گی اور ’’تمہاری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں‘‘۔