کنٹرول لائن پر بھارت کی جارحیت ہمارے لیے کوئی نئی بات نہیں‘ یہ وہ مکروہ دھندہ ہے جو وہ 70 سال سے کر رہا ہے‘ اسے سیکڑوں بار یہاں جواب ملا‘ اور بھر پور جواب ملا مگر ہندو ذہنیت کنٹرول لائن پر بلاجواز جارحیت کا پیشاب پینے پر عادتاً مجبور ہے اس کی فوج مقبوضہ کشمیر میں حریت پسند کشمیری عوام سے مار کھار ہی ہے‘ وہاں کشمیریوں کے ماورائے عدالت قتل کے واقعات بڑھ رہے ہیں پاکستان مسلسل عالمی برادری کو اس جانب توجہ دلا رہا ہے عالمی برادری کے بارہا نوٹس لینے اور تنبیہ کے باوجود بھارت اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے اور روزانہ کی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی میں اضافہ کررہا ہے۔ ابھی حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں 13 کشمیری نوجوانوں کو شہید کیا گیا۔ پاکستان عالمی برادری اور عالمی قوتوں سے بھارت کی درندگی کا نوٹس لینے پر زور دیتا رہا ہے لیکن اب عالمی طاقتیں بھی بھارتی ہٹ دھرمی کے سامنے بے بس نظر آتی ہیں‘ حکومت متعدد بار بھارت کی طرف سے فالس فلیگ آپریشن کے خدشات کا اظہار کر رہی ہے لگتا ہے کہ بھارت ایسی کوئی حماقت کر سکتا ہے جس کے توڑ کے لیے پاکستان ہمہ وقت تیار ہے جس کے بعد کا منظر نامہ بھیانک ہو سکتا ہے عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ کنٹرول لائن پر ایسی نوبت نہ آنے دے۔ جنوب ایشاء میں اس تازہ صورت حال پر عالمی برادری کی خاموشی کے لیے صرف ایک لفظ افسوسناک کافی ہے یہ رویہ کسی حد تک متعصبانہ بھی معلوم ہوتا ہے‘ بھارت اور عالمی برادری پاکستان کے تحمل کا کتنا امتحان لے سکتی ہے؟ ہمارے صبر کا جام چھلک گیا تو بھارت کی ساری خباثت خزاں کے پتوں کی طرح جھڑ جائے گی‘ بھارت کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ جارحیت سے باز آجائے۔
دہلی سرکار کو غالباً امریکا کی شہہ حاصل ہے‘ حال ہی میں امریکا کا بیجنگ کی بھارت سے کشیدگی کو چینی جارحیت قرار دینا بھی معنی خیز ہے جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ بھارت امریکی آشیرباد ہی سے اس خطہ میں تباہی کا اہتمام کررہا ہے اگر بھارت کو اس کی جنونیت سے باز نہ رکھا گیا اور عالمی برادری اور عالمی قوتیں اسی طرح خاموشی رہیں تو بھارت جس نہج پر پہنچ چکا ہے اس سے خطہ کی تباہی کو کوئی نہیں روک سکتا‘ بھارت اس وقت پاکستان کے علاوہ چین سے بھی سنگ پھنسائے بیٹھا ہے اور افغانستان میں بھی گند پھیلا رہا ہے۔ پاکستان نے بر وقت قدم اٹھایا ہے اور اقوام متحدہ کی رپورٹ سے متعلق بھارتی وزارت خارجہ کے بیان کو مسترد کر دیا ہے ترجمان دفتر خارجہ نے بالکل درست کہا کہ بھارت افغان امن عمل کو متاثر کرنا چاہتا ہے اقوام متحدہ کی رپورٹ میں عالمی دہشت گردوں کے بھارت سے افغانستان سفر کرنے کا ذکر کیا گیا کوئی شبہ ہی نہیں کہ مودی سرکار کالعدم تحریک طالبان کی حمایت کر رہی ہے اس کے طرز عمل سے علاقائی امن کو شدید خطرہ لاحق ہے۔ ترجمان دفتر خارجہ عائشہ فاروقی نے اپنے رد عمل میں بالکل نشانے پر تیر مارا کہ اقوام متحدہ نے افغانستان میں مانیٹرنگ ٹیم کی 11ویں رپورٹ میں امن واستحکام اور دیگر عوامل کا تذکرہ کیا تھا رپورٹ میں پاکستان میں محفوظ پناہ گاہوں کا کوئی ذکر نہیں ہے بھارتی وزارت خارجہ نے رپورٹ کو توڑ مروڑ کر پاکستان پر الزامات لگائے اقوام متحدہ کی رپورٹ سے افغانستان میں بھارت کی کالعدم تحریک طالبان کو حمایت ثابت ہوگئی ہے بھارت دہشت گردی کو پاکستان کے خلاف ریاستی پالیسی کے طور پر استعمال کر رہا ہے اس لیے تو پاکستان کا یہ مطالبہ درست ہے دہشت گردی کے متعدد بھارتی سہولت کاروں کواقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل کیا جائے کیونکہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ طویل عرصہ سے بھارت کی ریاستی دہشت گردی کا شکار ہیں۔
آر ایس ایس نظریات کی حامل بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں ظالمانہ لاک ڈاؤن کر رکھا ہے ترجمان عائشہ فاروقی نے گلگت بلتستان میں بدھ تہذیب سے متعلق بھارتی الزامات کو بھی مسترد کیا ہے کہ بھارت کی جانب سے لگائے گئے الزامات تاریخی حوالوں، بین الاقوامی قوانین اور اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے برعکس ہیں پاکستان کو بجا طور پر مقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل پر تشویش ہے مقبوضہ کشمیر میں بچے بھارتی مظالم سے سب سے زیادہ متاثرہ ہیں مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم انتہائی حد کو پہنچ چکے ہیں عالمی برادری کو بھارتی قابض افواج کی درندگی کا نوٹس لینا ہوگا۔ یورپی یونین کے ارکان پارلیمنٹ نے بھی مقبوضہ کشمیر میں مظالم کا معاملہ اٹھایا ہے کشمیری مسلسل 9 ماہ سے فوجی لاک ڈاؤن اور پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے عالمی رہنماؤں کی توجہ مقبوضہ وادی کی صورتحال کی طرف مبذول کرائی ہے۔ بھارت کورونا کی آڑ میں وہاں ظلم کے پہاڑ ڈھا رہا ہے بھارت کو سمجھنا چاہیے کہ وہ گلگت بلتستان میں بدھ مت تہذیب سے متعلق بے بنیاد الزامات لگا کر دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے نہیں ہٹا سکتا مقبوضہ کشمیر تنازع ایک حل طلب مسئلہ ہے جسے اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق کشمیری عوام کے حق رائے شماری کے ذریعے فوری حل ہونا چاہیے۔