پی آئی اے حادثہ نہیں لاپروائی

234

مظہر اقبال
بائیس مئی کو پی آئی اے کی پرواز کراچی ائر پورٹ سے کچھ سو میٹر پہلے گر کر تباہ ہو گئی۔ اس المناک حادثے پر سب ہی رنجیدہ تھے۔ لوگ اپنا روزہ بھول گئے اور مسافروں کے غم میں شریک ہو گئے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر ہمارے ہی جہازوں کے ساتھ ایسے حادثات کیوں پیش آ رہے ہیں اور وہ بھی تواتر کے ساتھ۔ ابھی لوگ جنید جمشید والی پرواز کے حادثے کو نہیں بھول پائے تھے کہ یہ نیا حادثہ رونما ہو گیا۔ یعنی اب فضائی سفر محفوظ نہیں رہا۔ اس کے بر عکس جب ہم دوسرے ممالک کی ہوائی سفری سہولتوں کی طرف دیکھتے ہیں تو معاملات مختلف ہیں۔ امارات ائر لائن کی تاریخ میں کوئی حادثہ نہیں، قطر ائر ویز کا کوئی حادثہ نہیں۔ یہ وہ ممالک ہیں جن کی ائر لائن کو خود پی آئی اے کے لوگوں نے بنایا۔ دوسرے ممالک کی ائر لائن اور ہماری ائر لائن کے الگ الگ عناصر ہیں۔ دنیا کی بڑی ائر لائنز میں لوگ اس لیے کام کرنا پسند کرتے ہیں کیونکہ وہاں میرٹ پر چنائو ہوتا ہے۔ وہاں ادارے کے اندر کام کرنے کا خوشگوار ماحول ہوتا ہے۔ جو زیادہ محنت کرے گا وہ ترقی پائے گا۔ ہمارے ہاں اُلٹ ہے۔ جو ٹیکنیکل اسٹاف بڑے افسر کی خوشامد کرے گا وہی ترقی پائے گا۔ ایسے میں حساس دل رکھنے والے اور محنت کرنے والے یا تو پی آئی اے چھوڑ دیتے ہیں یا پھر ملک۔ راقم اس موقع پر ایک پی آئی اے کے انجینئر کا واقعہ بتانا چاہتا ہے۔ آج سے کوئی پندرہ سال پہلے جب راقم برطانیہ سے واپس آیا تو پی آئی اے کے ایک انجینئر نے درخواست کی کہ انگریزی بول چال میں ان کی مدد کی جائے۔ کافی کلاسز کے بعد جب استاد اور شاگرد کا رشتہ قائم ہو گیا تو ہم نے اصل سوال پوچھ ہی لیا بھائی یہ ہمارے جہازوں کے حادثات کے پیچھے کیا راز ہے۔ موصوف نے بتلایا سو فی صد لا پروائی۔ رولز اور ریگولیشن کے مطابق لوگ اپنی طرف سے ایک پیج یا اسکرو بھی دوسری کمپنی یا مقامی طور پر بنا ہوا نہیں لگا سکتے۔ بوئنگ کمپنی ہی کا نیا اسکرو باکس کھولا جائے گا اور کھولنے والا اپنے دستخط کرے گا۔ اور اس کو لگانے والا اپنے دستخط کرے گا یوں کوالٹی کو بہتر بنانے کے لیے پیچ دار مراحل ہوتے ہیں۔ ہم نے صرف میکینکل شعبے کی بات کی۔ اسی طرح الیکٹرونکس اور ایوینونکس کے شعبہ جات ہیں۔ جب تک سب شعبوں کے اعلیٰ افسران دستخط کر کے نہیں دیتے فلائٹ ٹیک آف نہیں کرتی۔ مگر ہمارے ہاں کالا بکرا ذبح کرکے اور پائلٹ کو تھپکی دے کر جہاز اُڑا دیا جاتا ہے۔
اگر صحیح طریقے سے پی آئی اے کا احتساب کیا جائے تو آدھے سے زیادہ اسٹاف اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ ہمارے زیادہ تو حکمران پی آئی اے کے لوکل جہاز استعمال نہیں کرتے۔ وزیر اعظم پاکستان ائر فورس کا طیارہ استعمال کرتے ہیں۔ ایک بڑے عرصہ شہباز شریف دنیا کا انتہائی مہنگا جیٹ استعمال کرتے رہے۔ گورنر بلوچستان کے پاس بھی مہنگا ترین جیٹ ہے۔ سندھ حکومت کے پاس کئی مہنگے ہیلی کاپٹر ہیں۔ اب آپ ہی بتائیے کہ ایسے میں عوام کے بارے میں کون سوچے گا۔ ایسے میں عوامی لیڈر شیخ رشید 1950 کی پرانی ریلوے کو نیا رنگ کرکے آپ کی خدمت میں پیش کر دیتے ہیں۔
پی آئی اے کے ان حادثات نے پاکستانیوں کے لیے ہوائی سفر کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ پی آئی اے کے حالیہ حادثے پر ایک غیر ملکی ہوا بازی کے ماہر نے اپنی FORENSIC REPORT دی۔ اس رپورٹ کو دیکھ کر آپ انگشت بدنداں رہ جائیں گے۔ جہاز کا لینڈنگ گیئر نہیں کھل پایا تھا۔ ائر ٹریفک والوں کو یہ معلوم ہو گیا تھا کی گیئر کا مسئلہ ہے تو انہوں نے ایمرجنسی لینڈنگ کے انتظامات کیوں نہیں کیے۔ اس رپورٹ کے بعد ہم نے فوراً سول ایویشن والوں سے رابطہ کیا۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ہمیں کچھ معلومات ملیں۔ یہ معلومات اور بھی ہولناک ہیں۔ پتا یہ چلا کہ سی اے اے والوں نے پہلی کوشش میں کپتان سے کہا کہ آپ بغیر ویل نکالے لینڈ کر جائیں۔ پائلٹ نے ایسا ہی کیا تاہم اسپیڈ زیادہ تھی اور ساتھ ہی انجن کو بھی نقصان ہوا۔ تا ہم پائلٹ نے دوبارہ ٹیک آف کر دیا۔ اب یہاں مسئلہ آیا تھا دونوں انجنوں کی خرابی کا۔ دونوں انجن بند ہو گئے اور دوسری کوشش میں طیارہ آبادی پر ہی گر گیا۔ ایک اور اطلاع کے مطابق طیارے کے پرزے تبدیل نہیں کیے گئے تھے۔ تمام معاملات کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ اگر اس مرتبہ بھی آٹے چینی کی طرح اس معاملے کو دیکھا گیا تو ہماری ائر لائن ہاتھ سے نکل جائے گی۔