بھارت جواب کے لیے تیار رہے

596

بھارت دنیا کا واحدملک ہے جس کے اپنے ہر پڑوسی کے ساتھ نہ صرف تنازعات ہیں بلکہ اس کی اپنے ہر پڑوسی کے ساتھ مسلح جھڑپوں اور جنگوں کی ایک تاریخ ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بھارت میں جو بھی سرکار ہو، اس کے پاس اپنے عوام کی توجہ مسائل سے ہٹانے کا واحد آزمودہ نسخہ اپنے پڑوسیوں خصوصا پاکستان کے ساتھ جنگ ہے ۔ بھارت نہ صرف ایک بڑا ملک ہے بلکہ ایک ایسا ملک بھی ہے جس کے مسائل بے شمار ہیں اور اس کے حکمراں اپنے عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے کبھی اندرونی محاذ پر منافرت کو ہوا دیتے ہیں تو کبھی پڑوسیوں کے ساتھ جنگ میں مصروف ہوجاتے ہیں ۔ بھارت میں گندگی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے اور اس کی 70 فیصد آبادی کو بیت الخلا کی سہولت ہی میسّرنہیں ہے ۔ اس وجہ سے نئی دہلی تک میں فضائی آلودگی اور بدبو اس انتہا کو پہنچ گئی ہے کہ جو غیر ملکی یہاں آتے ہیں ، وہ یہ سب دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں ۔ پورے بھارت میں خواتین کے خلاف تشدد اور ان کاگینگ ریپ عام سی بات ہے ۔ خواتین کی آبروریزی اور گینگ ریپ کی وجہ سے نئی دہلی کو ریپ کیپیٹل کا لقب دیا گیا ہے ۔ غربت ، بے گھر خاندانوں کے فٹ پاتھوں پر ڈیرے ، صاف پانی اور سیوریج کی سہولت سے محروم غول در غول عوام ، غربت کے ہاتھوںدنیامیں سب سے زیادہ خودکشی کی شرح ، تعلیم و صحت کی سہولتوں کی عدم دستیابی جیسے مسائل نے بھارت کو مسائل کے گڑھ میں تبدیل کردیا ہے ۔ اصولی طور پر تو ہونا یہ چاہیے تھا کہ بھارتی قیادت اپنے عوام کو درپیش ان سنگین مسائل کے حل کے لیے دن رات ایک کردیتی اور اپنے سارے وسائل عوامی فلاح و بہبود کے لیے مختص کردیتی ، اس نے کرپٹ سیاستدانوں اور بڑے کاروباری خاندانوں کو تحفظ دینے کے لیے منافرت کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ پورے بھارت میں کوئی بھی اقلیت محفوظ نہیں ہے ۔ مسلمان خاص طور سے نشانہ ہیں ۔ اس کے لیے ہندوتوا کو ابھارا گیا اور اب ہندو گروہوںکی صورت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کا شکار کرتے ہیں ۔ اس سے اقلیتیں اپنی جان ، مال اور عزت و آبروکے تحفظ میں لگ گئیں تو ہندو طاقت کے خمار میں آگئے اور حکومت سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ وہ مسائل حل کرنے کے بجائے کرپٹ افراد کو کیوں تحفظ دے رہی ہے ۔ جب معاملات زیادہ بگڑے تو مودی سرکار نے اپنے ہر پڑوسی کے ساتھ چھیڑ چھاڑ شروع کردی ہے ۔ نیپال اور چین کے ساتھ متنازع علاقوں میں سڑکوں کی تعمیر شروع کردی ہے جس پران ممالک نے شدید ردعمل ظاہر کیا ۔ نیپال کا ردعمل تو ابھی تک سفارتی احتجاج تک ہی محدود ہے مگر چین نے بزور قوت بھارت کو اس کے توسیع پسندانہ منصوبے پر عمل کرنے سے روک دیا ہے ۔ اس کے بعد اب بھارت نے اپنے پسندیدہ محاذ جنگ پاکستان کی طرف رخ کیا ہے ۔ بھارت کے وزیر داخلہ اور مودی کے دست راست امیت شاہ نے براہ راست پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ مودی نے پاکستان پر حملے کی اجازت دے دی ہے اور وہ سرجیکل اسٹرائیک کریں گے ۔ امیت شاہ نے پاکستان کے بارے میں جو بیان دیا ہے ، اس کی انہیں ہمت اس لیے ہوسکی کہ 5 اگست کو جب انہوں نے مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ کی خصوصی حیثیت ختم کی تو پاکستان نے اس پر عملی احتجاج تو دور کی بات ہے ، لفظی احتجاج سے بھی گریز کیا ۔ بھارت کی سمجھ میں اچھی طرح سے آگیا ہے کہ اس وقت پاکستان میں جو لوگ پاکستان کے حقیقی اور مجازی حکمراں ہیں وہ جنگ کے نام سے ہی خوفزدہ ہیں ، اس لیے پاکستان کے ساتھ جو جی چاہے کیا جاسکتا ہے ۔ جب پاکستان کے حکمراں پاکستان کی شہ رگ کی خصوصی حیثیت تبدیل کرنے اور پھر اسے بھارتی ریاست میں ضم کرنے پر کچھ نہیں بولے تو اب مزید پاکستانی علاقوں پر قبضہ بھی کرلیا جائے تو یہاں سے کسی موثر ردعمل کا کوئی اندیشہ نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی اتنی ہمت بڑھ گئی ہے کہ وہ پاکستان پر قبضے کی باتیں کرنے لگا ہے ۔ یہی درست وقت ہے کہ پاکستان طاقت کا جوا ب طاقت سے دے اور مودی و امیت شاہ کو سبق سکھادے ۔ پاکستان اپنی پارلیمنٹ سے قرارداد منظور کروائے کہ مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ پاکستانی علاقے ہیں اور پھر ان قراردادوں کی روشنی میں انہیں بھارتی قبضے سے چھڑوانے کے لیے راست اقدام کرے ۔ جس طرح سے چین نے قوت سے اپنا حق چھینا ہے اور بھارت کو اس کی اوقات میں رکھا ہے ، اسی طرح سے پاکستان بھی بھارت کو اس کی حدود میں رکھ سکتا ہے ۔ یہی کشمیریوں کے دل کی بھی آواز ہے اور یہی پنجاب میں خالصتان کی جنگ لڑنے والوں کی بھی ۔ یہ وقت اگر مگر اور چونکہ چنانچہ کا نہیں ہے ۔ اگر پاکستان اگر مگر اور چونکہ چنانچہ میں پھنسا رہا تو چند ہفتے بعد ہی بھارت ایک طرف آدھے پاکستان کو سیلاب میں ڈبو چکا ہوگا تو دوسری جانب اس کی فوجیں کنٹرول لائن پار کرکے پاکستانی علاقوں پر قبضے کی ناپاک جسارت کررہی ہوں گی ۔تاریخ گواہ ہے کہ ارض وطن کی حفاظت گالیوں اور کوسنوں سے نہیں ہواکرتی بلکہ اس کے لیے میدان عمل میں نکلنا پڑتا ہے اور جان کے نذرانے پیش کرنے ہوتے ہیں ۔ اگر کوسنوں اور گالیوں سے کچھ ممکن ہوتا تو فوج میں گرانڈیل نوجوانوں کے بجائے ہیجڑے بھرتی ہوتے کہ وہ زیادہ مناسب طریقے سے یہ کام کرسکتے ہیں ۔ پاکستانی سرحد کے ساتھ کنٹرول لائن کے اُس پار ہوائی اڈوں کی تعمیر اور بھارتی فوجی مشینری کی نقل و حرکت بھارتی عزائم آشکار کرنے کے لیے کافی ہے ۔ بہتر ہوگا کہ پاکستان کے حقیقی اور مجازی حکمراں نوشتہ دیوار پڑھ لیں اور بھارت کو حقیقت میں دندان شکن جواب دینے کے لیے تیار ہوجائیں ۔ قوم ان کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہوگی۔ بھارت وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے نرم و نازک بیان سے باز آنے والا نہیں۔