ریاست اور فرد دونوں لازم و ملزوم ہیں‘ دونوں کا احترام قانون کی کتابوں میں تفصیل سے درج ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ کسی بھی انسان کی جان کعبہ کی حرمت سے بڑھ کر ہے‘ کوئی کسی کی ناحق جان نہیں لے سکتا‘ نبی رحمتؐ کا فرمان ہے جس کے ہاتھ اور زبان کے شر سے کوئی دوسرا انسان محفوظ نہیں وہ ہم میں سے نہیں۔ اس فرمان میں کوئی ابہام نہیں ہے‘ ہر کلمہ گو اس فرمان رسول اللہؐ کو ماننے والا ہے لیکن بہت سے کردار ایسے ہیں جنہیں یہ فرمان شاید بھولا ہوا ہے‘ ایسے کردار سرکاری دفاتر اور نجی دفاتر میں بھی ملتے ہیں۔ بات بات پر گالی دینا، تشدد پر اتر آنا حتی کہ کم تر درجے کے ملازم کے منہ پر تھپڑ دے مارنا‘ یہ کام وہی کرتے ہیں جنہیں اللہ اور رسولؐ کے فرمان کا خوف نہیں ہوتا اور ضرور کسی افسر کی شہہ ہوتی ہے‘ ایسی انفرادی مثالیں جہاں بھی ہو‘ وہاں کے ذمے دار کو ضرور اپنے گریبان میں جھانکنا ہوگا کیونکہ وہ کسی ایک شخص کا کسٹوڈین نہیں ہے بلکہ وہ ادارے کا کسٹوڈین ہے‘ ہمارے اداروں میں قاصد‘ نائب قاصد اور ٹیلی فون آپریٹرز بے چارے اکثر ایسے کسی بھی بدتمیز شخص کی جانب سے ایسی صورت حال کا شکار رہتے ہیں‘ لیکن یہ تو انفرادی معاملہ ہے اس ملک میں تو آوے کا آوے ہی بگڑا ہوا ہے۔
عید سے قبل کراچی میں پی آئی اے کے طیارے کا نہایت افسوس ناک حادثہ ہوا‘ اس حادثے میں متعدد معصوم بچوں سمیت ستانوے قیمتی جانیں چلی گئیں‘ جہاز کا ملبہ اٹھارہ گھروں پر گرا‘ اور یوں گھروں کے مکین بھی حادثے کا شکار ہوئے‘ ان سب خاندانوں کو پہنچنے والے نقصان کی ذمے دار حکومت ہے‘ حادثے کے بعد المیہ یہ ہوا جو جاں بحق ہوجانے والوں میں سے متعدد کی میتیں‘ ان کے اصل لواحقین کے بجائے کسی دوسرے کو دے دی گئیں‘ اسے ہی ظلم کہتے ہیں‘ یہی ظلم ہے‘ مظلوم کی اللہ کے ہاں بہت قدر ہے اور اسی لیے تو اللہ نے اس کی آہ اور اپنے درمیان کوئی پردہ نہیں رکھا ہوا‘ لیکن انسانوں کو ضرور ظلم کرنا ہے‘ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ انسان دوسرے انسانوں پر ظلم کیوں کرتے ہیں‘ پاکستان انٹرنیشنل ائر لائن پی آئی اے نے بھی ظلم اور بد انتظامی کی انتہاء کردی ہے‘ پی آئی اے کی بد قسمت پرواز پی کے 8303 میں جاں بحق ہونے والوں میں پولانی فیملی کے لوگ بھی تھے‘ اپنے خاندان کو کھو دینے والے زین پولانی کے بھائی کمیل پولانی نے ایسی داستان سنائی ہے کہ دل ہل کر رہ گیا ہے‘ پی آئی اے کی نااہلی بلکہ ظلم سامنے آگیا ہے کمیل پولانی کے مطابق زین پولانی کے دو بچوں کی نماز جنازہ اور تدفین ہو گئی ہے جب کہ ان کے ایک بچے کی لاش حکام کی نااہلی کے باعث 11 دن قبل کسی اور خاندان کے سپرد کر دی گئی تھی جس کی اس خاندان نے تدفین بھی کردی ہے طیارہ حادثے میں جاں بحق ایک دوسری مسافر احمد مجتبیٰ کی میت کی شناخت بھی معمہ بنی ہوئی ہے ایک ہی میت پر کراچی اور لاہور کی ڈی این اے لیب کے مختلف نتائج سامنے آگئے ہیں لاہور لیب نے جس میت کی تصدیق کی کراچی لیب نے اسے کسی اور کی قرار دے دیا‘ لاہور لیب نے میت نمبر 112 کو احمد مجتبیٰ کی میت قرار دیا تھا اہل خانہ میت لینے پہنچے تو پتا چلا کہ میت لاہور روانہ کردی گئی ہے‘ کس کے حوالے کی؟ کون وصول کرے گا؟ اس کی سوفی صد تصدیق نہیں کی گئی اور سارا ملبہ اب لیبارٹریز پر ڈال دیا گیا ہے‘ یہ لیبارٹریز ہیں یا میکینک کی دکان کہ جہاں چھوٹے کام کرتے ہیں جو ہر بار جب بھی کسی گاڑی کا انجن کھولنے کے بعد جب بند کرتے ہیں تو ایک نٹ ان کے ہاتھ ہی بچ جاتا ہے‘ اسی طرح کے چھوٹے ہیں نجی دفتر ہوں یا سرکاری دفتر‘ کسی بڑے افسر کی شہہ پر دوسرے ملازمین کو بات بات پر گالی دیتے ہیں اور حتی کہ منہ پر تھپڑ بھی مار دیتے ہیں اور کسٹوڈین چونکہ خوشامد پسند ہے لہٰذا وہ صرف اپنی خوشامند ہی چاہتا ہے اسے اپنے چیلے کے سوا کسی دوسرے ملازم کی پروا ہی نہیں۔
ایک اور واقعہ بھی سن لیں، کچھ عرصہ قبل سینیٹ میں سینیٹر مشتاق احمد نے ایک سوال اٹھایا کہ پی ٹی اے کی جانب سے ایک غیر ملکی کمپنی کو انٹرنیٹ ٹریفک کی مانیٹرنگ کا ٹھیکہ دیا گیا ہے اس کی تصدیق کی جائے یا وضاحت کی جائے‘ اگر دیا گیا ہے تو تفصیلات مہیا کی جائیں‘ بہر حال یہ سوال بعد میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے کیبنٹ کے سپرد ہوا جہاں چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے کمیٹی کے ان کیمرہ اجلاس میں تفصیلات لیں اور بعد ازاں رپورٹ ایوان میں پیش کی سینیٹر مشتاق احمد کے ایک سوال کے جواب میں حکام نے صرف یہ بتانا تھا کہ مذکورہ کمپنی کا اسرائیل کے ساتھ براہ راست یا بلواسطہ تعلق ہے یا نہیں‘ قائمہ کمیٹی نے جو رپورٹ ایوان میں پیش کی اس میں ٹھیکہ دینے کی بات تو تسلیم کی گئی ہے مگر یہ بھی کہہ دیا گیا کہ جو تحفظات سوال میں اٹھائے گئے ہیں ان کا تفصیل سے جائزہ لیا جائے گا‘ قومی سلامتی کے ذمے دار ادارے ہی اس کا جائزہ لیں گے‘ ہمیں ریاست اور ان کے اداروں پر اندھا اعتماد ہے‘ یہ اعتماد ہونا بھی چاہیے‘ بلاشبہ یہ ہماری سلامتی کے لیے جان پر کھیل کر کام کرتے ہیں‘ لیکن یہاں صرف ایک سوال حکومت سے ہے کہ کیا وہ کوئی ایسا قانون بنانا پسند کرے گی کہ جس کے ذریعے کسی بھی لیبارٹیرز کی جانب سے غلط طبی رپورٹ جاری کرنے پر کوئی سزا دی جاسکے‘ یہاں تو ڈاکٹر لواحقین سے پہلے ہی لکھوا لیتے ہیں کہ مریض مرگیا تو ہمارا کوئی قصور نہیں ہوگا‘ حکومت کا کچھ فرض ہے یا نہیں‘ ان دنوں کیا ہورہا ہے‘ بہت سی لیبارٹریز کورنا ٹیسٹ کر رہی ہیں، کسی کا مثبت اور کسی منفی رزلٹ دے رہی ہیں‘ ایک جگہ رزلٹ مثبت ملتا ہے اور وہی رزلٹ کسی دوسری جگہ سے منفی مل رہا ہے‘ عوام لٹ رہی ہے اور حکومت کنارے پر کھڑی تماشا دیکھ رہی ہے‘ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ وہ بطور انتظامیہ اس وقت کسٹوڈین ہے کوئی لیبارٹری کا کسی مکینک کی دکان نہیں ہے۔