امریکا مت جائیو

635

امریکیوں کی مثال اس عورت جیسی ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ اس کا محبوب کوئی برا کام کر ہی نہیں سکتا۔ اسے آپ کٹا ہوا عضو یا بغیر سر کا جسم بھی ثبوت کے طور پر دکھا دیں پھر بھی وہ یہی کہے گی کہ اس کے محبوب نے یہ قتل کسی اعلیٰ مقصد کے لیے کیا ہوگا یا پھر اس کے ساتھ کوئی ایسا حادثہ پیش آیا ہوگاکہ ایسا کرنا ضروری ہوگیا ہوگا۔ کبھی وہ اسے انسانی غلطی قرار دے گی تو کبھی قسمت کا پھیر غرض یہ کہ وہ اپنے محبوب کو ہرگز قصوروار نہیں ٹھیرائے گی۔ کچھ اسی قسم کا یقین امریکی عوام امریکا پر رکھتے ہیں۔ جب سے دہشت گردی کی وبا نے نائن الیون کے بعد دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیا دنیا کا کوئی ایسا خطہ اور ملک نہیں جہاں کوئی نہ کوئی دہشت گرد تنظیم امریکا نے پیدا کرکے نہ دکھادی ہو۔ سوائے ایک ملک کے اور وہ ملک خود امریکا ہے جہاں کسی دہشت گرد تنظیم کے وجود کا دور دور کوئی امکان نہیں۔ مقام حیرت کہ اب امریکا میں بھی ایک دہشت گرد تنظیم نے جنم لے لیا ہے اور اس کا اعلان روس، چین اور کسی امریکا دشمن ملک نے نہیں خود صدر امریکا ڈونالڈ ٹرمپ نے کیا ہے۔ پچھلے ہفتے 2جون کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فسطائیت مخالف گروپ ’اینٹی فا‘ کو ’’دہشت گرد تنظیم‘‘ قرار دینے کا اعلان کیا ہے۔ ٹوئٹر پر انہوں نے اس فیصلے کا پیغام دیا۔
گزشتہ ماہ 25مئی کو امریکی ریاست منی سوٹا کے شہر منیا پولس میں ایک سیاہ فام شخص جارج فلوئیڈ کی ہلاکت کا واقعہ پیش آیا۔ جارج فلوئیڈ ایک سیاہ نسل امریکی تھا اس نے فلسطین سے تعلق رکھنے والے محمود ابو میالہ کی دکان سے کوئی چیز خریدی اور اسے بیس ڈالر اس کی قیمت ادا کی۔ ابو میالہ کو نوٹ جعلی لگا اس نے پولیس کو فون کردیا۔ پولیس موقع پر پہنچ گئی۔ پولیس نے فلوئیڈ کو پکڑا اسے کنکریٹ کے فرش پر منہ کے بل گرایا اور اس کی گردن پر اپنا گھٹنا رکھ دیا۔ دبائو سے فلوئیڈ کی سانسیں رکنے لگیں۔ وہ مسلسل کراہتا رہا پلیز میری سانسیں رک رہی ہیں۔ اپنا پیر ہٹائو میں سانس نہیں لے سکتا لیکن افسر نے اس کی گردن کو اپنے پیر سے دبائے رکھا۔ یوں فلوئیڈ دم گھٹنے سے مرگیا۔ فلوئیڈ کا دم کیا گھٹا پورے امریکا کا دم گھٹ گیا۔ کچھ لوگوں نے موبائل فون پر یہ منظر محفوظ کر لیا۔ ابو میالہ کی دکان کی بھی اینٹ سے اینٹ بجادی گئی۔ بعد میں تحقیق سے پتا چلا کہ فلوئیڈ کا دیا ہوا بیس ڈالر کا نوٹ اصلی تھا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ سے معلوم ہوا کہ پولیس افسر نے جارج کی گردن پر آٹھ منٹ چھیالیس سیکنڈ تک گھٹنا ٹیکے رکھا۔ تقریباً تین منٹ بعد ہی فلوئیڈ ہلاک ہو گیا۔ راہگیروں کی بنائی ہوئی ویڈیو چند گھنٹوں میں وائرل ہوگئی۔ ویڈیو کیا وائرل ہوئی پورا امریکا جل اٹھا۔
امریکا بھر میں اس ظلم کے خلاف پر تشدد مظاہرے شروع ہوگئے۔ جن کی وجہ سے امریکا کے چالیس شہروں میں کرفیو نافذ کردیا گیا تاہم لوگوں نے کرفیو کی ان پابندیوں کوگھاس کی پتی کے برابر بھی وقعت نہیں دی۔ نیویارک، شکاگو، فلا ڈیلفیا اور لاس اینجلس میں اینٹی رائٹ پولیس اور مشتعل مظاہرین کے درمیان جھڑپیں ہوئیں۔ پولیس نے ہجوم کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کے گولے فائر کیے، مرچوں سے بھری گولیاں فائر کیں۔ مختلف شہروں میں پولیس کی گاڑیاں نذر آتش کی گئیں۔ متعدد دکانوں اور شاپنگ مالز کو لوٹا گیا۔ واشنگٹن ڈی سی میں پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فلیش بینگ گرنیڈ استعمال کیے۔ کئی روز سے مظاہرین وائٹ ہائوس میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ مظاہرین نے جو کتبے اٹھا رکھے ہیں ان پر ’’دہشت گرد اندر ہے‘‘ کے نعرے درج ہیں۔ اشارہ صدر ٹرمپ کی ہے۔ جب کہ جارج فلوئیڈ کے آخری الفاظ ’’میں سانس نہیں لے سکتا‘‘ مظاہرین کا مقبول نعرہ بن گیا ہے۔
امریکا تمام شہریوں کو برابر کے حقوق دینے کا دعویٰ کرتا ہے۔ لیکن یہ محض نعرہ ہی ہے۔ سیاہ فاموں، ہسپانویوں اور نائن الیون کے بعد مسلمانوں سے ظالمانہ سلوک امریکا میں عام ہے۔ ساٹھ کی دہائی تک سیاہ فام گرین کارڈ سے بھی محروم تھے۔ سیاہ فاموں نے بڑی قربانیاں دے کر اپنے لیے قانونی حقوق حاصل کیے۔ لیکن ان حقوق کو امریکی اداروں اور حکومتوں نے ابھی دل سے تسلیم نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ معمولی معمولی جرائم پر سیاہ فاموں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ٹھونس دیا جاتا ہے۔ نائن الیون کے بعد ہر مسلمان بھی امریکا میں دہشت گرد تصور کیا جاتا ہے۔ امریکی حکام نے ان ہنگاموں کی ذمے داری کے حوالے سے متضاد بیانات دیے ہیں اور عندیہ دیا ہے کہ ’غیر ملکی عناصر‘ بھی اس میں ملوث ہیں۔ ہفتے کے روز ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے منی سوٹا کے گورنر ٹم والٹز نے الزام لگایا کہ غیر ملکی عناصر، سفید فام نسل کی بالا دستی پر یقین کرنے والے گروہ اور ڈرگ مافیا ان ہنگاموں کے پیچھے ہیں۔ ٹوئٹر پر صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’اینٹی فا کی سربراہی میں چند انتشار پسند‘ اور ’انتہائی بائیں بازو کے انتشار پسند‘ عناصر امریکی شہروں میں ہنگاموں کے ذمے دار ہیں۔ انہوں نے مزید تفصیلات اور ثبوت نہیں دیے۔ امریکا کے محکمہ قانون کی سابق اعلیٰ عہدے دار میرے میک کورڈ نے کہا کہ ’اس وقت ایسا کوئی قانونی نہیں ہے جس کے تحت ایک ملکی تنظیم کو دہشت گرد قرار دے دیا جائے‘۔ انہوں نے مزید کہا: ’ایسا کرنے کی کوئی بھی کوشش امریکی آئین کی پہلی ترمیم کے حوالے سے خدشات پیدا کرے گی‘۔
حقیقت یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام دنیا بھر میں ناکامی کی بدترین شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔ ستمبر 2011 میں occupy wall street movement معمولی تحریک نہیں تھی۔ یہ سرمایہ داریت کی حقیقت آشکار کرتی ایک زبردست تحریک تھی۔ اس مہم کا صرف ایک نعرے کے تیور دیکھیے we are the 99percent۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام کے دولت کے چند ہاتھوں میں ارتکاز اور معاشی عدم مساوات کے خلاف اتنی بڑی مہم تھی کہ اگر اسے بدترین ظلم کے ساتھ نہ دبایا جاتا تو یہ مہم یورپ کے سیکڑوں شہروں تک پھیل جاتی۔ اسی طرح فرانس کی yellow vest movement ہو جو سال ہونے کو آرہا ہے فرانس میں ظالمانہ ٹیکسوں، پٹرول کی قیمتوں میں اضافے اور مہنگائی کے خلاف پر تشدد رنگ لیے جاری ہے یا پھرجارج فلوئیڈ کی ہلاکت کے بعد black lives matter (سیاہ فاموں کی جان کی بھی اہمیت ہے) یہ تمام مہمات اس بات کی علامت ہیں کہ لوگ نہ صرف اس نظام سے مطمئن نہیں ہیں بلکہ اس نظام کے ہر پہلو کے خلاف ان میں غم وغصہ بڑھتا جارہا ہے۔
بیش تر ممالک میں یہ خیال راسخ ہوتا جارہا ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام نہ تو بحیثیت فرد ان کی بھلائی کے لیے کوئی کردار ادا کررہا ہے اور نہ اجتماعی سطح پر انہیں رنگ، نسل اور قومیت کے اعتبار سے انصاف مہیا کررہا ہے۔ لوگوں کا اپنے جمہوری نمائندوں پولیس اور سیکورٹی فورسز پر اعتماد نہیں رہا۔ سرمایہ دارانہ نظام اکثریت کے مفاد کے بجائے اس حقیر سرمایہ دار اقلیت کا نمائندہ بن کر رہ گیا جس نے پورے نظام پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس پورے معاملے میں صدر ٹرمپ کا کردار ایک ایسے شیطان کا کردار نظر آتا ہے جو اس صورت حال کو گوری اکثریت کو اپنی جانب مائل کرنے کے لیے اور ووٹ بینک میں اضافہ کرنے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اپنی ٹویٹ میں اس نے مظاہرین کو بد معاش کہہ کر پکارا جو جارج فلوئیڈ کی یاد کی بے عزتی کررہے ہیں۔ اس نے بدنام زمانہ نسل پرست میامی پولیس چیف کے 1967 کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا ’’جب لوٹ مار شروع ہوگی تو ساتھ ہی فائرنگ بھی شروع ہو جائے گی‘‘۔ بہر حال امریکی حکام ’’یہ بلوہ نہیں انقلاب ہے‘‘۔ سے بھی نمٹ ہی لیں گے۔ اس تحریک کی اہمیت اور اس میں پو شیدہ خطرات سے امریکی حکام اچھی طرح واقف ہیں۔ کورونا وائرس سے ہونے والی عظیم بے چینی سے امریکی حکمران طبقہ سرمایہ داری کے گہرے ہوتے بحران کی وجہ سے بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی کا مقابلہ کرنے کے لیے خود کو پہلے ہی تیار کر چکا تھا۔ بہرحال امریکا اب کسی کا خواب نہیں رہا۔ امریکا اس قابل نہیں رہا جہاں جانے کی تمنا کی جائے۔ امر یکا مت جائیو۔