فوج اور حکومت ایک پیج پر

418

محمد سمیع گوہر
وزیر اعظم پاکستان عمران خان اپنی تقاریر میں جو ایک بات جو وہ بار بار دہراتے چلے آرہے ہیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یہ بات وہ مسلسل دہرانے کی ضرورت کیوں محسوس کرتے ہیں؟ اپنی جگہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ 1973کے آئین کے مطابق فوج کا محکمہ انتظامیہ کا ایک ماتحت ادارہ ہے جس کا انچارج وفاقی وزیر دفاع ہوتا ہے تو پھر حکومت اور فوج ایک پیج پر ہونے کا تاثر کیوں بار بار دیا جاتاہے۔ کسی بھی ملک میں فوج کا کام ملکی سرحدوں کا تحفظ کرنا ہوتا ہے اور فوجی سربراہان کا تقرر وزیر اعظم کرتا ہے جو ایک سیاستداں ہوتا ہے جسے عوام کے ووٹوں کے ذریعہ منتخب کیا جاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان دوسرے لفظوں میں عوام کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ان کی حکومت کو فوج کی مکمل حمات حاصل ہے اور اس سے ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے جو حکومت کا ایک ماتحت ادارہ ہے۔ یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ حکومت کو اپنا اقتدار قائم رکھنے کے لیے ملک کے دیگر آئینی اداروں کی حمایت اور تعاون کی ضرورت نہیں ہوتی ہے جس کے لیے وہ صرف اپنے ہی ایک ماتحت ادارے کی حمایت کا باربار اعادہ کرتے چلے آتے ہیں۔ وزیر اعظم عمران خان کے اس دعوے سے ہماری سیاسی تاریخ کی ایک تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ کوئی بھی سول منتخب حکومت فوج کی حمایت حاصل کیے بغیر اپنی مدت پوری نہیں کرسکتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کے اس دعوے کو سمجھنے کے لیے ہم کو پاکستان کی سیاست میں سول اینڈ ملٹری تعلقات کی تاریخ پر نظر ڈالنی ہوگی تاکہ ہم اس معاملہ کی تہہ تک پہنچ سکیں۔ پاکستان کی سیاست میں سب سے اہم اور طاقتور جس پس پردہ قوت کو سمجھاجاتا ہے اسے اسٹیبلشمنٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے، یہ کوئی آئینی ادارہ نہیں بلکہ پردہ کے پیچھے ایک طاقتور ادارہ ہے جو کسی بھی سیاسی پارٹی کو اقتدار میں لانے اور اسے معزول کرنے کا ذمہ دار سمجھی جاتی ہے۔ ملکی سیاست میں دراصل سول اینڈ ملٹری بیورو کریسی کے اتحاد کو اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے جو پاکستان بننے کے چند سال بعد ہی وجود میں آگئی تھی جس کا پس منظر یہ ہے پاکستان کا قیام 14اگست 1947 کو عمل میں آیا، قائد اعظم محمد علی جناح نے اسی روز ملک کے پہلے گورنر جنرل کا حلف اٹھایا اور اگلے روز پارلیمانی نظام کے تحت ملک کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان مرحوم کی کابینہ نے حلف لیا۔ اس کابینہ میں فنانس کے شعبہ کے ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ غلام محمد اور ایک ریٹائرڈ فوجی افسر میجر جنرل اسکندر مرزا بھی شامل تھے۔ درحقیقت یہ پاکستان کی سیاست میں سول اینڈ ملٹری بیوروکریٹس کی طاقت کا نقطہ آغاز تھا جس نے قومی سیاست میں سازشیں، سیاستدانوں کو آپس میں لڑانے، انہیں کرپشن کی راہ دکھا کر اپنے اشاروں پر چلانے کے لیے ایک اہم رول ادا کیا تھا۔ 1953 میں غلام محمد ملک کے تیسرے گورنر جنرل مقرر ہوئے جنہوں نے نہ صرف اس وقت کے وزیر اعظم اور تحریک پاکستان کے ایک اہم رہنما خواجہ ناظم الدین کی حکومت کو برطرف کیا بلکہ آئین ساز اسمبلی کو بھی توڑ دیا تھا۔ سندھ ہائی کورٹ کے جسٹس مولوی تمیز الدین نے گورنر جنرل کے احکامات کو غیر قانونی قرار دیا جبکہ عدالت عظمیٰ کے جسٹس منیر نے گورنر جنرل کے اقدام کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔ یہی وہ سیاہ دور کا آغاز تھا جب پاکستان کی قومی سیاست میں سیاستدانوں کو کمزور کرنے کا عمل اور اسٹیبلشمنٹ کو مضبوط ہونے کا موقع ملا تھا۔ گورنر جنرل غلام محمد کے بارے میں یہ مشہور تھا کہ انہیں غصہ بہت آتا تھا، وہ دو سال حکمراں رہے، وہ وزیر اعظم اور وزیروں کے مشورے مسترد کرکے اپنے احکامات جاری کرنے کے عادی تھے اور وہ وزیروں اور اعلیٰ افسران کو گالیاں تک دینے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ 1955 میں غلام محمد کے انتقال پر میجر جنرل اسکندر مرزا چوتھے گورنر جنرل مقرر ہوئے تھے جنہوں نے 23مارچ 1956کو ملک کے پہلے آئین پر دستخط کرکے ملک کے پہلے صدر کا حلف لیا اور تھوڑے ہی عرصہ بعد سول حکومت کو برطرف کرکے فوج کے کمانڈر جنرل ایوب خان سے ملک میں پہلا مارشل لا نافذ کرکے آئین کو معطل کردیا تھا مگر بعد میں وہ خود جنرل ایوب خان کے ہاتھوں اقتدار سے محروم کردیے گئے تھے۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے جنرل محمد ایوب خان جو 1951 میں کمانڈر انچیف پاکستان آرمی بنائے گئے تھے 1953 سے 1958 کے دوران وفاقی کابینہ میں وزیر دفاع بھی بنادیے گئے تھے جو اپنی وردی میں کابینہ کے اجلاسوں میں شرکت کیا کرتے تھے۔ اں حالات میں یہ اندازہ بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان بننے کے پہلے گیارہ سالہ پارلیمانی دور حکومت کے دوران اسٹیبلشمنٹ یعنی سول اینڈ ملٹری بیورو کریسی کس مضبوطی سے اپنے پنجے گاڑ چکی تھی۔
پاکستان کی سیاست کا دوسرا دور 1958 سے 1968 تک جنرل ایوب خان کو دس سالہ صدارتی نظام حکومت سے شرع ہوکر اختتام پزیر ہوا۔ اس دور میں پہلے تو سیاستدانوں کو نااہل قرار دے کر آئوٹ کیا گیا اور پھر جب انہوں نے 1962 میں اپنا بنایا ہوا آئین بناکر کنوینشن مسلم لیگ کے تحت بنیادی جمہوریت کے نظام کے تحت اسمبلیوں اور خود کو صدر منتخب کرایا تو کنوینشن مسلم لیگ میں شامل ہونے والے سیاستدان اہل قرار دے دیے گئے تھے۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ جب بھی ملک میں مارشل لا نافذ کیا گیا سیکڑوں کی تعداد میں فوجی افسران کو مارشل لا ڈیوٹی کے نام پر ان سول محکموں میں تعینات کردیا جاتا تھا جو اپنی بدانتظامی اور کرپشن میں ایک اچھی شہرت رکھتے تھے۔ بعد میں دیکھا گیا کہ بیش تر فوجی افسران سول محکموں کی چکا چوند سے متاثر ہوکر فوج سے ریٹائر منٹ لے کر سول اداروں سے ہمیشہ کے لیے وابستہ ہوتے چلے گئے اور یوں سول بیوروکریسی میں فوج سے آنے والے افسران حاوی ہونا شروع ہوگئے جبکہ سول بیوروکریسی کمزور ہوتی چلی گئی۔ دوسرے یہ کو فوجی حکومتوں کے ادوار میں سول بیوروکریٹس کو ایک بڑی تعداد میں کرپٹ اور ناہل قرار دے کر ملازمتوں سے برطرف کرنے کا بھی سلسلہ شروع کردیا گیا تھا۔ جنرل ایوب خان کی حکومت بھی دراصل اسٹیبلشمنٹ ہی کی حکومت تھی جس میں بیوروکریسی طاقت ور اور سیاستداں دوسرے درجہ کے اتحادی ہونے کی بنا پر کمزورہوچکے تھے۔
جنرل ایوب نے اپنے دس سالہ دور حکومت کے بعد صدارت سے مستعفی ہوکر اپنا اقتدار اپنے ہی بنائے ہوئے آئین کو نظراندازکرتے ہوئے اسپیکر قومی اسمبلی کے بجائے فوج کے کمانڈر انچیف جنرل یحیٰ خان کے سپرد کردیا تھا جن کے دوسالہ اقتدار کے دوران پاکستان ایک بار پھر تقسیم ہوگیا اور بنگلا دیش قائم ہوگیا۔ ان کے دور اقتدار کی اچھی بات یہ تھی کہ ون یونٹ ختم کردیا گیا تھا اور چار صوبوں کا قیام عمل میں لایا گیا اور ملک میں پہلی بار بالغ رائے دہی کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد 1970 میں ہوا تھا جس کے تحت ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی مغربی پاکستان میں اور عوامی لیگ نے شیخ مجیب الرحمان کی قیادت میں مشرقی پاکستان میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئیں تھیں۔ انتخابات کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال میں پیپلز پارٹی کے چئیرمین ذوالفقار علی بھٹو اور فوج تو ایک پیج پر آگئے تھے لیکن عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمان نے ایک پیج پر آنے سے انکار کردیا تھا اور اس کا جو نتیجہ نکلا وہ ہمارے لیے ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہ تھا اور ہم قائداعظم کے پاکستان کو ٹوٹنے سے نہ بچاسکے۔
1971میں بنگلا دیش کے قیام کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نیا پاکستان کے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر، صدر اور پھر وزیر اعظم بنے اور چھ سال برسراقتدار رہے، ملک ٹوٹنے سے قبل وہ اور فوج ایک پیج پر تھے لیکن وہ اپنے اقتدار میں آنے کے کچھ ہی عرصہ بعد وہ ایک فوجی بغاوت کو ناکام بنانے میں کامیاب رہے تھے مگر 1977 میں وہ اپنے ہی ایک پسندیدہ فوجی سربراہ جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ایک پیج پر نہ ہونے کی بنا پر اقتدار سے محروم ہوئے اور قتل کے ایک مقدمہ میں سزا پاکر پھانسی پر چڑھ گئے تھے۔ جنرل ضیاء الحق نے اپنے گیارہ سالہ اقتدار میں مسلم لیگ کی کوکھ سے جونیجو لیگ کی تشکیل کی اور سندھ کے ایک سیاستدان محمد خان جونیجو کو وزیراعظم بنوایا مگر وہ بھی زیادہ عرصہ فوج کے ساتھ ایک پیج پر نہ رہے اور برطرف کردیے گئے اور پھر مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف جنرل ضیاء الحق کے ساتھ ایک پیج پر آگئے تھے جس کی وجہ سے ان کو بھی وزیر اعظم بننے کا شرف حاصل ہوا۔ 1988میں جنرل ضیاء الحق کے طیارے کے ایک حادثہ میں ہلاکت کے بعد اگلے دس برس کے دوران ملک میں دو دو بار بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کو وزیر اعظم بننے کا موقع ملا مگر وہ آپس کی لڑائی کی بنا پر فوج کے ساتھ ایک پیج پر نہ آنے کی وجہ سے اقتدار سے معزول کردیے گئے تھے۔ 1999 سے 2008 پاکستان کے چوتھے فوجی جنرل پرویز مشرف کی حکومت رہی جس کے دوران چودھری شجاعت کی سربراہی میں ایک اور قائد اعظم مسلم لیگ بنائی گئی جس کے پہلے وزیر اعظم ظفراللہ خان جمالی فوج کے ساتھ زیادہ عرصہ ایک پیج پر نہ رہ سکے اور وزارت عظمیٰ سے محروم ہوئے پھر تین ماہ کے لیے چودھری شجاعت عارضی وزیر اعظم رہے اور پھر ایک ٹینوکریٹ شوکت عزیز وزیر اعظم بنائے گئے اور جنرل مشرف کے اقتدار کے خاتمہ تک ان کے ساتھ ایک پیج پر رہے۔ 2008 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی تیسری حکومت آصف علی زرداری کی زیر قیادت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے اپنی حکومت کی پانچ سالہ مدت پوری کرنے میں کامیاب رہی مگر اس عرصہ میں نواز شریف پوری یکسوئی کے ساتھ فوج کے ساتھ ایک پیج آچکے تھے۔ 2013 میں تیسری بار وزیر اعظم بننے کے بعد میاں نواز شریف اپنے آپ کو بہت طاقتور ہونے کی غلط فہمی کا شکار ہو کر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکرا گئے اور پاناما کیس میں سزا ہونے کے بعد ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگاکر ایک بار پھر اقتدار میں آنے کی حسرت لیے لندن میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ میاں نواز شریف کے چھوٹے بھائی اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف جو اب قائد حزب اختلاف بھی ہیں نے پچھلے دنوں اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 2018 کے انتخابات کے بعد ان کے ملک کا وزیر اعظم بننے کے معاملات اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ طے پاگئے تھے مگر ان کے بڑے بھائی میاں نواز شریف کا ووٹ کو عزت دینے کا نعرہ انہیں لے ڈوبا اور وزارت عظمیٰ کا تاج عمران خان کو پہنادیا گیا تھا۔ اب صورتحال یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان میاں شہباز شریف کی جانب سے کسی بھی وقت اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مفاہمت ہوجانے کے خوف کی بنا پر لوگوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاست پر نظر رکھنے والے یہ بات اچھی طرح سمجھتے ہیں کس وقت کس حکمران کی چھٹی ہوجائے کچھ پتا نہیں ہوتا ہے۔
پی ٹی آئی کو قومی اسمبلی میں تین اہم سیاسی جماعتوں کی حمایت کی بنا پر مخلوط حکومت بنانے پر اقتدار ملا ہے اور دس سے بارہ اراکین کی حمایت تبدیل ہوجانے کے بعد عمران خان قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت سے محروم ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں اراکین پارلیمنٹ کی وفاداریاں تبدیل ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ سینیٹ کے چئیرمین کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی اکثریت ہونے کے باوجود کامیاب نہ ہوسکیں اور اکژیت کی شکست کا تماشا پوری قوم نے دیکھا اس لیے میاں شہباز شریف کس وقت بازی پلٹ سکتے ہیں کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ مسلم لیگ نون کے سربراہ میاں نواز شریف کے مقابلہ میں میاں شہباز شریف اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہمیشہ اچھے تعلقات قائم رکھنے کی شہرت رکھتے ہیں اس لیے وزیر اعظم عمران خان کو اپنے اتحادیوں کو یہ یقین دلانے کے لیے کے ان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں انہیں بار بار کہنا پڑتا ہے کہ پی ٹی آئی کی حکومت اور فوج ایک پییج پر ہیں۔
پاکستان میں منتخب سیاسی حکومتیں اپنے اقتدار کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی حمایت لینے پر کیوں مجبور ہیں اس کی دو بڑی وجوہات ہیں، ایک تو سیاسی جماعتوں میں خود ہی کوئی جمہوریت نہیں ہے ہر جماعت کا سربراہ تا حیات پارٹی قائد ہی رہتا ہے اور اس کے انتقال پر اس کا بیٹا یا بھائی قائد بن جاتا ہے، پارٹی کے عہدہ داروں کا انتخاب بھی پارٹی کا سربراہ کرتا ہے، عام انتخابات کے موقع پر قربانی دینے والے کارکنوں کو نظر انداز کرکے اپنی دولت اور طاقت کی بنیاد پر کامیاب ہونے والوں کو قومی و صوبائی اسمبلیوں کے الیکشن لڑائے جاتے ہیں جو اقتدار میں آ کر اگلے الیکشن کے لیے سرمایہ جمع کرنا میں مصروف رہتے ہیں اور کوئی سیاسی رہنما اپنی کرپشن پر کبھی شرمندہ بھی نہیں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں جتنی بھی منتخب حکومتیں اقتدار میں آئیں اپنی کرپشن، بدانتظامی اور نااہلی کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ناچنے پر مجبور رہتی ہیں اور یہ کھیل اب بھی جاری و ساری ہے۔