صرف برہمی اور بس!

368

وزیر اعظم عمران خان نے منگل کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عوامی مسائل پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے انہیں درست کرنے کی ہدایت کی ہے ۔ یہ عجیب و غریب بات ہے کہ عوام کو ایسے مسائل میں الجھادیا گیا ہے جو حقیقی ہیں ہی نہیں بلکہ مصنوعی طور پرپیدا کردہ ہیں ۔ ان کا علاج حکومت کے پاس ہی ہے کہ یہ مصنوعی مسائل اور بحران پیدا کرنے والوں سے نمٹا جائے ، اس کے بجائے حکومت بھی محض برہمی کا اظہار کرکے کام چلالیتی ہے ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ہمیں عدلیہ میں نظر آتی ہے کہ روز اخبارات کی شہ سرخیاں ہوتی ہیں کہ عدالت کا اظہار برہمی مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلتا ہے بلکہ بعض اوقات تو حالات مزید بدتر ہوجاتے ہیں ۔ پٹرول کی قلت ہی کودیکھ لیں کہ تیل تقسیم کرنے والی کمپنیوں نے بدمعاشی کی اور سوائے قومی کمپنی پاکستان اسٹیٹ آئل کے دیگر ساری کمپنیوں نے تیل کی پٹرول پمپوں کو فراہمی ہی روک دی ۔ اس کا نتیجہ وہی نکلا جو نکلنا چاہیے تھا یعنی عوام سارے کام چھوڑ کر پٹرول کی طویل قطاروں میں کھڑے ہیں۔یہ مصنوعی قلت پیدا کرنے والے کوئی ڈھکے چھپے لوگ نہیں ہیں مگر وزیر اعظم ان کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کے بجائے اسی طرح اظہار برہمی کرتے ہیں جس طرح سے ایک عام آدمی اظہار بے بسی کرتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ وزیر اعظم عمران خان جب کوئی راست اقدام کرنے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں اور انہیں ہر مافیا املا کرواتی ہے اور وہ اس املا کو من و عن تسلیم بھی کرلیتے ہیں تو پھر اظہار برہمی بھی کیوں کرتے ہیں ۔ دنیا بھر میں پٹرول اسٹاک کرنے کی جگہ نہیں رہی مگر پاکستان میں پٹرول مافیا نے الٹا چکر چلایا ہوا ہے ۔ اب کہا جارہا ہے کہ پٹرول کمپنیوں کے املا کو تسلیم کرتے ہوئے حکومت پٹرول کی قیمتوں کو مقرر کرنے کا اختیار واپس لے کر یہ اختیار بھی پٹرول کمپنیوں کو دے دے گی ۔ پہلے ہی حکومت پٹرول کمپنیوں کے املا پر چلتے ہوئے بلند سطح پر قیمتیں رکھے ہوئے ہے ، اب مزید قیمتوں کے تعین کا کام بھی ان کے ہی حوالے کیا جارہا ہے ۔ اس کے نتائج کیا نکلیں گے ، اس کے لیے عبقری ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس وقت ہائی اوکٹین اور فرنیس آئل کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار ان پٹرول کمپنیوں کے پاس ہی موجود ہے ۔ پوری دنیا میں پٹرول کی قیمتیں دھڑام سے نیچے آگریں مگر پاکستان کی پٹرول مافیا نے ہائی اوکٹین کی قیمت 160 روپے فی لیٹر سے ایک پیسہ بھی کم نہیں کی ۔ اب اگر تیل کی قیمتیں مقرر کرنے کا اختیار ان تیل کمپنیوں ہی کو دے دیا گیا تو یہ پاکستانی عوام کے ساتھ وہی سلوک کریں گی جو کے الیکٹرک کراچی کے شہریوں کے ساتھ کررہی ہے ۔ اس وقت لاک ڈاؤن کی وجہ سے بجلی کی کھپت کم ترین سطح پر ہے مگر کے الیکٹرک لوڈ شیڈنگ والے علاقوں میں سات تا نو گھنٹے کی یومیہ لوڈ شیڈنگ کررہی ہے جبکہ لوڈ شیڈنگ سے مستثنیٰ علاقوں میں بھی دو تا تین گھنٹے یومیہ لوڈ شیڈنگ کی جارہی ہے ۔ اس پر زاید بلنگ اور گزشتہ مہینوں کی ایڈجسٹمنٹ کے نام پر لوٹ مار کا سلسلہ الگ سے جاری ہے۔ کیا پاکستان میں ہر ملٹی نیشنل کمپنی کو یہ اختیار دے دیا گیا ہے کہ وہ پاکستان کے شہریوں کو جس طرح سے چاہے لوٹے ، نہ صرف انہیں کچھ کہا نہیں جائے بلکہ اگر عوام احتجاج کے لیے باہر نکلے تو سرکار پولیس اور دیگر اداروں کے ذریعے لٹیروں کا تحفظ کرے گی اور احتجاجی شہریوں کو گرفتار کرنے کے علاوہ شدید تشدد کا نشانہ بھی بنائے گی ۔ مزید افسوس کی بات تو یہ ہے کہ وطن عزیز میں ایک بھی ایساادارہ نہیں ہے جہاں پر صارفین شکایت کرسکیں اور ان کے حقوق کا تحفظ ہوسکے ۔ اسپتالوں کو ریگولیٹ کرنے کے لیے ہیلتھ کیئر کمیشن کے نام سے ادارہ بنایا گیا تو پتا چلا کہ اس کا کام صرف نجی اسپتالوں سے بھتے کی وصولی ہے ۔ اسی طرح کھانوں کی کوالٹی کے لیے فوڈ کنٹرول اتھارٹی بنائی گئی تو پتا چلا کہ اس کے پاس نہ تو مطلوبہ تعداد میں عملہ ہے اور نہ لیبارٹری سمیت وسائل مگر اس کا کام بھی سارے ہی معروف ریستورانوں سمیت فٹ پاتھ پر بیٹھے ڈھابوں تک سے بھتا وصول کرنا ہے ۔ پشاور ہائی کورٹ نے بھی اپنے ریمارکس میں کہا ہے کہ لوگ پٹرول کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں مگر حکومت عوام کو پٹرول بھی نہیں دے سکتی ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کے عوام اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے کس فورم پر جائیں کہ ہر فورم پر صرف اور صرف اظہار برہمی ہے ۔ حکومت نے گزشتہ پونے دو برس میں جو کارکردگی دکھائی ہے ، اس کے نتائج سب کے ہی سامنے ہیں ۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے بھی اس طرف توجہ دلائی ہے کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ 2020 میںدنیا بھر میں سب سے زیادہ مہنگائی پاکستان میں رہی ۔ اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے حکومت کی توجہ محض قرض لینے اور انہیں ٹھکانے لگانے پر رہی ۔ عمران خان نیازی نے پاکستان کی تاریخ میں قلیل ترین مدت میں سب سے زیادہ قرض لینے کا ریکارڈ بنایا ہے ۔ ان کے دور حکومت میں کوئی نیا ترقیاتی کام ہونا تو دور کی بات ہے ، گزشتہ دور حکومت میں شروع کیے گئے ترقیاتی کام ہی مکمل نہیں ہوپائے ۔ پشاور کا بی آر ٹی منصوبہ تو اب ضرب المثل بن چکا ہے مگر مجال ہے کہ حکومت میں شامل کسی فرد کو ذرا بھی شرمندگی ہو ۔ اسی طرح کراچی میں اورنج لائن اور گرین لائن کے منصوبے کھٹائی میں پڑے ہوئے ہیں ، اس کی وجہ شہر کی اہم شاہراہیں یا تو کھدی ہوئی ہیں یا پھر بند ہی کردی گئی ہیں اور عوام گڑھوں اور تنگ راستوں سے گزر کر آمدو رفت پر مجبور ہیں مگر کسی کے کان پر جوں نہیں رینگ رہی ۔ عدالت عظمیٰ ہر مرتبہ کراچی میں سرکولر ٹرین چلانے کے لیے ڈیڈ لائن دیتی ہے مگر انتظامیہ اسے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتی ہے ۔ اسی طرح کراچی میں تجاوزات کے خاتمے اور خصوصی طور پر ملٹری لینڈ کے زیر انتظام زمین کے غلط استعمال کے خاتمے کے لیے عدالت عظمیٰ نے واضح طور پر دسیوں مرتبہ احکامات جاری کیے مگر یہاں بھی وہی معاملہ ہے کہ زمیں جنبد نہ جنبدگل محمد ۔ کون سا بحران ہے جس نے موجودہ دور میں سر نہیں اٹھایا ۔ آٹے کا بحران ، چینی کا بحران ، پٹرول کا بحران ، بجلی پیدا کرنے والی نجی کمپنیوں کی بدمعاشی وغیرہ وغیر ہ ۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ جتنا حکومت کسی بحران کا نوٹس لیتی ہے ، وہ بحران حل ہونے کے بجائے مزید شدت اختیا رکرلیتا ہے ۔ چینی کے بحران ہی کو دیکھ لیں کہ اس کے کسی مجرم کابال بینکا ہونا تو دور کی بات ہے چینی کی قیمتوں میں ہر سرکاری قدم کے ساتھ اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ کچھ یہی صورتحال آٹے کے ساتھ رہی اور اب ایسے قرائن ہیں کہ یہی صورتحال پٹرول بحران کے ذمہ داروں کے ساتھ ہوگی ۔ یعنی ان ذمہ دار افراد کو سزا تو دور کی بات ہے پٹرول کی قیمتوں پر سے سرکاری کنٹرول ہٹا کر انہیں مزید نواز دیا جائے گا ۔ بہتر ہو گا کہ عمران خان نیازی اس بات کا باقاعدہ اعلان ہی کردیں کہ پاکستان میں عوام کی نہ تو کوئی نمائندہ حکومت ہے اور نہ ہی پاکستانی عوام مقتدر ہیں بلکہ یہاں پر ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت ہے ۔ اس کا کم ازکم یہ فائدہ ضرور ہوگا کہ عوام کو اس بات کا علم ہوجائے گا کہ ان کے مسائل کا ذمہ دار کون ہے اور انہیں کس کے خلاف اپنی احتجاجی مہم کو منظم کرنا چاہیے ۔ موجودہ صورتحال سے عمران خان نیازی کے سلیکٹروںکی اہلیت پر بھی سوال اٹھ رہے ہیں ۔ بہتر ہوگا کہ وہی عمران خان نیازی کو کوئی اہل اور محب وطن ٹیم جمع کرکے دیں ۔ اور کچھ کریں یا نہ کریں مگر ملک میں کوئی ایسا نظام ضرور بنادیں جس میں صارفین کے حقوق کا تحفظ ہوسکے ۔ اگر صرف یہی ایک کام کرلیا جائے تو عوام کے 80 فیصد مسائل خود بہ خود حل ہوجائیں گے ۔ عوام کو حزب اختلاف سے بھی شدید مایوسی ہوئی ہے کہ ان کا کام صرف اپنے کرپٹ لیڈروں کو جیل سے باہر رکھنا رہ گیا ہے ۔ عوام کے ساتھ کیا ہورہاہے ، ملک کی سالمیت کو کیا خطرات ہیں ، انہیں اس سے کوئی دلچسپی ہی نہیں رہ گئی ہے ۔