جھونپڑی کی سربلندی

452

بہت پرانی بات ہے ایک ادبی بزم میں ایک غزل کی بہت تعریف کی گئی اجلاس کے بعد ہم نے غزل کے دو اشعار سنا کر کہا یہ مسروقہ ہی نہیں دو خوب صورت اشعار کی تضحیک بھی ہیں۔ بحث کے دوران کیوں نہیں بولے جمیل بھائی نے پوچھا جو لوگ عزت کرتے ہوں، ادب سے پیش آتے ہوں، اپنی ہی غلطی پر معذرت کر لیتے ہوں ان کی تذلیل کرنا انتہائی گھٹیا ذہنیت کی غماز ہے۔ اس بچے کی بھی عزت اس لیے کرتے ہیںکہ وہ جہاں بھی ملتا ہے عزت و احترام سے پیش آتا ہے۔ تو پھر اسے سمجھاتے کیوں نہیں کہ پرانے شعرا کے اشعار پر ہاتھ صاف کرتے رہے تو ادب سے تمہارا صفایا ہوجائے گا۔ میں جانتا ہوں کہ تمہارا کالم یہ کام کردے گا۔ تم لکھتے وقت کسی کا لحاظ نہیں کرتے مگر تمہیں یہ حق کس نے دیا کہ کسی کو جھونپڑی ڈالنے سے روکو۔ مرزا غالب، میر تقی میر اور دیگر شعرا نے اقلیم سخن میں بڑی عظیم والشان عمارات تعمیر کی ہیں مگر اس کا یہ مقصد ہرگز نہیں کہ ہم اقلیم سخن میں جھونپڑی سے بھی محروم رہیں۔
منور جمیل بھائی ان دنوں بہت بیمار ہیں بہاولپور کی ادبی سرگرمیاں ٹھٹھر سی گئی ہیں جمیل بھائی اور ہمارے تعلقات کبھی خوشگوار نہ رہے انہیں ہمارے لانگ بوٹوں پر اعتراض تھا۔ جو رفتہ رفتہ ایک مسئلہ بن گیا تھا۔ مگر ہمارے درمیان عزت واحترام کا رشتہ برقرار تھا۔ اور ہم آج بھی ان کا تذکرہ بڑی عزت و احترام سے کرتے ہیں۔ قارئین گرامی سے گزارش ہے کہ وہ جمیل بھائی کی صحت یابی کے لیے دل سے دعا کریں۔ دل اور دعا کے درمیان ایک ایسا اٹوٹ رشتہ ہے جسے بارگارہ الٰہی میں بھی محترم سمجھا جاتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ جھونپڑی کو بھی سر بلند ہونے کا حق ہے۔ ان دنوں وزیر اعظم عمران خان کے ستارے فلمی ستاروں سے زیادہ روشن چمک دار ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ تعریفوں کی بھرمار کرنے والوں نے بڑی مہارت سے پھولوں میں سے کانٹے الگ کردیے ہیں۔ تحریک انصاف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ چینی اور آٹے کی کرپشن انکوائری کرکے وزیر اعظم عمران خان نے تاریخی کارنامہ سرانجام دیا ہے اس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے، کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ آج تک کسی پاکستانی حکمران کو یہ جرأت نہیں ہوئی کہ وہ بااثر اور با اختیار افراد کے خلاف تحقیقات کا حکم دے۔ یہ ایک اچھی بات ہے اور اس کی تعریف نہ کرنا بہت بری بات ہے۔ مگر یہ سوال یہ ہے اس انکوائری کا کیا فائدہ ہوا عوام کو کیا ملا؟ چینی آٹے کی پرواز میں مزید تیزی آرہی ہے، کرپٹ لوگوں کی تجوریاں مزید بھر رہی ہیں، ان کے بینک اکائونٹ بڑھ رہے ہیں۔ کاش ہمارے ملک میں جھوٹ کی کوئی سزا ہوتی غلط بیانی کی جواب طلبی ہوتی۔
جہاں تک ہماری یاداشت کا تعلق ہے تو ہمیں صرف اتنا یاد ہے کہ صدر ایوب خان کا دور حکومت تھا اور ہم تعلیمی دور سے گزر رہے تھے جب صدر ایوب خان نے کرپٹ سیاست دانوں کے خلاف ایکشن لیا تھا قومی بد نصیبی یہ ہے کہ صدر ایوب خاں کو زمینی حقائق کے مطابق حکومت کرنے کا مزید وقت نہ ملا کچھ اوردن رہ جاتے تو آج وطن عزیز بھکاری نہ ہوتا۔ ایوب خان کے زمانے میں پاکستان دیگر ممالک کو قرضے دیا کرتا تھا اور آج ہم جھولی اٹھائے ہاتھ پھیلائے در بدر بھٹک رہے ہیں۔ چینی کا بحران ایوب خان کے زمانے میں بھی آیا تھا مگر شوگر مافیا کو عوام کا خون نچوڑنے کی کھلی چھوٹ نہیں دی گئی تھی۔ کہتے ہیں چینی کی فی کلو قیمت ایک دو روپے بڑھا دی جائے تو عوام کی جیبوں پر اربوں روپے کا بوجھ پڑجاتا ہے اور المیہ یہی ہے کہ شوگر مافیا کے ٹکڑوں پر پلنے والے حکمران کہتے ہیں ایک دو روپے بڑھنے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ چینی اور آٹے کا بحراں پیدا کرنے والوں کوکیوں نوازا جارہا ہے۔ کل ایک صاحب نے ہم سے سوال کیا کہ جو لوشن کورونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے لیے ہاتھوں پر لگایا جاتا ہے تو اس کا کوئی نقصان تو نہیں۔ ہم نے کہا احتیاط ضروری ہے کیونکہ جب لوشن ہاتھوں پر لگایا جاتا ہے تو کورونا وائرس کے نقصان سے تحفظ حاصل ہوتا ہے اس نے کہا کہ خود کو محفوظ رکھنے کے لیے بچے کو کیوں غیر محفوظ کیا جارہا ہے ہم نے وضاحت چاہی تو اس نے بتایا کہ کل اس کے ڈیڑھ سالہ بچے نے لوشن کی بوتل دیتے ہوئے اسے کھولنے کی ضد کی۔ بڑی مشکل سے اسے دوسری بوتل دے کر جان چھڑائی سوال یہ ہے کہ اگر بچہ لوشن کی بوتل کو کھول کر پی لیتا تو مفت کی پریشانی ہوتی ہم نے کہا کہ ادویات بچوں کی پہنچ سے دور رکھا کریں اور مطمئن ہوجائیں۔ وہ صاحب بہت غصے میں تھے کہنے لگے کہ یوں تو دن رات کورونا کورونا کرکے ذہنی مریض بنا دیا ہے مگر جو اہم احتیاط ہے اس کے بارے میں قطعاً کچھ نہیں بتایا جارہا ہے قارئین سے گزار ش ہے کہ ایسا حادثہ ہوجائے تو کیا کرنا چاہیے لوشن کے بارے میں بھی کچھ آگاہی فرما دیں تو مہربانی ہوگی۔