پیپلز پارٹی کی کل جماعتی کانفرنس

268

سندھ حکومت اور وفاقی حکومت کے بیانات کی ایک دوسرے پرگولا باری کو دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دونوں قیادتوں کو ایک دوسرے کے خلاف محض الزام تراشی سے دلچسپی ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اسلام آباد میں ہونے والے قومی اقتصادی کونسل کے اجلاس کو آن لائن کرنے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کرتے ہوئے اسے آئین کے خلاف قرار دیا ہے اور اسلام آباد کو خبردار کیا ہے کہ سندھ کو اسلام آباد کی کالونی سمجھ کر نہ چلایا جائے ۔ جمعرات کو پیپلزپارٹی کے تحت وزیر اعلیٰ ہاؤس میں ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس میں بھی وزیر اعلیٰ سندھ اور پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت کا لب و لہجہ بھی کچھ ایسا ہی تھا ۔ قومی اقتصادی کونسل کا اجلاس آن لائن کرنے پر سید مراد علی شاہ کا غصہ ناقابل فہم ہے کہ اس میں صرف سندھ کے وزیر اعلیٰ ہی کو آنے سے نہیں منع کیا گیاتھا بلکہ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو منع کیا گیا تھا ۔ اس طرح سے تو ایک غریب صوبے کے وسائل ضائع ہونے سے بچ گئے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ اور ان کی کابینہ ہر کام کو آن لائن کرنے کا مشورہ دے رہی ہے اب ایک اجلاس آن لائن ہوگیا تو اس میں قباحت ہی کیا ہے۔ اسی طرح پیپلزپارٹی سندھ کے تحت ہونے والی آل پارٹیز کانفرنس کو اصولی طور پر پیپلزپارٹی کے دفتر میں ہونا چاہیے تھا یا کسی اور جگہ جہاں کے اخراجات پیپلزپارٹی برداشت کرتی ۔ وزیر اعلیٰ ہاؤس میں یہ اجلاس منعقد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے اخراجات سرکاری خزانے سے ادا کیے گئے جو کہ عوام کے ٹیکسوںسے جمع کی گئی رقم میںخیانت ہے ۔ مذکورہ اجلاس کی کارروائی کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کو کوئی بھی کام کرنے سے دلچسپی نہیں ہے اور اس کا پورا زور اس پر ہے کہ وفاقی حکومت ہی سارے کام کرے ۔ پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت کو اٹھارویں ترمیم اس لیے پیاری لگتی ہے کہ اس کی وجہ سے اسے وفاق سے این ایف سی کی مد میں خطیر رقم حاصل ہوجاتی ہے ۔ اٹھارویں ترمیم کے تحت صحت و تعلیم صوبائی شعبے قرار پائے ہیں ۔ صحت کے جو وفاقی ادارے صوبے میں موجود تھے ، ان کی حالت صوبائی حکومت کی ماتحتی میں آنے کے بعد دگرگوں ہوگئی ہے ۔ پہلے سے صوبائی حکومت کی ماتحتی میںموجود اسپتال و دیگر اداروں کی حالت پہلے ہی ناگفتہ بہ ہے ۔ کورونا کی وبا کو آئے ہوئے تین ماہ سے زاید عرصہ گزرچکا ہے اور سیکڑوں ارب روپے کے فنڈز اس مد میں ادھر سے ادھر ہوگئے ہیں مگر مجال ہے کہ صوبے کے کسی ایک اسپتال میں اس حوالے سے کوئی کام ہوسکا ہو ۔ وزیراعلیٰ سندھ روز کورونا کے بارے میں ایک بیان جاری کرتے ہیں اور گنتی گن کر بتاتے ہیں کہ صورتحال مزید کتنی خراب ہوگئی ہے مگر کسی بھی اسپتال میں نہ تو ایک وینٹی لیٹر کا اضافہ کرسکے اور نہ آئی سی یو میں بستروںکا ۔ وہ گنتی کر کرکے بتاتے ہیں کہ ابھی کتنے وینٹی لیٹر اور آئی سی یو میں بستر خالی ہیں مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہر اسپتال نے مریضوں کو لینے سے انکار کردیا ہے اور مریض ایمبولینسوں میں محض اس لیے دم توڑ رہے ہیں کہ صوبائی حکومت کسی بھی شہر میں کورونا کے مریضوں کے لیے کوئی مرکزی سہولت فراہم نہیںکرسکی البتہ شہریوں کو ڈرا کر لاک ڈاؤن کرنے اور مزید فنڈز ہڑپ کرنے میں ضرور دلچسپی رکھتی ہے ۔ جو حکومت اپنے زیر انتظام اسپتالوں میں پانی کی فراہمی کو ممکن نہ بناسکتی ہو اور صفائی کی صورتحال پر توجہ نہ دے سکتی ہو ، وہ مزید کیا سہولتیں فراہم کرے گی ۔ اسپتالوں کی حالت زارکے بارے میں سندھ حکومت کے زیر انتظام کراچی کے سب سے بڑے اسپتال جناح اسپتال کی سربراہ نے ہی آئینہ دکھا دیا ہے ۔ حال ہی میں جناح اسپتال کی سربراہ ڈاکٹر سیمیں جمالی اور ان کے شوہر ڈاکٹر جاوید جمالی جو خود بھی جناح اسپتال میں پروفیسر ہیں ، بیمار پڑے تو انہوں نے جناح اسپتال کے بجائے کراچی کے ایک نجی اسپتال کا رخ کیا ۔ کیا سندھ کابینہ اور انتظامیہ کا کوئی اعلیٰ افسر صوبائی حکومت کے زیر انتظام کسی بھی اسپتال میں علاج کروانے کی ہمت کرسکتا ہے ۔ سرکاری اسپتالوںمیں بہترین ڈاکٹر موجود ہیں مگر اسپتالوں کی حالت انتہائی ابتر ہے جس کی وجہ سے ہر صاحب حیثیت فرد ان ہی ڈاکٹروں سے نجی اسپتالوں میں تو علاج کروانے کی خواہش رکھتا ہے مگر سرکاری اسپتال جانے کے نام سے ہی اس کی جان نکل جاتی ہے ۔ آل پارٹیز کانفرنس میں پیپلزپارٹی نے ٹڈی دل کے خلاف موثر کارروائی نہ کرنے پر بھی وفاقی حکومت مطعون کیا ہے ۔ وفاقی حکومت کی نااہلی اپنی جگہ مگر صوبائی حکومت کو ہی خود کوئی قدم اٹھا لینا چاہیے تھا ۔ ایک برس پہلے سے سب کو معلوم تھاکہ ٹڈیوں کی آفت آنے والی ہے تو پھر صوبائی حکومت کیوں حرکت میں نہ آئی کہ اس سے نقصان تو صوبے کا بھی ہونا تھا ۔ وزیر اعلیٰ سندھ اور گورنر سندھ نے اپنے سرکاری جہاز کیوں پلانٹ پروٹیکشن ڈپارٹمنٹ کے حوالے نہ کردیے کہ اس سے سندھ میں ٹڈیوں کی روک تھام کی جائے ۔ اس سلسلے میں بلوچستان کی حکومت سے کیوں رابطہ نہ کیاکہ اس آفت کو وہیں پر نابود کردیا جاتا ۔ سندھ حکومت این ایف سی ایوارڈ تو آبادی کے تناسب سے لینے کو ہر وقت تیار رہتی ہے مگر اسی فارمولے کے تحت اضلاع میں خرچ کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ اگر این ایف سی ایوارڈ کے تحت حاصل کی گئی رقوم کو اسی فارمولے کے تحت اضلاع میں خرچ کیا جائے تو صوبہ سندھ ایک ماڈل صوبہ بن سکتا تھا ۔ وزیر اعلیٰ سندھ بار بار وفاق پر کرپشن کا الزام لگاتے ہیں مگر وہ خود بھی شفاف نظام دینے میں ناکام رہے ہیں ۔ حیرت تو پیپلز پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ساری سیاسی پارٹیوں پر ہوتی ہے کہ کسی ایک پارٹی کے نمائندے نے وزیر اعلیٰ سندھ سے ان کی کارکردگی کے بارے میں سوال نہیں کیا ۔ اس کانفرنس میں ساری ہی پارٹیوں کی صوبائی قیادت موجود تھی جنہیں اصولی طور پر سندھ کے مسائل کے بارے میں آگاہی ہونی چاہیے تھی ۔ انہیں پیپلزپارٹی کی قیادت سے سوال کرنا چاہیے تھا کہ ان کی پارٹی مسلسل تین ادوار سے سندھ میں حکومت میں ہے ، خود سید مراد علی شاہ دو ادوار سے وزیر اعلیٰ ہیں تو پھر سندھ کی اس بری حالت کا ذمہ دار کون ہے ۔ کراچی جیسا میگاسٹی مسائل کا کیوں شکار ہے ، حیدرآباد، سکھر ، لاڑکانہ سمیت تمام ہی شہر صحت و صفائی اور تعلیم کی بنیادی ضروریات سے محروم ہیں ، انہیں نہ تو پینے کے پانی کی سہولت میسر ہے اور نہ ہی سیوریج کا کوئی نظام موجود ہے ۔ اسپتال کی عمارتیں خالی پڑی کھنڈر ہورہی ہیںاور اسکولوں کی عمارتیں اوطاق اور جانوروں کے باڑے میں تبدیل کردی گئی ہیں ۔ آخر ساری سیاسی پارٹیوں کے نمائندوں کو اس کانفرنس میں بات کرنے سے کس نے روکا تھا ۔ انہوں نے کیوں وزیر اعلیٰ سندھ کا احتساب نہیں کیا کہ وفاق تو مجرم ہے ہی مگر سندھ حکومت اس سے بڑی مجرم ہے کہ وہ سارے ہی فنڈز کھا گئی ۔ پندرہ اور بیس برس سے ترقیاتی اسکیمیں جاری ہیں اور آج تک مکمل نہیں ہوپائیں ۔ ہر برس بجٹ میں ایک ہی اسکیم کے لیے بھاری رقم مختص کی جاتی ہے اور پھر بھی کوئی ایک پروجیکٹ مکمل نہیں ہوپاتا ۔ پشاور کا بی آرٹی پروجیکٹ تو ایک پروجیکٹ ہے ، سندھ میں اس طرح کے تو درجنوں پروجیکٹ موجود ہیں ۔ یہ بہترین موقع تھا کہ ساری سیاسی پارٹیاں اس موقع کو غنیمت جانتیں اور وزیرا علیٰ سندھ اور پیپلزپارٹی کی صوبائی قیادت کا احتساب کرتیں ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی بھی ایک پارٹی کا نمائندہ کوئی ہوم ورک کرکے اس کانفرنس میں نہیںگیا تھا اور شایدکسی پارٹی میں اس کی اہلیت بھی نہیں تھی ۔ ساری پارٹیوں کے نمائندے مذکورہ کانفرنس میں پیپلزپارٹی کی ربر اسٹیمپ کے طور پر استعمال ہوئے اور معاملات محض نشستند، گفتند اور خوردند تک ہی محدود رہے ۔