داماد ہو تو ایسا…

435

محمد رضی الاسلام ندوی
رسول اللہؐ کے 3 داماد تھے۔ ابوالعاص (جن سے زینب منسوب تھیں)، عثمان (جن سے رقیہ اور ام کلثوم کا یکے بعد دیگرے نکاح ہوا) اور علی (جو فاطمہ کے شوہر تھے) رضی اللہ عنہم۔ ان میں سے ابوالعاص کا کردار بعض پہلوؤں سے بڑا مثالی تھا۔ اللہ کے رسولؐ نے ایک مرتبہ ان کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: ’’اس نے مجھ سے بات کی تو اسے پورا کیا اور مجھ سے وعدہ کیا تو اسے وفا کیا‘‘۔ (بخاری ،مسلم)
ابوالعاص ام المومنین سیدہ خدیجہ کے بھانجے (بہن ’ہالہ‘ کے بیٹے) تھے۔ اللہ کے رسولؐ نے اپنی سب سے بڑی بیٹی زینب کا نکاح ام المؤمنین کی خواہش پر ان سے کر دیا تھا۔ ابوالعاص کا شمار مکے کے بڑے تاجروں میں ہوتا تھا۔ وہ تجارت کے لیے شام جایا کرتے تھے۔ اللہ کے رسولؐ کی بعثت ہوئی تو سب سے پہلے سیدہ خدیجہؓ ایمان لائیں اور ان کے ساتھ ان کے بچے بھی، جن میں زینب بھی تھیں، جن کی شادی ہوچکی تھی۔ ابوالعاص تجارتی سفر سے واپس آئے تو بیوی نے اپنے ایمان لانے کی خبر دی اور یہ بھی بتایا کہ ’’میری امّی، سب بہنیں، چچا زاد بھائی علی اور دوسرے قریبی رشتے دار بھی ایمان لے آئے ہیں‘‘۔ ابو العاص پر کچھ اثر نہ ہوا۔ وہ اپنے کفر پر قائم رہے، لیکن خونی رشتے کی پاس داری میں کچھ کمی نہ آنے دی۔ رسول اللہؐ مکے میں ’الصادق و الامین‘ کے القاب سے مشہور تھے، لیکن بعثت کے بعد آہستہ آہستہ اہلِ مکہ کے رویّوں میں تبدیلی آتی گئی۔ وہ آپ کو بْرا بھلا کہنے لگے، آپ پر طرح طرح کے الزامات عائد کرنے لگے۔ کاہن، ساحر، شاعر، رشتوں میں دراڑیں ڈالنے والا اور نہ جانے کیا کیا کہنے لگے، لیکن ابوالعاص نے اپنی زبان بند رکھی۔ کچھ عرصے کے بعد مشرکینِ مکہ نے آپؐ کو پریشان کرنے کے لیے ان کو ورغلایا اور کہا: ’’تم زینب کو طلاق دے دو، مکے کی جس عورت سے بھی چاہو گے، تمھارا نکاح کروادیا جائے گا‘‘۔
ابوالعاص نے صاف انکار کردیا اور جواب دیا کہ جب مجھے اپنی بیوی سے کوئی تکلیف نہیں ہے تو میں اس کے باپ کی وجہ سے کیوں اسے طلاق دے دوں؟ دنیا کی کوئی عورت زینب کا بدل نہیں بن سکتی۔
مکی دور کے 13 سالہ عرصے میں زوجین میں کبھی کوئی منافرت پیدا نہیں ہوئی۔ شوہر اپنے کفر پر قائم رہا اور بیوی اپنے ایمان پر اور دونوں ہنسی خوشی زندگی گزارتے رہے۔ چنانچہ اللہ کے رسولؐ نے مدینہ ہجرت کی تو زینب کو اپنے ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں سمجھی۔ ہجرت کے دوسرے سال مسلمانوں اور مشرکینِ مکہ کے درمیان بدر کے مقام پر جنگ ہوئی۔ اس میں مشرکین کی طرف سے متعدد ایسے لوگ بھی شریک تھے جو قبائلی عصبیت یا سماجی دباؤ کی وجہ سے چلے آئے تھے۔ جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اور مشرکین کی طرف سے 70 لوگ قتل کیے گئے اور 70 قید ہوئے۔ ان قیدیوں میں اللہ کے رسولؐ کے چچا عباس اور داماد ابوالعاص بھی تھے۔ مدینہ میں انھیں عام قیدیوں کے ساتھ رکھا گیا اور انھیں کچھ بھی سہولت نہیں دی گئی۔ فیصلہ کیا گیا کہ قیدیوں کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ قیدیوں کی مالی اور سماجی حیثیت کو دیکھتے ہوئے فی قیدی ایک ہزار سے 4 ہزار درہم لینے کا فیصلہ ہوا۔ یہ خبر مکہ پہنچی تو قیدیوں کے عزیزوں نے قاصدوں کے ذریعے زرِ فدیہ بھیجنا شروع کیا۔ قاصد آتے، زرِ فدیہ پیش کرتے اور اپنے قیدی کو چھڑا لے جاتے۔
ایک شخص خدمتِ نبوی میں حاضر ہوا اور عرض کیا: ’’میں ابو العاص کا چھوٹا بھائی ہوں۔ ان کی بیوی نے انھیں چھڑانے کے لیے اپنا یہ زیور بھیجا ہے‘‘۔
’’بیوی؟ زینب؟ زیور؟‘‘ ’’یہ تو وہ ہار ہے جو خدیجہ نے اپنی بیٹی زینب کے نکاح کے وقت اسے تحفے میں دیا تھا۔ یہ ہار انھیں بہت عزیز تھا۔ بیٹی نے بھی اسے بہت سنبھال کر رکھا تھا۔ ماں کی نشانی تھی، اس لیے… لیکن شوہر کو قید سے چھڑانا بھی ضروری تھا۔ الگ سے کوئی مال تھا نہیں… اس لیے ماں کی محبت کی نشانی ہی کو قربان کرنا پڑا‘‘۔
ام المؤمنین خدیجہ کے ہار کو دیکھ کر اللہ کے رسولؐ جذبات سے مغلوب ہوگئے۔ آپؐ کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوگئے۔ گزشتہ تین دہائیوں کے مناظر آپ کے دماغ کی اسکرین پر تیزی سے گردش کرنے لگے۔ خدیجہ کی محبت، اطاعت شعاری، راہِ دعوت میں تائید وحمایت، دین کے لیے قربانی، بیٹی سے محبت، بھانجے سے اس کا نکاح، داماد کی شرافت، بیٹی کی بے بسی کہ شوہر کی محبت میں اپنی ماں کی نشانی کو قربان کردیا… چند لمحات میں رسولؐ کے ذہن میں نہ جانے کیا کیا باتیں آئی ہوں گی۔ آپ کو آب دیدہ دیکھ کر صحابہ پریشان ہوگئے۔ انھوں نے دریافت کیا: ’’اے اللہ کے رسولؐ! ہماری جانیں آپ پر قربان، کیا بات ہے؟‘‘
آپ نے فرمایا: ’’کیا تم لوگ اس بات کی اجازت دو گے کہ ابوالعاص کو بغیر فدیہ لیے چھوڑ دیا جائے اور ہار بھی واپس کردیا جائے؟‘‘
’’ہاں، اے اللہ کے رسولؐ! جیسا آپ چاہیں۔ ابو العاص چھوڑ دیے گئے، ہار واپس کردیا گیا، لیکن اللہ کے رسولؐ نے ان سے وعدہ لے لیا کہ وہ مکہ پہنچ کر فوراً زینب کو مدینہ بھیج دیں گے، اس لیے کہ اب مشرک اور مومن کا نکاح باقی نہیں رہ سکتا۔ ابوالعاص نے وعدہ نبھایا، مکہ پہنچ کر اپنے بھائی سے کہا کہ ’’وہ زینب کو بطن یا جج تک پہنچادیں، جہاں سے محمدؐ کے نمائندے انھیں مدینہ لے جائیں گے‘‘۔ مکہ والوں نے راستہ روکنا چاہا تو ابوالعاص کے بھائی نے دھمکی دی کہ ’’اگر کوئی آگے بڑھا تو میرے تیروں سے نہیں بچ سکے گا‘‘۔
ابوالعاص کی تجارتی سرگرمی پھر جاری ہوگئی۔ ہجرت کے چھٹے برس (صلح حدیبیہ سے 5 مہینے پہلے) وہ ایک تجارتی قافلے کے ساتھ اپنا سامانِ تجارت لے کر مکہ سے شام گئے۔ وہاں سے خوب نفع کما کر مکہ آ رہے تھے کہ مسلمانوں کی ایک فوجی ٹولی نے ان کے قافلہ پر حملہ کردیا۔ قافلے کے کچھ محافظین گرفتار ہوئے اور کچھ بھاگ کھڑے ہوئے۔ جو مالِ غنیمت ہاتھ آیا وہ مسلمانوں نے تقسیم کرلیا۔
ایک دن فجر کی نماز میں اللہ کے رسولؐ نے سلام پھیرا ہی تھا کہ پچھلی صف سے آواز آئی: ’’میں زینب ہوں… میں نے ابوالعاص کو پناہ دی ہے۔ اے مسلمانو! آپ بھی انھیں پناہ دے دیں‘‘۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’یہ میں کیا سن رہا ہوں؟ مجھے کچھ نہیں معلوم کہ ابو العاص کب آیا؟ لیکن مسلمانوں میں سے کوئی بھی، چاہے مرد ہو یا عورت، کسی کو پناہ دے تو تمام لوگوں کو اسے قبول کرنا چاہیے‘‘۔ تمام صحابہ بول پڑے: ’’اے اللہ کے رسول: ہم نے بھی پناہ دی‘‘۔
اللہ کے رسولؐ کا روئے انور مسرّت سے کِھل اْٹھا… آپ نے بیٹی سے فرمایا: ’’ابوالعاص کی خاطر تواضع کرو۔ وہ تمھارا خالہ زاد بھائی ہے، تمھارے بچوں کا باپ ہے۔ بس یاد رہے کہ اس سے اب تمھارا رشتہ باقی نہیں رہا‘‘۔
اللہ کے رسولؐ نے صحابہ کرامؓ سے فرمایا: ’’اگر تم لوگوں کی خوشی ہو تو ابوالعاص کا مال واپس کردو‘‘۔ صحابہ تیار ہوگئے۔ انھوں نے سارا مال واپس کردیا اور ابو العاص سے کہا: ’’کیا یہ اچھا نہ ہوگا کہ تم اسلام لے آؤ اور یہیں رک جاؤ‘‘۔ اس طرح تمھارے تاجر ساتھیوں کا بھی سارا مال تمھارا ہو جائے گا‘‘۔
ابوالعاص نے جواب دیا: میںنئے دین کا آغاز اپنے تجارتی شرکاء کو دھوکا دے کر کروں، یہ مجھے منظور نہیں۔
ابوالعاص اپنا مال لے کر مکہ واپس گئے۔ وہاں تمام لوگوں کا حساب بے باق کیا۔ پھر دریافت کیا: لوگو! بتاؤ ، اب میرے اوپر تمھارا کوئی بقایا تو نہیں ہے۔
لوگوں نے جواب دیا: ’’نہیں، ہمارا حساب صاف ہوگیا ہے‘‘۔ ابو العاص نے کہا: اب میں مسلمان ہوتا ہوں۔ (اور انہوں نے کلمہ پڑھا)
ابوالعاص مدینہ آگئے۔ اللہ کے رسولؐ نے ان کا استقبال کیا اور زینب سے ان کا رشتہ بحال کردیا۔ وہ مسلم اجتماعیت کا حصہ بن گئے، لیکن اس جوڑے کو از سرِ نو ازدواجی زندگی کی مسرتیں زیادہ دنوں تک حاصل نہ رہ سکیں۔ تھوڑے ہی عرصے کے بعد 8 ھ میں زینب کا انتقال ہوگیا۔ ابوالعاص ان کی جدائی برداشت نہ کرسکے اور 4 برس کے بعد 12ھ میں ان کی بھی وفات ہوگئی۔