حج و عمرے کے حوالے سے خواتین کے مسائل

247

سوال: مندرجہ ذیل صورتوں میں عورت کیا کرے اور اس پر کیا لازم آتا ہے: (1)عورت نے حج یا عمرے کا احرام باندھا اور ایام شروع ہوگئے، اگر عمرے کا احرام توڑتی ہے تو اس پر کیا لازم آئے گا، (2)اگر عمرے کے لیے مکہ مکرمہ پہنچی اور ایام شروع ہوگئے تو وہ کیا کرے، (3)اگر دورانِ حج منیٰ یا عرفات میں ایام شروع ہوگئے تو وہ کیا کرے، (4) اگر ایامِ حج حالتِ حیض میں گزر گئے اور واپسی کی فلائٹ 13ذوالحجہ کو ہے، تو اب وہ کیا کرے؟
جواب: (1تا4) حج کا احرام باندھنے کے بعد جب عورت کو حیض آجائے تو وہ حج کے بقیہ تمام افعال ادا کرے، یعنی منٰی، عرفات اور مزدلفہ کے وقوف اور قربانی، رمی ِجمرات سمیت تمام ارکان ادا کرے، بیت اللہ کا طواف نہ کرے، اسی طرح نماز نہ پڑھے، تلاوت نہ کرے، اَذکار و تسبیحات ودرود جاری رکھے اور ایام ختم ہونے پر غسل کرکے پاک ہوجائے اور پھر طواف ادا کرے۔ اسی طرح عمرے کا حکم ہے کہ حیض کی وجہ سے احرام کی پابندی برقرار رہے گی اور پاک ہونے کے بعد عمرے کے افعال ادا کرے گی۔ اگر کسی عورت نے عمرے کا احرام کھول دیا، تو دَم دینا ہوگا اور یہ دَم حدودِ حرم میں ہی دیا جائے گا اور عمرے کی قضا لازم ہوگی۔ مِنٰی وعرفات میں نمازوں کی ادائیگی کے علاوہ ذکر اذکار کیے جاتے ہیں، حائضہ عورت پر نماز معاف ہے، عرفات کے وقوف کے لیے بھی طہارت شرط نہیں ہے۔
اگر حیض سے پاک ہونے تک مکہ میں ٹھہرنا ممکن نہ ہو اور ناپاکی کی حالت میں طواف بھی نہیں کیا جاسکتا، یعنی واپسی کی فلائٹ کا شیڈول بدلا نہ جاسکتا ہو یا فلائٹ یا مَحرم یا شوہر کی روانگی کا مسئلہ درپیش ہو تو مجبوراً عورت طوافِ زیارت کرلے اور اْس پر ’’بَدَنَہ‘‘ (جمع: بْدن) یعنی اونٹ یا گائے کی قربانی حدودِ حرم میں دینی واجب ہوگی۔
سابق ادوار میں ویزے اور واپس لوٹنے کی تاریخ کا تعین یا تحدید نہیں ہوا کرتی تھی اور نہ وطن واپس آکر دوبارہ جانے کی پابندیاں تھیں، جس کے سبب اس طرح کے عذر میں مبتلا لوگ وہیں ٹھہر جاتے تھے یا دوبارہ جاکر ادا کر لیا کرتے تھے۔ عمرے میں اگر پاک ہونے تک رکنا ممکن نہ ہو تو احرام سے نکل آئے اور حدودِ حرم میں ایک دَم دے اور زندگی میں اس عمرے کی قضا بھی کرے، دَم سے مراد بکری یا دنبے کی قربانی ہے۔
حدیث پاک میں ہے(1) :’’حضرت قاسم بیان کرتے ہیں : میں نے سیدہ عائشہ کو یہ کہتے ہوئے سنا: ہم حج کے لیے نکلے، جب ’’سَرِف‘‘ کے مقام پر پہنچے تو مجھے ایام شروع ہوگئے، نبیؐ میرے پاس تشریف لائے، میں اس وقت رورہی تھی، آپؐ نے فرمایا: کیا ہوا، کیا تمہیں حیض آگیا؟ میں نے کہا: جی ہاں! آپ نے فرمایا: یہ وہ چیز ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے آدم کی بیٹیوں پر لکھ دیا ہے، پس تم وہ افعال کرو جو تمام حجاج کرتے ہیں، البتہ تم بیت اللہ کا طواف نہ کرنا‘‘۔ (صحیح بخاری: 294)
(2) سیدہ عائشہؓ ایک طویل حدیث میں بیان کرتی ہیں: ’’رسول اللہؐ میرے پاس تشریف لائے اور میں رورہی تھی، آپؐ نے فرمایا: تم کیوں رو رہی ہو، میں نے عرض کیا: میں نے صحابہ کے ساتھ آپ کی گفتگو سنی، میں نے عمرے کی بابت سنا، آپؐ نے فرمایا: تمہارا مسئلہ کیا ہے، میں نے عرض کیا: میں نماز نہیں پڑھ پاؤں گی، آپؐ نے فرمایا: تمہیں اس کا کوئی نقصان نہیں ہے، بس اپنا حج جاری رکھو، امید ہے اللہ تمہیں عنقریب عمرہ نصیب فرمائے گا، تم آدم کی بیٹیوں میں سے ہو، اللہ نے دیگر بناتِ آدم کی طرح تم پر بھی یہ (حیض) لکھ دیا ہے۔ (سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں): پس میں نے اپنا حج جاری رکھا، یہاں تک کہ ہم منٰی میں اترے، پھر میں پاک ہوگئی، پھر ہم نے بیت اللہ کا طواف کیا، پھر ہم وادیِ مْحصَّب میں اترے، پھر آپؐ نے (میرے بھائی) عبدالرحمن بن ابی بکر کو بلایا اور فرمایا: اپنی بہن (عائشہ) کے ساتھ حدودِ حرم سے نکلو، عمرے کا احرام باندھو، پھر بیت اللہ کا طواف کرو، میں تم دونوں کا یہاں انتظار کروں گا۔ سیدہ عائشہ بیان کرتی ہیں: ہم (حدودِ حرم سے) نکلے، پھر میں نے عمرے کے لیے احرام باندھا، پھر میں نے بیت اللہ کا طواف کیا اور صفا ومروہ کے درمیان سعی کی، پھر ہم رسول اللہؐ کے پاس آئے، وہ نصف شب کو اپنی جگہ پر ہی تھے، آپؐ نے فرمایا: تم فارغ ہوگئی ہو، میں نے عرض کیا: جی ہاں! پھر آپؐ نے صحابہ کو کْوچ کرنے کا حکم دیا، پھر آپؐ وہاں سے نکل کرگئے ، نماز فجر سے پہلے بیت اللہ کا طواف کیا، پھر (نمازِ فجر پڑھ کر) مدینہ منورہ روانہ ہوگئے‘‘۔ (صحیح مسلم: 1211)