سیدہ حلیمہؓ کی شان

265

پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی
روزِ اول سے ہر گزرتے لمحے کے ساتھ کئی انسان اِس کرہ ارض پر پیدا ہو تے ہیں اور ہر گزرتے لمحے کے ساتھ پیوند خاک ہوجا تے ہیں۔ زیادہ تر انسان تو افزائش ِ نسل کے بعد ہی مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہوجا تے ہیں۔ لیکن انسانوں کی اِس آمدورفت میں کچھ خوش قسمت انسان ایسے بھی اِس رنگ و بو کی دنیا میں سورج کی طرح طلوع ہوئے اور ان کی زندگی میں ایک لمحہ ایسا بھی آیا کہ اس ایک لمحے نے ان کو گمنامی کے اندھیرے غاروں سے نکال کر ایسی ابدی شہرت سے ہمکنار کیا کہ قیامت تک آنے والے انسان اور بڑے بڑے اولیائے کرام بھی اس کی لازوال شہرت پر رشک ہی کرتے رہیں گے۔
ایسا ہی ایک لازوال اور ان مٹ شہرت اور عروج کا لمحہ آج عرب میں قبیلہ بنو سعد کی حلیمہ سعدیہ پر بھی آیا۔ ایک ایسا لمحہ جو اسے قیامت تک کے لیے لازوال شہرت سے نواز گیا۔ شرفائے عرب کا عرصہ دراز سے یہ دستور تھا کہ وہ اپنے نومولودوں کو بھرپور نشوونما اور عربوں کی فطری خصوصیات اور فصاحت زبان کے لیے بدوی قبائل میں پرورش کے لیے بھیج دیا کر تے تھے، تاکہ فطری اور صحرائی ماحول میں بچوں کی نشوونما بہتر طریقے سے ہوسکے۔ یہ عورتیں سال میں دو با ر شیر خوار بچوں کی تلاش میں مکہ آتیں۔
آج بھی یہ عورتیں جن میں حلیمہ سعدیہ شامل تھیں، مکہ میں آئی تھیں۔ اِس خدمت کے عوض بچے کا باپ اِن کے قدموں میں دولت کے انبار لگا دیتا۔ حلیمہ سعدیہ اپنے شوہر حارث بن عبدالعزی کے ساتھ آئی تھیں۔ ایک روایت میں ہے سیدہ حلیمہ فرماتی ہیں: جب میں مکہ پہنچی تو عبدالمطلب مجھے ملے، انہوں نے پوچھا تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں بنی سعد کی خاتون ہوں۔ تو انہوں نے نام پوچھا۔ میں نے اپنا نام بتایا۔ میرا نام سن کر عبدالمطلب مسکرائے اور فرمایا: واہ واہ سعد اور حلم کیا کہنا! یہ دو وہ خوبیاں ہیں جن میں زمانے بھر کی بھلائی اور ابدی عزت ہے۔ پھر فرمایا: میرے ہاں ایک یتیم بچہ ہے۔ کسی نے اسے یتیم ہو نے کی وجہ سے نہیں لیا۔ کیا تم اس کو گود لینے کو تیارہو؟ کیا تم میرے پوتے کو دودھ پلانے کو تیار ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اس کی برکت سے تیرا دامن یمن و سعادت سے لبریز ہوجائے۔ میں نے اپنے خاوند کی طرف مشورے کے لیے دیکھا۔ اللہ تعالی نے میرے خاوند کے قلب کو بچے کی محبت سے سرشار کردیا۔ اس نے فوری کہا: حلیمہ دیر نہ کرو، فورا بچہ لے لو۔
لہذا میں نے عبدالمطلب سے درخواست کی کہ بچہ مجھے دیں، میں اس کو دودھ پلانے کو تیار ہوں۔ تو سردار قریش مجھے بی بی آمنہ کے گھر لے گئے۔ بی بی آمنہ نے مجھے خوش آمدید کہا اور اس کمرے میں لے گئیں جہاں ملکوتی حسن اور روشن چہرے والا نو ر نظر لیٹا ہوا تھا۔ آپؐ دودھیا ریشمی کپڑے میں لپٹے ہوئے تھے۔ آپؐ سبز ریشمی چادر کے اوپر آرام فرما رہے تھے۔ عنبر کستوری کی خوشبو سے کمرہ مہک رہا تھا۔ آپؐ کے ملکوتی مکھڑے کو دیکھتے ہی میں تو فریفتہ ہوگئی۔ آپؐ کے چہرہ انور سے رنگ و نور کے چشمے پھوٹ رہے تھے۔ آپؐ کے چہرہ اقدس پر دلنواز تبسم پھیلا ہوا تھا۔ مجھے ہمت نہیں ہو رہی تھی کہ آپؐ کو جگادوں۔ پھر میں نے ہمت کر کے اپنا ہاتھ آپؐ کے سینہ مبارک پر رکھنے کی سعادت حاصل کی تو آپؐ نے سرمگیں آنکھیں کھولیں اور جان دو جہاں کے چہرہ انور پر مسکراہٹ کے پھول کھلنے لگے۔ مجھے محسوس ہوا آپؐ کی مبارک آنکھوں سے انوار کے آبشار پھوٹ رہے ہیں جو زمین وآسمان چاروں طرف پھیل رہے ہیں۔ آپؐ کے حسن لا زوال کی چکا چوند نے میری آنکھوں کو خیرہ کر دیا۔ میرے خون کی گردش تیز ہوئی اور میں نے بے اختیار آپؐ کے روشن ملکوتی ماتھے مبارک کا بوسہ لیا اور اٹھا کر اپنے سینے کو آپؐ کے انوار سے منور کیا اور سینے سے لگا لیا۔
مالکِ دو جہاں ننھے سردارؐ کو اٹھا کر اپنے خاوند کے پاس آگئی حلیمہ مزید فرماتی ہیں کہ اِس دولتِ جہاں کو اٹھائے ہو ئے اپنے خیمے میں آگئی تو میں نے دودھ پلانے کے لیے اپنی دائیں چھاتی پیش کی۔ ننھے سردارؐ نے جتنا پینا چاہا پی لیا۔ پھر میں نے اپنی بائیں چھاتی پیش کی تو آپؐ نے پینے سے انکار کر دیا۔ یقینا مالک بے نیاز نے اپنے محبوبؐ کو الہام کیا ہوگا کہ تیرا ایک اور بھائی بھی ہے۔ اِس کے لیے انصاف کریں اور باقی دودھ اپنے بھائی کے لیے رہنے دیں۔ بلاشبہ جس ننھے سردارؐ نے آگے جاکر پوری انسانیت کو عدل وانصاف کا درس دینا ہو، اس کا مالک یہ کیسے گوارا کرے کہ اس کے دامن پر چھوٹی سے چھوٹی بھی بے انصافی ہو؟ ننھے سردارؐ کے دودھ پینے سے پہلے سیدہ حلیمہ سعدیہ کی چھاتیوں میں برائے نا م ہی دودھ تھا لیکن ننھے حضورؐ کے مبارک لبوں کے چھونے کی دیر تھی کہ چھاتیاں دودھ سے بھر گئیں۔ پھر آپؐ کے رضائی بھائی نے بھی جی بھر کے دودھ پیا۔
سیدہ حلیمہ کہتی ہیں کہ رات کو میرا بیٹا بھی خوب پرسکون سویا۔ رات کو میرا خاوند جب بوڑھی لاغر اونٹنی کے پاس گیا تو خوشگوار حیرت کا سامنا ہوا کہ اس کمزور اونٹنی کی کھیری دودھ سے بھری ہوئی ہے۔ اس نے خوشی خوشی اِسے دھویا۔ خود بھی جی بھر کر دودھ پیا اور مجھے بھی خوب پلایا۔ ہم سب کی بھوک مٹ چکی تھی، لہذا ہم خوب پرسکون ہوکر سوئے۔ صبح جب ہم بیدار ہوئے تو میرا خاوند خوشی سے سر شار لہجے میں بولا بخدا اے حلیمہ! ہمیں سراپا یمن و برکت وجود نصیب ہوا۔ تو میں نے کہا میں بھی یہی امید رکھتی ہوں۔
واپسی پر حلیمہ فرماتی ہیں جب میں ننھے سردارؐ کو گود میں اٹھاکر اپنی کمزور لاغر بوڑھی سواری پر چڑھی تو وہ بہت چست ہوگئی اور اس کے انگ انگ سے توانائی چھلکنے لگی اور وہ سینہ تان کر چلنے لگی۔ جب ہم کعبہ کے سامنے پہنچے سواری نے تین سجدے کیے اور اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا اور پھر دوسرے جانوروں سے زیادہ رفتار سے بھاگنے لگی۔ آپ فرماتی ہیں کہ میری سواری تمام قافلے والوں کی سواریوں کی نسبت کمزور اور سست تھی مگر جیسے ہی ننھے حضورؐ اس پر سوار ہوئے تو وہ برق رفتاری سے دوڑنے لگی۔ قافلے کی عورتیں حیران ہوکر بولیں اے حلیمہ کیا تم اِس پر سوار ہوکر آئی تھیں؟ اس وقت اتنی سست تھی کہ سب سے پیچھے تھی، آج سب سے آگے ہے۔ تم نے آج کونسا عظیم کام کیا ہے؟
جب وادی حبشہ میں پہنچے تو وہاں پہلے سے ٹھہرے ہوئے عالموں نے ننھے حضورؐ کو دیکھ کر کہا بے شک یہ لڑکا خدا کا آخری نبی ہے اور آگے بڑھے تو وادی ہوازن میں بھی ایک بوڑھا آدمی نظر آیا۔ اس کی نظر جب ننھے حضورؐ کے چہرہ اقدس پر پڑی تو وہ بولا یہ خاتم الانبیا ہیں۔ اِنہی کے پیدا ہو نے کی بشارت حضرت عیسی نے دی تھی۔