جماعت اسلامی سندھ کاموقف کچھ اور تھا

279

جمعرات کو پیپلزپارٹی سندھ کے زیر انتظام ایوان وزیر اعلیٰ میں ہونے والی کل جماعتی کانفرنس کے اختتام پر پیپلزپارٹی سندھ کی قیادت نے میڈیا بریفنگ کے دوران یہ تاثر دیا کہ کانفرنس میں شریک تمام پارٹیوںنے پیپلزپارٹی کے موقف کی حمایت کی ہے جبکہ ایسا تھا نہیں ۔ مثال کے طور پر جماعت اسلامی سندھ کی قیادت نے شروع ہی سے اصولی موقف اپنایا کہ اگر پیپلزپارٹی وہی حقوق بلدیاتی اداروں کو دے ، جو وہ صوبوں کے لیے وفاق سے مانگ رہی ہے تو جماعت اسلامی اٹھارویں ترمیم کی حمایت کرے گی ۔ جماعت اسلامی کو پیپلزپارٹی کی نیت کا اندازہ ہوگیا تھا ، اسی لیے آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت کرنے والے جماعت اسلامی سندھ کے نائب امیر ممتاز حسین سہتو نے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمٰن کے ساتھ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وضاحت کی کہ جماعت اسلامی نے اپنی گزارشات کانفرنس میں تحریری طور پر پیش کی تھیں ۔ جماعت اسلامی نے اصولی بات کی کہ سندھ کا 90 فیصد ریونیو کراچی فراہم کرتا ہے مگر اس کے ساتھ سلوک سوتیلا ہی ہوتا ہے ۔ اصولی طور پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، لیاری ڈیولپمنٹ اتھارٹی ، ملیر ڈیولپمنٹ اتھارٹی ، کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی اور کراچی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ جیسے تمام ہی اداروں کو کراچی کی انتظامیہ کے ماتحت ہونا چاہیے مگر ایسا ہے نہیں ۔ سندھ کے اسپتالوں کی حالت زار کو بہتر بنانے ، تعلیمی اداروں کو تعلیم کے لیے استعمال کرنے جیسے اہم مسائل کی طرف جماعت اسلامی نے توجہ دلائی مگر پیپلزپارٹی کی پوری توجہ ان اہم مسائل کے حل کرنے کے بجائے وفاق سے محاذ آرائی کی طرف رہی ۔ یہ عجیب و غریب بات ہے کہ وفاق ہر بات کا الزام صوبے پر دھر دیتا ہے اور صوبہ ہر مسئلے کا ذمہ دار وفاق کو ٹھیرا دیتا ہے ۔ اس طرح دونوں الزام تراشی سے کام چلا رہے ہیں اور اس جنگ میں عوام پس کر رہ گئے ہیں ۔ وفاق اپنے وظائف ادا کرنے کے لیے تیار نہیں کہ خارجی محاذ سے لے کر داخلی محاذ تک وفاق کی ناکامی کی پے درپے داستانیںہیں۔ پاکستانی کرنسی کی بے قدری نے مہنگائی کا طوفان برپا کردیا تو گیس اور بجلی کے نرخوںمیں ہوشربا اضافے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ ان سب عوامل نے ملک کی معیشت کو تباہ کرکے رکھ دیا ۔ خارجی محاذ پر وفاق کی اس سے بھی بدتر کارکردگی رہی سندھ حکومت کے وظائف میں صوبے کے عوام کے مسائل کا حل تھا تو سندھ حکومت کی توجہ مسائل کے حل کے بجائے فنڈز کو ہڑپ کرنے کی طرف رہی ۔ فریال تالپور پر ابھی تک لاڑکانہ کے لیے مختص نوے ارب روپے کے فنڈز خورد برد کرنے کا مقدمہ چل رہا ہے ۔ کراچی کو سیوریج کے پانی میں ڈبونے کے ساتھ ساتھ کچرے تلے دفن بھی کردیا گیا ۔ ایسے میں جماعت اسلامی ہی واحد پارٹی ہے جس کی قیادت نے عوامی مسائل کی نہ صرف نشاندہی کی بلکہ اس کے حل کے لیے عملی جدوجہد بھی کی ۔ کورونا کے خلاف جنگ میں ہی جماعت اسلامی کی کاوشوں کو دیکھا جاسکتا ہے ۔ ڈاکٹروں اور اسپتالوں کو ضروری حفاظتی کٹ کی ذمہ داری حکومت سندھ کی تھی تو یہ ذمہ داری جماعت اسلامی ادا کررہی تھی ۔ لاک ڈاؤن کے دوران راشن کی فراہمی ہو یا کورونا کے مفت ٹیسٹ جماعت اسلامی ہی آگے آگے نظر آتی ہے ۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومتیں اپنے وظائف احسن طریقے سے ادا کررہی ہوتیں تو آج پاکستان یوں مسائل کے انبار تلے دبا ہوا نہ ہوتا ۔