مایوس کن اور روایتی بجٹ

232

پاکستان تحریک انصاف نے اپنا دوسرا قومی بجٹ جمعہ کو پیش کردیا ہے ۔ یہ بجٹ ہر لحاظ سے روایتی بھی کہا جاسکتا ہے کہ اسے پیش کرنے کے دوران وفاقی وزیر حماد اظہر فاروقی نے وہی باتیں کیں جو ہمیشہ سے بجٹ پیش کرنے کے دوران کہی جاتی ہیں کہ عام آدمی پر مہنگائی کا کوئی اثر نہیں پڑے گا ، عام آدمی کی بہتری کے لیے خصوصی اقدامات کیے گئے ہیں اور ملک کی ترقی کی شرح میں اضافہ ہوگا ۔ وہی رونا دھونا کہ خراب حالات ورثے میں ملے ہیں ۔اب تو تحریک انصاف اپنے اقتدار کے نصف کے قریب پہنچا چاہتی ہے مگر ابھی تک وہ گزشتہ حکومت کو لعن طعن کرکے وقت گزارنا چاہتی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان نیازی کو علم ہونا چاہیے کہ اس وقت گزشتہ برس کا حساب کتاب سامنے ہے اور آئندہ برس کے لیے ان کی ترجیحات دیکھی جارہی ہیں ۔ زمینی حقائق یہ ہیں کہ بجٹ پیش ہو یا نہ ہو، سرکاری اقدامات کا نزلہ عام آدمی پر ہی گرتا ہے ۔ اس سے کوئی محفوظ رہتا ہے تو وہ ہے جس کا مسکن اقتدار کی راہداریاں ہیں ۔پہلے بجٹ کی اس لیے اہمیت ہوتی تھی کہ ہر شخص کو علم ہوجاتا تھا کہ بجلی ، گیس و پٹرول کے سال بھر کیا نرخ ہوں گے ، آٹا ، تیل و چینی کس بھاؤ ملیں گے ۔ فولاد ، سیمنٹ سے لے کر گاڑی تک پر کیا نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں یا کمی کی گئی ہے اور تنخواہوںمیں کتنا اضافہ کیا جائے گا ۔ ایک عام شہری سے لے کر کاروباری فرد و صنعتکار تک اس کی روشنی میں اپنی سال بھر کی منصوبہ بندی کرلیا کرتا تھا ۔ اب تو مہینے میں کئی مرتبہ پاکستانی روپے کی دھڑلے سے بے قدری کی جاتی ہے ، جب جی چاہتا ہے بجلی اور گیس کے نرخ نہ صرف بڑھا دیے جاتے ہیں بلکہ ان کا اطلاق پرانی تاریخوں سے کیا جاتا ہے اور گزشتہ کئی ماہ کے بقایا جات کی وصولی بھی شروع کردی جاتی ہے ۔جب جی چاہتا ہے کسی بھی چیز کے ٹیکس میں اضافہ کردیا جاتا ہے ۔ ایسے میں کوئی پیداواری لاگت کا تخمینہ کس طرح سے لگا سکتا ہے اور کوئی شہری اپنا ماہانہ بجٹ کس طرح سے بنا سکتا ہے ۔ اس لیے اب بجٹ کی حیثیت محض اتنی رہ گئی ہے کہ روایتی طور پر حکومت اسے ہر سال پیش کرتی ہے کہ یہ آئینی تقاضہ ہے وگر نہ صورتحال تو یہ ہے کہ بجٹ کی منظوری سے قبل ہی منی بجٹ آنا شروع ہوجاتے ہیں ۔ بجٹ تقریر کے دوران وفاقی وزیر صنعت و پیداوار نے فرمایا کہ حکومت کی کوشش ہے کہ ملک میں معاشی استحکام اور شرح نمو میں بہتری لائی جاسکے، ہماری معاشی پالیسی کا مقصد اس وعدے کی تکمیل ہے جو ہم نے نیا پاکستان بنانے کے لیے عوام سے کر رکھا ہے اور ہر گزرتے سال کے ساتھ ہم اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔وفاقی وزیر کے ان فرمودات پر تو ہنسا بھی نہیں جاسکتا ۔ انہیں خود بھی علم ہے اور اس تقریر کو لکھنے والوں کو حقیقت حال کا علم ہے کہ ملک کی حقیقی شرح نمو منفی میں جاچکی ہے ۔ ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں تین کھرب روپے کا نقصان ہوا ہے اور ایف بی آر حسب معمول اپنا کوئی بھی ہدف مکمل نہیں کرسکا ہے مگر اس پر بھی سرکار کے یہ دعوے سنگین مذاق ہی ہیں ۔ اسی طرح وفاقی وزیر نے مزید فرمایا کہ گزشتہ دو برسوں کے دوران ہمارے رہنما اصول رہے ہیں کہ کرپشن کا خاتمہ کیا جائے، سرکاری اداروں میں زیادہ شفافیت لائی جائے، احتساب کا عمل جاری رکھا جائے اور ہر سطح پر فیصلہ سازی کے عمل میں میرٹ پر عمل درآمد کیا جائے۔ سرکار کی طرف سے جو وزیر صاحب کرپشن کے خلاف تقریر کررہے تھے ، انہیں خود بھی اس کا علم ہے کہ ان کا قلمدان کیوں تبدیل کیا گیا تھا ۔ سرکار کے ہر فیصلے میں کتنی شفافیت ہے اور کتنا احتساب کا عمل جاری ہے ، اس کا اندازہ چینی کی برآمد میں زرتلافی دینے اور اس کے بعد یوٹیلیٹی اسٹورز کارپوریشن میں خریداری کے فیصلے سے ہی کیا جاسکتا ہے ۔ پہلے زمانے میں جھوٹ بولتے وقت زبان لکنت کھا جاتی تھی مگر اب فخر سے کہا جاتا ہے کہ یوٹرن عظیم لوگ ہی لیتے ہیں ۔ حکومت کے مصنوعی اہداف کا اندازہ اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 4 ہزار 963 ارب روپے ایف بی آر کی کارکردگی کو جاننے اور ملک کے معاشی حالات کو دیکھتے ہوئے رکھا ہے ۔ درست بات یہی ہے کہ بجٹ محض الفاظ اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندا اور عوام کو بے وقوف بنانے کا عمل ہے ۔ سرکاری ملازمین اور ضعیف پنشنروں کو امید تھی کہ کمر توڑ مہنگائی کے پیش نظر کچھ سہولت ملے گی۔لیکن عملاً یہ کہہ دیا گیا کہ جو مل رہا ہے اسی کو غنیمت جانو، ہم سے توقع نہ رکھنا ۔