مشتاق یوسفی مرحوم نے ایک جگہ لکھا ہے کہ جھوٹ کی تین قسمیں ہیوتی ہیں ،ایک جھوٹ ،دوسرا سفید جھوٹ اور تیسرا سرکاری اعداد وشمار۔اب تک ملک میں کورونا سے 2000سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ وزیر اعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر طفر مرزا نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ملک میں کورونا سے جاں بحق ہونے والے افراد میں سے 74فی صد کو دیگر امراض بھی لاحق تھے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ دیگر امراض سے جو لوگ جاں بحق ہوئے انہیں بھی کورونا میں ڈال دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ کورونا سے مرنے والوں کی روزانہ جو تعداد حکومت بتاتی ہے عام لوگ اس پر یقین نہیں کرتے ۔آپ شادی کی کسی محفل میں شریک ہوں یا کسی غم کی مجلس میں ہوں جہاںدو چار افراد جمع ہوتے ہیں وہاں یہی کورونا کا موضوع زیر بحث رہتا ہے اور اس کا ضمنی موضوع مرنے والوں کی تعداد ہوتی ہے ہوٹلوں، چوپالوں اور بیٹھکوں میں بھی یہی موضوع زیر بحث رہتا ہے لوگ آپس میں معلومات کا تبادلہ کرتے ہوئے کچھ واقعات جو ان کے محلے اور خاندان میں وقوع پزیر ہوتے ہیں وہ سناتے ہیں، کل میں ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا تو ایک صاحب نے اپنے محلے کے ایک دودھ والے کا قصہ سنایا ۔
اس دودھ والے کوبخار اور کچھ سانس کی تکلیف ہوئی وہ کسی اسپتال میں دکھانے گیا تو وہاں ڈاکٹر نے کہا کہ آپ کورونا کا ٹیسٹ کروا لیں۔اس نے کہا ا ڈاکٹر صاحب مجھے کورونا ورونا کچھ نہیں ہے یہ مجھے سانس کا مسئلہ اکثر ہوجاتا ہے۔ لیکن اسپتال والے بضد تھے کہ آپ کو تو یہ ٹیسٹ کرانا ہوگا۔ انہوں نے مقامی پولیس کو اطلاع کردی، پولیس آئی اس نے بھی ان سے کہا کہ جب آپ کہتے ہیں کہ آپ کو کورونا وغیرہ کچھ نہیں تو ٹیسٹ کرا لینے میں کیا حرج ہے اب چونکہ آپ سرکاری لسٹ میں آگئے ہیں اس لیے آپ ٹیسٹ کروا کہ یہیں اسپتال میں رہیں ایک ہفتے بعد رپورٹ آئے گی تو اس کی روشنی میں آئندہ کا فیصلہ ہوگا۔ یعنی انہوں نے اس کو کورونا کا مریض تصور کرتے ہوئے اسپتال میں روک لیا۔چنانچہ حکومت سندھ نے اسپتالوں اور دیگر مقامات پر جو قرنطینہ مراکز بنائے ہوئے ہیں وہاں لوگ ڈر کے مارے جا نہیں رہے ہیں۔ خیر ان صاحب کو مجبوراً اسپتال میں رکنا پڑا ایک ہفتے بعد رپورٹ آئی تو وہ منفی تھی۔ انہوں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ وہ کورونا سے محفوظ ہیں اب گھر واپس چلے جائیں گے لیکن ڈاکٹروں نے کہا کہ یہ ٹیسٹ دوبارہ ہوگا۔ وہ صاحب بہت پریشان ہوئے کہ یا اللہ یہ میں کہاں پھنس گیا کہ جان ہی نہیں چھوٹ رہی ۔اب چونکہ پولیس بھی سر پر سوار ہے اس لیے دوبارہ ان کا سیمپل لے کر ٹیسٹ کے لیے بھیجا گیا۔ ایک ہفتے بعد اس کی جو رپورٹ آئی وہ بھی اتفاق سے منفی تھی، ڈاکٹروں اوراسپتال کے اسٹاف کے ساتھ پولیس والوں نے بھی انہیں مبار ک باد دی کہ شکر ہے آپ اس موذی مرض سے بچ گئے۔ انہوں نے کہا کہ میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا یہ مجھے پہلے بھی اکثر ہوجاتا ہے ۔
اس ودھ والے نے ایس ایچ او سے کہا سر اب تو مجھے گھر جانے دیں۔ اس نے کہا ہاں ہاں اب آپ جاسکتے ہیں لیکن کچھ چائے پانی کے پیسے دے جائیں۔ انہوں نے سوچا چلو کچھ دوچار ہزار کی بات ہوگی اسے دے کر جان چھڑا لیں گے ۔ ایس ایچ او صاحب تو چلے گئے۔ انہوں نے موجود پولیس والوں سے پوچھا کہ چائے پانی کے کتنے پیسے دیے جائیں۔ انہوں نے بڑے آرام سے کہا بس ایک لاکھ روپے دے دیں اور گھر جائیں۔ اس کے تو ہوش اڑگئے کہ یہ کیا ہوگیا ۔ایک لمحے کے لیے اس نے سوچا کہ رپورٹ مثبت ہی آجاتی تو اچھا تھا ۔دودھ والے نے کہا کہ یار آپ مجھے اسپتال ہی میں روک لو میں تو پیسے نہیں دے سکتا ۔ خیر پھر کچھ لوگ درمیان میں پڑے اور انہوں نے دونوں طرف سے گفت و شنید کر کے 35ہزار پر معاملہ طے کرادیا ۔ وہی بات ہوگئی کہ کھایا پیا کچھ نہیں گلاس توڑا بارہ آنے ۔وہ بیٹھے بٹھائے پچاس ہزار کے چکر میں آگئے۔
یہی وجہ ہے کہ اب عام لوگ حکومت سندھ کے بنائے ہوئے مراکز میںجا نہیں رہے ہیں۔ لوگوں میں ایک تاثر تو یہ بن گیا کہ سرکاری اسپتالوں میں ٹیسٹ کرانے مطلب یہ ہے کہ آپ کو نہ ہوتے بھی کورونا ہو جائے گا۔ دوسرا تاثر یہ ہے کہ حکومت بالخصوص حکومت سندھ جان بوجھ کر لوگوں میں خوف پھیلا رہی ہے اور اسی خوف کی وجہ سے کورونا کی ساری علامات ہونے کے باوجود بھی لوگ محلے کے ڈاکٹروں کو دکھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ تیسرا خوف جو شروع سے میڈیا نے اور خاص طور بین الاقوامی میڈیا نے کورونا کے مرض میں مرجانے والوں کو اچھوت بنا کر پیش کیا کہ ان لاشوں کو جلا دیا جائے۔ اٹلی اور دیگر ممالک میں یہی کیا گیا اس میں کچھ مسلمانوں کو بھی جو وہاں کے شہری تھے اور کورونا میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ انہیں بھی جلایاگیا۔ بھارت میں تو مسلمانوں سے تعصب کی بنیاد پر کہیں کہیں یہ کام کیا گیا۔ پاکستان میں یہ ہوا کہ کورونا میں مرجانے والوں کو باکس میں بندکرکے کسی دور کے مقام پر چند افراد جن میں ان کے کچھ قریبی لواحقین بھی ہوتے ہیں کو لے کر چند سرکاری افراد نے جو مکمل طبی لباس میں ہوتے ہیں ان کے ذریعے سے قبر میں ڈال دیا گیا۔ یہ صورتحال دیکھ کر لوگ اور خوف زدہ ہو گئے کہ ہم اپنے پیاروں کا چہرہ بھی نہیں دیکھ سکتے، سارے دوست احباب اور رشتہ دار نماز جنازہ بھی نہیں پڑھ سکتے اور تدفین کرکے مٹی بھی نہیں ڈال سکتے۔ اب کئی ڈاکٹروں کے یہ بیانات سامنے آئے ہیں کہ کورونا میں مرنے والوں سے جراثیم کسی کو منتقل نہیں ہو سکتے۔اسپتالوں میںاب بھی یہ لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں مرنے والوں کے لواحقین میت لینا چاہتے ہیں کہ وہ تمام دینی تقاضے پورے کرکے تدفین کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کو میت نہیں دی جااتی اس حوالے سے بھی حکومت کو اپنی پوزیشن کلیر کرنا چاہیے ۔