قاسم جمال
وفاقی کابینہ نے بھی پاکستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے قومی ادارہ پاکستان اسٹیل کی نجکاری کی منظوری دے کر ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ اور سابقہ حکمرانوں کی پالیسیوں میں رتی بھر بھی کوئی فرق نہیں ہے۔ عمران خان ڈی چوک پر سلطان راہی اور مصطفی قریشی کی طرح بڑھکیں ہی مار رہے تھے اور عوام کو بے وقوف بنایا جا رہاتھا۔ انہیں سنہرے خواب دیکھائے گئے اور جب اقتدار کا ھما ان کے سر پر سجا تو سارے خواب چکنا چور ہوگئے۔ جب سے حکومت کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کی جانب سے اسٹیل مل کی نج کاری اور 9350ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کے ذریعے فارغ کرنے کا اعلان کیا گیا ہے اسٹیل ملزکے ان غریب محنت کشوں کے گھروں میں صفت ماتم بچھی ہوئی ہے ۔ کپتان نے تو ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ کیا تھالیکن ڈھول کا پول اتنی جلدی کھل جائے گا اس کا کسی کو یقین نہیں تھا۔
اسٹیل مل کے محنت کشوں سے خود عمران خان اور ان کے دست راست وفاقی وزیر منصوبہ بندی اسد عمر متعدد بار یہ یقین دہانی کروا چکے تھے کہ ان کی پارٹی اقتدارمیں آنے کے بعد نہ صرف یہ کہ اسٹیل مل میں پیداواری نظام بحال کرے گی بلکہ اسٹیل مل کو مستحکم اور اسے مزید ترقی دی جائے گی لیکن گینز بک میں یوٹرن کا عالمی ریکارڈ قائم کرنے والے حکمراں اقتدار کے نشے میں اپنے سارے وعدے اور دعوے بھول چکے ہیں۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت منگل کے روز ہونے والے اجلاس میںوفاقی کابینہ نے فیصلہ کیاکہ غیر فعال اسٹیل ملز کا سارا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے اورملکی مفاد میںوزیر اعظم کے اصلاحاتی ایجنڈے کو اب مزید آگے بڑھایا جائے گا۔ دوسری جانب اسٹیل ملز کے ملازمین کو گولڈن ہینڈ شیک کے ذریعے ملازمتوںسے فارغ کیے جانے کے فیصلے کے خلاف ملازمین نے سندھ ہائیکورٹ میں پٹیشن
دائر کر دی۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ عدالت عظمی نے2006میں اسٹیل ملز کی پرائیویٹائزیشن کے لیے اصول وضع کیے تھے۔ عدالت عظمی کے حکم کے مطابق پرائیوٹ کرنے سے پہلے معاملہ (سی سی آئی )میں لایا جائے گا۔ مشترکہ مفادات کونسلمیں وزیر اعظم اور چاروں صوبوں کے وزراء اعلی اور دیگر شامل ہوتے ہیں۔ درخواست میں کہا گیا کہ آئین کے آرٹیکل 153کے مطابق اسٹیل ملز کے لیے سی سی آئی میں پالیسی وضع کی جانی تھی۔ وفاقی حکومت نے اسٹیل ملز کوپرائیوٹ کرنے کے لیے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی )میں فیصلہ کیا ہے۔ عدالت نے اسٹیل ملز کے ملازمین کی درخواست فوری سماعت کے لیے منظور کر لی۔ اس سے قبل کراچی پریس کلب پر اسٹیل مل کی لیبر یونین پاسلو نے مل کے ملازمین کا ایک بڑا اور بھرپور احتجاجی مظاہرہ کر کے حکمرانوں کو محنت کشوں کے غم وغصے سے آگاہ کیا۔ اس احتجاجی مظاہرے سے اسٹیل مل کی تمام اہم بڑی ٹریڈ یونینز اوران کے رہنمائوں کے علاوہ کراچی شہر کے صنعتی علاقوں سے تعلق رکھنے والی یونینز کے کارکنان نے
شرکت کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایااوراحتجاجی مظاہرے سے خطاب میںواضح پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اسٹیل مل کی نج کاری کے خلاف تمام ٹریڈ یونینز ایک نکتے پر متحد اور متفق ہیں اس موقع پر تحریک انصاف کی یونین کے رہنمائوں نے بھی تحریک انصاف اور عمران خان کی پالیسوں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔احتجاجی مظاہرے سے کلیدی خطاب جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمان نے کیا۔حافظ نعیم الرحمان کے الیکٹرک ،نادرا،بحریہ ٹائون ،سانحہ بلدیہ علی انٹر پرائز کمپنی کے ایشوز پر کامیاب تحریکیں اور جدوجہد کر کے اپنا لوہا منوا چکے ہیں ۔اسٹیل ملز کے محنت کشوں کو بھی جماعت اسلامی اور حاٖفظ نعیم الرحمان سے بڑی توقعات وابستہ ہیں ۔اپنے کلیدی خطاب میں حافظ نعیم الرحمان نے اسٹیل ملز کے محنت کشوں سے کہا کہ جدوجہد کا راستہ ہی وہ راستہ ہے جس کے ذریعے کامیابی اور کامرانی ان کے قدم چومے کی اور مزدوردشمن قوتوں کو شکست کے سواکچھ حاصل نہیں ہوگا۔ اگر یہ فیصلہ واپس نہیں لیا گیاتو جماعت اسلامی محنت کشوں کے شانہ بشانہ بھرپور مزاحمت اورسخت احتجاج کرے گی اور ہر طرح کا آئینی قانونی راستہ اختیار کیا جائے گا۔
جماعت اسلامی کا یہ اعلان اسٹیل مل کے محنت کشوں کے لییایک نئی امید ہے ۔
یہ اظہرمن شمس ہے کہ حکومت چاہے پیپلزپارٹی ،مسلم لیگ یا پی ٹی آئی کی ہو محنت کشوں پر شب خون مارنے اور ان کا معاشی قتل عام کرنے میں کسی نے دیر نہیں لگائی ہے ۔حکومت کی نج کاری کمیشن میں مسلسل پی آئی اے،ریلوے ،واپڈا،او جی ڈی سی،یوٹیلیٹی اسٹورزکی منصوبہ بندی طے ہوتی رہتی ہے اور اسٹیل مل کے بعد ان اداروں پر شب خون مارے جانے کی پوری تیاری کی گئی ہے ۔اس سے قبل حکومت نے پی ٹی سی ایل جیسے قومی ادارے کو جو کہ سالانہ 27ارب روپے خالص منافع کما رہا تھا اس اہم قومی اور حساس ادارے کو بھی نج کاری کی بھینٹ چڑھایا گیا۔کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن جیسا منافع بخش ادارہ بھی عوام کے مفادات کے بر خلاف فروخت کیا گیا اوراس ادارے کی نج کاری کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے ۔اس کے علاوہ کراچی میں عوام کی بہتر سفری سہولیات کے لیے کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن کا ادارہ تھا جو کہ کراچی کے عوام کو سستی اور معیاری سفری سہولیات فراہم کر رہاتھا لیکن ٹرانسپورت مافیا کی ملی بھگت سے یہ قومی ادارہ بھی دیوالیہ قرار دے کر نہ صرف یہ کہ مکمل طور پر تباہ وبرباد کیاگیا بلکہ عوام سے سستی اور آرام دہ سفر کی بہترین سہولت چھین لی گئی اور ایک ایسے ماحول میں جب لاہور ،راولپنڈی ،اسلام آباد کے عوام کے لییگرین لائن اور بلو لائن جیسی بین الاقوامی سطح کی معیاری بس سروس چلائی گئی جو بہت اچھا اور مثبت اقدام ہے ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والاشہر کراچی اس کے بدنصیب عوام پبلک ٹرانسپورٹ سے محروم ہیں اور بسوں کوچوں اور مزدا بسوں کی چھت پر بیٹھ کر سفر کرنے پر مجبور ہیںاور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ یتیموں کا شہر ہے ۔یہاں کے نام ونہاد ممبر قومی وصوبائی اسمبلی اور صوبائی ووفاقی وزراء اپنی مستیوں مین مگن ہیں اور عوام کی پریشانی اور مشکلات کا کسی کو کوئی احساس نہیں ہے ۔