اوگرا کے خلاف بھی کارروائی کی جائے

313

سرکار کے تمام دعووں کے باوجود ملک بھر میں پٹرول بحران جاری ہے ۔ حکومت کی اس سلسلے میں چلت پھرت جاری ہے ، کبھی بن قاسم بندرگاہ پر تیل کمپنیوں کے اسٹاک کا معائنہ کیا جاتا ہے تو کبھی کہا جاتا ہے کہ حکومت تمام پٹرول پمپوں کو فوج کی تحویل میں دے دے گی ۔ یہ سیدھی سی بات ہے کہ پاکستان اسٹیٹ آئل کے سوادیگر پٹرول کمپنیوںنے ایکا کرکے پٹرول کی سپلائی روک دی ہے ۔ یہ کمپنیاں صرف اور صرف ہائی اوکٹین پٹرول فروخت کررہی ہیں جس پر سرکار کا کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔ دنیا بھر میں پٹرول کی قیمتیں کم ترین سطح پر آنے کے باوجود بھی ہائی اوکٹین کی قیمت میں ایک پیسے کی کمی نہیں کی گئی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان تمام تیل کمپنیوں کے خلاف بھرپور تادیبی کارروائی کی جاتی اور انہیں ملک کے استحکام کو خطرے میں ڈالنے کا مجرم قرار دیا جاتا ، اوگرا نے ان پر چند لاکھ کا جرمانہ عاید کرکے کلین چٹ دے دی ۔ اوگرا کا کردار ریگولیٹر کا نہیں بلکہ تیل کمپنیوں کے سہولت کار کا زیادہ لگتا ہے ۔ بہتر ہوگا کہ سب سے پہلے اوگرا کے خلاف ہی کارروائی کی جائے ۔ یہ اوگرا کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ سرکاری نرخوں پر پٹرول اور دیگر مصنوعات کی فروخت اور فراہمی کو یقینی بنائے ۔ اوگرا اپنے اس کردار کو ادا کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ اوگرا نے وہی کردار ادا کیا ہے جو اس سے قبل نیپرا ادا کرتا رہا ہے اور عملی طور پر کے الیکٹرک اور بجلی پیدا کرنے والے دیگر نجی اداروں کو عوام کو لوٹنے کے لیے سرکاری تحفظ فراہم کرتا ہے ۔ جب پانی سر سے گزر جاتا ہے تو ان بجلی کمپنیوں پر چند لاکھ روپوں کا جرمانہ کرکے معاملہ دبادیا جاتا ہے ۔