عوام کے لیے کوئی آسانی نہیں

294

نئے مالی سال کے لیے پیش کردہ وفاقی بجٹ کی اہم ترین بات یہ ہے کہ اس کو مسترد کرنے میں پوری حزب اختلاف متحد ہے ۔ بجٹ پر ردعمل دیتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے درست نشاندہی کی ہے کہ بجٹ غیر حقیقی اہداف پر مشتمل ہے ۔ 45 فیصد خسارے کے بجٹ میں حکومت عوام کو کیا ریلیف دے گی۔پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے بھی آئندہ مالی سال کے بجٹ کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے مہنگائی اور بے روزگاری میں اضافہ ہوگا ۔ کسی بھی ملک کے لیے عوامی فلاح کے ضمن میں تعلیم اور صحت انتہائی اہم ترین شعبے ہوتے ہیں ۔ یہی سرکاری ترجیحات متعین کرتے ہیں ۔ وفاقی بجٹ میں اس ضمن میں جو رقوم مختص کی گئی ہیں ، وہ تو تنخواہوں میں ہی ختم ہوجائیں گی ۔ اسی طرح ڈیم سمیت اہم ترقیاتی پروجیکٹ ، ملک میں بجلی کی پیداوار کے لیے نئے پروجیکٹ ، ریلوے کی تشکیل نو اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنانے کے لیے نئے پروجیکٹ جیسی کوئی اسکیم بجٹ میں موجود ہی نہیں ہے ۔ایسا لگتا ہے کہ بس پرانے بجٹ کو جھاڑ پونچھ کے نکالا ، اس پر آئی ایم ایف کی ہدایات لیں اور پیش کردیا ۔ اسمبلی میں موجود حز ب اختلاف کے ارکان نے بھی کورونا کے نام پر طے کردہ ایس او پیز کے نام پر علامتی احتجاج کیا اور واک آؤٹ کرگئے ۔ اس طرح کورم پورا نہ ہونے کے باوجود حکومت نے بجٹ انتہائی اطمینان سے پیش کردیا اور حزب اختلاف کے ساتھ طے کردہ معاہدے کے تحت اسمبلی میں نورا کشتی کے بعد 30 جون کو بجٹ منظور بھی کردیا جائے گا ۔ اس سلسلے میں ہم پہلے بھی نشاندہی کرتے رہے ہیں کہ سرکاری بنچوںکے ساتھ ساتھ حزب اختلاف بھی اپنا کردار موثر طریقے سے ادا کرنے سے گریزاںہے ۔ ترقی یافتہ دنیا میں حزب اختلاف شیڈو بجٹ پیش کرتی ہے ، پوری تحقیق اور تیاری کے بعد بجٹ پر تقاریر کرتی ہے اور حکومت کو مجبور کرتی ہے کہ عوامی مفاد میں اسکیمیں متعارف کروائی جائیں ۔ پاکستان میں تو یہ صورتحال ہے کہ بجٹ پر ہونے والی تقریر میں جئے نواز شریف اور جئے بھٹو کے نعرے لگ رہے ہوں گے ، ایک دوسرے کو گالیاں اور دھمکیاں دیںگے کہ ہمارے لیڈر تک نہ پہنچو ، ورنہ ہمارے ہاتھ تمہارے گریبان پر ہوں گے اور یوں بجٹ پر کوئی حقیقی تقریر کیے بغیر وقت گزار دیا جائے گا ۔ بجٹ کا سب سے بڑا حصہ سود کی ادائیگی پر خرچ ہوگا ۔ اس برس سود کی رقم میں اس لیے بھی زبردست اضافہ ہوا کہ عمرانی سرکار نے جی بھر کر ریکارڈ قرضہ لیا اور روپے کی بھی خوب ناقدری کی ۔ یوں قوم کو دو دھاری تلوار سے کاٹ دیا گیا ۔نہ کوئی پوچھنے والا ہے اور نہ بتانے والا کہ یہ قرضے کیوں لیے گئے اور کہاں پر ٹھکانے لگادیے گئے ۔ریاست مدینہ کے دعویداروں نے سود سے نجات کے لیے کوئی تدبیر نہیں کی۔ کورونا کے خاتمے کے لیے 120 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں ۔ ابھی تک کورونا کے نام پر 500 ارب روپے سے زاید خرچ کردیے گئے ہیں ۔ یہ پانچ سو ارب روپے اس طرح سے خرچ کردیے گئے کہ نہ تو کوئی نیا اسپتال بنا، نہ پرانے اسپتالوں میں آئی سی یو میں بستروں اور وینٹلی لیٹر میں کوئی اضافہ ہوا اور نہ ہی شہریوں کو کورونا کے مفت ٹیسٹ کی سہولت موجود ہے ۔قرنطینہ مراکز بنانے کے نام پر مذاق کیا گیا ۔ ہوٹلوں کو قرنطینہ مراکز بنانے کے نام پر اربوں روپے کی ادائیگی کردی گئی جس میں یقینی طور پر بھاری کک بیک بھی ہوں گے مگر عملی صورتحال یہ تھی کہ بیرون ملک سے آنے والے شہریوں کو ان ہوٹلوں میں قرنطینہ کرنے کے نام پر ان سے بھاری بل وصول کیے گئے ۔ جس ملک میں صحت کے لیے محض 20 ارب اور تعلیم کے لیے صرف 30 ارب روپے مختص کیے گئے ہوں ، وہاں پر کورونا کے لیے 1200ارب روپے مختص کرنے کا یہی مطلب ہے کہ ا س میں سو فیصد لوٹنے کے امکانات موجود ہیں اور کوئی آڈٹ نہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ۔ ملک میں معیشت کا پہیہ چلے گا تو آمدنی ہوگی۔ سرکار کے پاس ریونیو آئے گا تو اس کے پاس اخراجات کے لیے رقم ہوگی ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بجٹ میں ایسی کوئی چیز نظر ہی نہیں آرہی کہ جس سے معیشت کا پہیہ گھوم سکے ۔ سب سے اہم چیز بجلی و گیس کی قیمتیں ہیں جو کسی بھی شے کی پیداواری لاگت میں اہم ترین کردار ادا کرتی ہیں مگر وفاقی بجٹ میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے ۔ اسی طرح سے ٹیکسٹائل کا شعبہ برآمدات کے لیے زیرو ریٹ ٹیکسیشن رجیم کا مسلسل مطالبہ کررہا ہے ۔ اس سے سب سے اہم فائدہ یہ ہے کرپشن کا چور دروازہ ہی بندہوجاتا ہے ۔ نہ کوئی ٹیکس دے گا اور نہ ٹیکس ریفنڈ کے کلیم آئیں گے مگر اس مطالبے کو بھی حکومت نے درخور اعتنا نہیں سمجھا ۔ کورونا کے باعث دنیا تبدیل ہوچکی ہے اور اس وقت دنیا شدید کساد بازاری سے گزر رہی ہے ۔ ایسے میں ملک کے معاشی حالات کو بہتر بنانے کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت تھی ۔ پہلے ہی بجٹ خسارہ 45 فیصد سے زاید ہے تاہم حکومت نے آمدنی کے جو اہداف مقرر کیے ہیں وہ بھی غیر حقیقی ہیں جس کے باعث خدشات ہیں کہ یہ خسارہ مجموعی طور پر 60 فیصد تک ہی نہ پہنچ جائے ۔ رواں مالی سال میں ٹیکس جمع کرنے والے ادارے ایف بی آر کے ریونیو جمع کرنے کے اہداف میں کئی مرتبہ نظر ثانی کی گئی ، اس کے باجود ایف بی آر اپنے اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ملک کے معاشی حالات ہی ہیں ۔ عوام کو پہلے ہی نچوڑ لیا گیا ہے ، ان کوآمدنی ہوگی تو وہ ٹیکس دیں گے ۔ اس کے علاوہ ملک میں ٹیکس جمع کرنے کا سادہ نظام حکومت اپنانے سے انکاری ہے جس کی وجہ سے ٹیکس جمع کرنے والے اداروں کے ارکان تو پھل پھول رہے ہیں مگر ملک کو کچھ حاصل نہیں ہوپاتا ۔ سرکار میں بیٹھے بزرجمہر خود کہہ رہے ہیں کہ غربت میں اضافہ ہوگا ، اسٹیٹ بینک کی رپورٹ بتارہی ہے کہ ملک میں ہونے والی مہنگائی خطے میں سب سے زیادہ ہے ،اس کے باوجود سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ نہ کرنے کا یہی مطلب ہے کہ حکومت سمجھتی ہے کہ لوگ غربت کی لکیر کو عبور کررہے ہیں تو درست ہے ۔ اصولی طور پر تو ایسا نظام تشکیل دیا جانا چاہیے کہ نجی اداروں میں بھی کم از کم تنخواہ کی ادائیگی کو یقینی بنایا جائے چہ جائیکہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں ہی اضافہ نہ کیا جائے ۔ کم از کم گریڈ16اور اس سے نیچے کے ملازمین کی تنخواہ میں کچھ تو اضافہ کیا جائے اور تاریخ کی سب سے بڑی51رکنی کابینہ میں کمی کی جائے۔