سندھ اسمبلی صوبائی حکومت کی ’’ آئینہ دکھائی ‘‘

267

محمد انور
آئیے آج ہم اندازہ لگاتے ہیں کہ سندھ گورنمنٹ کوروناوائرس سے لوگوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کس حد تک مخلص ہے اور اس مقصد کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے۔ اس حکومت نے 2014 میں سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن ( ایس ایچ سی سی ) قائم کیا جس سے کا مقصد تمام اسپتالوں، کلینکس ، لیبارٹریز کے نظام کو قانون کے دائرے میں لانا ان کی من مانیا ںختم کرنا تھا اس کمیشن کا دائرہ کار صرف ایلوپیتھک اسپتال کلینکس اور لیبارٹری ہی نہیں بلکہ یونانی اور ہومیوپیتھک اسپتال میدیکل اسٹورز و لیبارٹریز بھی ہے ۔ تاہم میں ابھی کوروناوائرس کے تناظر میں اپنی تحریر کو ایلوپیتھک اسپتال ، لیبارٹریز اور کلینکس تک محدود رکھنا چاہوں گا۔
چند روز قبل مختلف چینلز نے کوروناوائرس کے مریضوں کے حوالے سے ایک خبر چلائی کہ مختلف بڑے اسپتال کوروناوائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے خصوصا وینٹیلیٹرز چارجز کی مد میں ڈیڑھ لاکھ روپے سے دس لاکھ روپے تک وصول کررہے ہیں اس خبر میں آغاخان اسپتال اور ساؤتھ سٹی اسپتال سمیت دیگر کا بھی ذکر تھا۔ اس خبر کے نشر ہونے کے بعد اچانک ہی سندھ گورنمنٹ فعال ہوئی اور صوبائی وزیر صحت عذرا پیچوہو کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنادی جسے اسپتالوں کی طرف سے زائد چارجز وصول کرنے کے الزام کے حوالے سے انکوائری کا ٹاسک دیا گیا۔ اس کمیٹی کے قیام کا مقصد کیا ہے اس کا اندازہ تو صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پوری کمیٹی مختلف اسپتالوں کے مالکان یا انتظامی افسران پر مشتمل ہے ۔ کمیٹی کے ارکان میں لیاقت نیشنل اسپتال کے میڈیکل ڈائریکٹر ڈاکٹر سلمان فریدی ، انڈس ہسپتال کورنگی کے چیف ایگزیکیٹو آفیسر ڈاکٹر عبدالباری جیلانی ، انکل سریا اسپتال کے ڈاکٹر زرکیز انکل سریا ، ضیاء الدین ہسپتال کے چیئرمین ڈاکٹر عاصم حسین ، ساوتھ سٹی اسپتال کی ڈاکٹر سعدیہ رضوی ، اور صوبائی سیکریٹری ہیلتھ کی ٹیکنکل ایڈوائزر اعجاز خانزادہ شامل ہیں۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ س کمیٹی کے قیام کا اصل مقصد یہ ہے کہ کوروناوائرس کے مریضوں کے لیے اسپتالوں میں 20 فیصد بستر مخصوص کیے جائیں گے لیکن اس اہم کمیٹی میں پرائیویٹ اسپتالوں کی انتظامیہ کے دباؤ پر سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کی نمائندگی شامل نہ کرکے نجی اسپتالوں کو قانوں کا پابند نہ بننے کی چھوٹ دی گئی ہے۔ خیال رہے کہ سندھ گورنمنٹ شہر کے بعض اسپتالوں کو کوروناوائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے کروڑوں روپے کے فنڈز بھی جاری کرچکی ہے اس کے باوجود سوائے ڈائون یونیورسٹی ، سول اور جناح اسپتال کے کسی اسپتال میں کورونا کے مریضوں کا مفت علاج نہیں کیا جارہا جبکہ گورنمنٹ بھی اس حوالے سے پرسرار طور پر خاموش ہے۔ جب کہ سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن کے قابل اعتماد ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کمیشن کی رٹ قائم کرنے کے لیے بالکل بھی تعاون نہیں کررہی اوریہ تک نہیں بتارہی ہے کہ اس نے انڈس اور دیگر اسپتالوں کو کوروناوائرس کے حوالے سے کتنی رقم فی مریض دی ہے۔
صوبائی حکومت خصوصا محکمہ صحت کی ذمے داریوں کے حوالے سندھ اسمبلی کے غیر حکومتی و اپوزیشن کے اراکین حلیم عادل شیخ ، نصرت سحر عباسی اور خواجہ اظہار الحسن نے بھی حکومت کو اسمبلی کے رواں سیشن میں ” آئینہ ” دکھایا ہے۔ جماعت اسلامی کے اسمبلی میں واحد رکن عبدالرشید نے اسی سیشن کے ایک اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے سول اسپتال کو 15 کروڑ لیاری جنرل اسپتال کو چھ کروڑ ، لیاقت میڈیکل یونیورسٹی اسپتال کو سات کروڑ ، شہید بے نظیر اسپتال کو 5 کروڑ لاڑکانہ چانڈکا میڈیکل کو 5 کروڑ غلام محمد مہر اسپتال سکھر کو 5 کروڑ ، سروسز اسپتال کراچی کو 5 کروڑ مجموعی 50 کروڑ روپے دینے سے قبل اے ایم ایس بھی تحفے میں دیے ہیں۔ عبدالرشید نے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ میں لیاری جنرل اسپتال کی بات کرتا ہوں ، میں نے سی ایم صاحب اور وزیر صحت عذرا پیچوہو صاحبہ سے بھی بات کی ہے کہ ” جب پیسے آپ نے ریلیز کیے تو اسے چیک کرنا بھی آپ کی ذمے داری ہے ، ان اسپتالوں میں وہ ایم ایم ایس تحفے میں دیے کہ جو ڈاکٹر ڈیوٹی کرنا نہیں چاہتا اسے 30 ہزار روپے کے عوض چھٹکارا مل جاتا ہے جو سنیٹری ورکرز مستقل وہاں کے ہیں ان کی جگہ کورونا کے لیے خصوصی رکھ کر اصل کی نصف تنخواہ کھائی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانچ دن پہلے ایک 72 سالہ مریض کو آئی سی یو سے ٹراما وارڈ میں منتقل کرنا تھا مگر اسپتال کی لفٹ نہیں تھی جس کی وجہ سے مریض کے رشتے داروں نے کندھے پر ڈال کرسیڑھیوں سے نیچے اتارا اس دوران وہ نیچے گرگیا جس سے اس کی پسلیاں ٹوت گئیں۔عبدالرشید نے اسپیکر سے سوال کیا کہ میڈم کیا یہ اقدام قتل نہیں ہے۔انہوں نے سندھ سیکریٹریٹ کے شعبہ ہیلتھ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہاں سے کسی افسر کو اپنا نوٹیفکیشن لینے کے لیے دس تا 30 ہزار روپے رشوت دینی پڑتی ہے۔جو سی ایم اسمبلی میں نظر اتے ہیں وہ باہر نظر آتے وہاں تو ڈی سی کی اور تھانیدار کی حکومت ہے۔لاک ڈائون کے دوران چھوٹے کاروبار والوں سے رشوت لے کر انہیں لاک ڈائون کی خلاف ورزی کی اجازت دی جاتی ہے۔
عبدالرشید جوان اور نیک دل رکن اسمبلی وہ روایتی اراکین اسمبلی میں سے نہیں مگر انہیں پتا ہے کہ عوام کی خدمت کیسے کی جاتی ہے اور حکومت پر کس طرح جمہوری ایوان میں دباؤ ڈالا جاسکتا ہے۔ وہ ملک کی سب سے بڑی جامعہ کراچی کے ناظم رہ چکے ہیں عملی سیاست کے طالبعلم ہیں اور سیاست عبادت سمجھ کر کرتے ہیں۔ ان کا جماعت اسلامی سے تعلق ہے جو ملک واحد کرپشن سے پاک جماعت ہے۔ عبدالرشید جب اسمبلی میں بولتے ہیں تو انداز بیاں قابل تعریف ہوتا ہے۔ پورے کراچی میں صرف لیاری وہ علاقہ ہے جہاں کے لوگوں نے اپنے لیے مخلص عوامی نمائندے عبدالرشید کو اسمبلی میں بھیج کر حق ادا کیا ہے۔